پاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار اور عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں درکار ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 19, 2024

پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے صدر جسٹس اے آر کارنیلئیس نے جب پاکستان کی نوزائیدہ کرکٹ ٹیم کی قیادت میاں سعید سے واپس لے کر عبدالحفیظ کاردار کو تھمائی تو اس فیصلے کے کئی دور رس مضمرات تھے جنھیں آنے والے عشروں میں اس کرکٹ کلچر کی سمت طے کرنا تھی۔

دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ میں کپتان فیلڈ پر اپنے گیارہ کھلاڑیوں کا حتمی انچارج ہوتا ہے اور اپنی سربراہی میں وہ نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پوری قوم کے کرکٹ کلچر کی سمت متعین کرتا ہے۔

کاردار اگرچہ میاں سعید جیسے خام ٹیلنٹ نہیں تھے مگر انھیں لاہور کی گلیوں میں پلے بڑھے میاں سعید پر ثقافتی برتری حاصل تھی کہ وہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے تھے اور برطانیہ میں بھی کرکٹ کھیل چکے تھے۔

کاردار کی قیادت میں پاکستان وہ ٹیسٹ ٹیم بنی جس نے پاکستان کے دورے پر آئی ایم سی سی (انگلینڈ) کی ٹیم کو شکست دے کر پہلے ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کیا اور پھر اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انڈیا کے خلاف لکھنؤ میں ایک تاریخی فتح حاصل کر لی۔

کاردار ایک آمرانہ مزاج، نظم و ضبط کے پابند اور ٹریننگ میں زیرو ٹالرینس پالیسی پر کاربند کپتان تھے۔ ان کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ کی جو پہلی فصل تیار ہوئی، اس نے انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کی پہلی ہی دہائی میں جنوبی افریقہ کے سوا تمام ٹیسٹ ممالک کے خلاف کم از کم ایک میچ اپنے نام کیا۔ (جنوبی افریقی ٹیم تب صرف سفید فام اقوام کے خلاف کھیلا کرتی تھی۔)

پاکستان جیسے متنوع کلچر میں ایسی ٹیم کی قیادت کرنا آسان نہیں جس کی اکثریت عموماً اچھی تعلیم اور عمدہ مالی بیک گراؤنڈ کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ جو خام ٹیلنٹ اپنی ناپختگی کی پُرجوش دلیل لے کر اس ڈریسنگ روم میں داخل ہوتا ہے، اسے تراشنا بہرحال کپتان اور کوچ کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔

کاردار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب پاکستان کی ناکامیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا تو بورڈ نے ایک اور کاردار بنانے کا فیصلہ کیا اور ایچیسن کے تعلیم یافتہ جاوید برکی کو کپتان بنایا گیا۔ گو برکی بطور کپتان موثر نہ رہے مگر کچھ مدت بعد بورڈ نے ایک اور کاردار متعارف کروایا جس نے بالآخر پاکستان کو 1992 کا ورلڈ کپ دلوایا۔

Getty Images

عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ دنیا بھر کی مضبوط ترین ٹیموں کے ہم پلّہ آئی۔ اگرچہ یہ دور بھی آف فیلڈ تنازعات، قاسم عمر کے منشیات سے متعلق الزامات اور یونس احمد کے حشیش بارے انکشافات سے بھرپور رہا مگر آن فیلڈ ٹیم کی پرفارمنس اور ڈسپلن متاثر کن رہا۔

چونکہ ٹیم بیرون ممالک دوروں پر اچھا پرفارم کر رہی تھی اور شائقین کے ساتھ ساتھ پریس بھی نہال تھا، سو بیٹنگ گلووز میں چرس چھپا کر لے جانے والے قاسم عمر کے الزامات پر کان نہ دھرے گئے اور انھیں تاحیات پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کارکردگی کا تسلسل بہرحال اس ٹیم کے لیے ان الزامات میں سے راہِ نجات ثابت ہوا۔

مگر جو کرکٹ کلچر عمران خان کی سخت گیر قیادت میں پاکستان کے لیے بے شمار فتوحات سمیٹنے اور شاندار نئے فاسٹ بولرز کی آمد کا موجب بن رہا تھا، عمران کا سخت گیر ہاتھ سر سے ہٹتے ہی ایسا آزاد ہوا کہ اپنی دیوانگی میں وارفتہ ہو کر ایک پوری دہائی منشیات، افیئرز اور فکسنگ کے پے در پے الزامات میں گنوا بیٹھا۔

ورلڈ کپ 2003 میں پاکستان کی امیدوں کا جو حشر ہوا، اس نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر روح کی کھوج میں جانے پر مجبور کر دیا اور ایک نئے کرکٹ کلچر کا آغاز ناگزیر سمجھتے ہوئے پی سی بی نے انضمام الحق کو کپتان بنا دیا۔

انضمام ایک شاندار کرکٹنگ ذہن تھے مگر وہ اپنے پیشروؤں کی طرح نہ تو انگریزی محاورے میں رواں تھے اور نہ ہی انھیں ’مین مینیجمنٹ‘ کا وہ ایکسپوژر حاصل تھا جو آکسفرڈ کے پڑھے کاردار اور ایچی سن کے نکھارے عمران خان کو میسر تھا اور پھر بطور شخصیت بھی وہ وسیم اکرم جیسے متاثر کن نہ تھے۔

اس امر کی کوئی حتمی تاویل تو نہیں ہو سکتی کہ انضمام نے ٹیم میں مذہبی کلچر کیوں متعارف کروایا۔ اپنی کتاب ’کرکٹ کالڈرن‘ میں سابق چئیرمین پی سی بی شہریار خان لکھتے ہیں کہ یہ مذہبی کلچر کافی عرصے سے ٹیم کے اندر پنپنے کی کوشش کر رہا تھا مگر انضمام کو قیادت ملتے ہی گویا اس کا راستہ صاف ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے’پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن‘پاکستان کی کرکٹ کے ’متنازع‘ کھلاڑیوں میں کون کون شامل؟شرارتی جاوید میانداد جنھیں ابتدا میں صرف فیلڈنگ کے لیے میدان میں اُتارا جاتا تھا

گو آج کرکٹ شائقین سٹائلش جارحانہ بلے باز سعید احمد سے واقف نہیں مگر اپنے کرئیر میں ’پارٹی اینیمل‘ کہلائے جانے والے سعید احمد بعد ازاں ایک مذہبی جماعت سے وابستہ ہو گئے اور 1999 میں اچانک پھر سے پاکستان کرکٹ کے قریب آ گئے۔

میچ فکسنگ انکوائری کے لیے تشکیل دیے گئے جسٹس قیوم کمیشن نے جن کھلاڑیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا، ان میں سے تین نام مشتاق احمد، سعید انور اور انضمام الحق کے بھی تھے۔ حسنِ اتفاق کہ اس رپورٹ کے کچھ ہی عرصہ بعد ان تینوں کرکٹرز میں مذہب کی طرف رجحان بڑھتا نظر آیا اور ان کے ظاہری حلیہ میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

بعض مبصرین اس کو ان کھلاڑیوں کی ’ندامت‘ اور رجوع پر محمول کرتے ہیں تو بعض بدگمان مُصر ہیں کہ یہ ساری کارروائی دائیں بازو کی اکثریت رکھنے والے پاکستان میں عوامی ہمدردی حاصل کرنے اور قیوم رپورٹ سے دامن پر پڑے چھینٹے دھونے کی کاوش تھی۔

وجوہات بہرحال جو بھی ہوں، 2004 کے بعد کی پاکستان کرکٹ ٹیم اپنے حلیے اور آف فیلڈ سرگرمیوں میں اپنے اس امیج کے بالکل برعکس تھی جو پچھلی ڈیڑھ دہائی میں اس نے کچھ ناقابلِ یقین فتوحات، حیران کن الزامات، پارٹی کلچر اور منشیات بارے چہ میگوئیوں سے کمایا تھا۔

اب اس ٹیم میں شمولیت کے لیے کرکٹنگ کریڈینشلز سے زیادہ اہم مذہبی میلانات ٹھہرے کہ جہاں بقول مصنف اور محقق ندیم فاروق پراچہ کے مصباح الحق اور سعید اجمل محض اس لیے نظر انداز کیے گئے کہ وہ نہ صرف مذہبی نمود کے قائل نہ تھے بلکہ کپتان کے مکتبِ فکر سے مختلف خیالات کے پیروکار تھے۔

انضمام کی قیادت میں پاکستان کے کرکٹ کلچر نے ایک نئی سمت تو لی مگر کرکٹنگ پیرائے میں یہ سمت ویسی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔

اگرچہ اس دور میں پاکستان دو طرفہ کرکٹ میں خوب رہا اور باب وولمر کی کوچنگ کے دوران انڈیا کے خلاف ریکارڈ بھی اس قدر برتر رہا کہ رائٹ ونگ اکثریت پر مبنی پاکستانی شائقین وارفتہ ہوتے رہے مگر ورلڈ کپ 2007 کی تباہ کن پرفارمنس اور باب وولمر کی ناگہانی موت نے گویا اس مذہبی نمود کے کلچر کو بھی بدلنے پر مجبور کر ڈالا۔

مگر تب تک یہ کرکٹ کلچر دو عجیب انتہاؤں میں گِھر چکا تھا جہاں ایک انتہا پر پارٹی کلچر اور میچ فکسنگ تھی تو دوسری انتہا پر ایسی گہری مذہب پسندی آ گئی کہ جہاں بقول باب وولمر، سارا وقت مذہبی مصروفیات میں گزر جاتا اور درپیش میچز کی سٹریٹیجی طے کرنے کو ٹیم میٹنگز بلانا بھی ممکن نہ رہ پاتا۔

انضمام کے بعد کے چار سال پھر پاکستان انھی مسائل میں الجھا رہا جو نوے کی دہائی کے کرکٹ کلچر کا خاصہ تھے اور بالآخر پاکستان کو لارڈز 2010 تک لے گئے جہاں ناصرف قومی توقیر گنوائی گئی بلکہ دنیا کے دو بہترین فاسٹ بولرز بھی کھو دیے گئے۔

اور پھر پاکستان کو ایک اور کاردار ملا۔

یہ کاردار ویسا متمول تو نہ تھا اور نہ ہی اس کے سر پر ایچیسن یا آکسفرڈ کی سکولنگ کا طُرہ سجا تھا لیکن میانوالی سے تعلق رکھنے والے مصباح الحق کی شخصیت اور مزاج میں وہ تمام عناصر موجود تھے جو پاکستان کرکٹ جیسے منہ زور گھوڑے کو ایسی لگام ڈال سکتے تھے کہ اس کی قیادت کے سات برس میں ڈریسنگ روم پر اتنا سکون طاری ہوا کہ سپورٹس رپورٹرز کو اپنے ضمیمے بھرنے کے لیے محض افواہ سازیوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔

آج پاکستان کرکٹ ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑی سوچ رہی ہے کہ کدھر کو منہ کرے۔ محسن نقوی جذبات میں بہہ کر ’میجر سرجری‘ کی بات تو کر گئے مگر اب نبھانے پر آئی تو طے ہی نہیں کر پا رہے کہ عبدالرزاق اور وہاب ریاض کی ’قربانی‘ کے علاوہ کیا ایسا قدم اٹھائیں جس سے ان کا نام چار دانگِ عالم میں گونجنے لگے۔

لیکن کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے انھیں معلوم رہنا چاہیے کہ ڈیڑھ دہائی پہلے جب نظریہ ضرورت کے تحت، چئیرمین اعجاز بٹ نے مصباح الحق کو کپتان مقرر کیا تھا تو یہ پاپولسٹ فیصلہ نہیں تھا بلکہ میڈیا کی رو کے بہاؤ کے بالکل الٹ سمت جا کر، انھوں نے اس معمر بلے باز کو کپتان بنانے کا فیصلہ کیا جس پر وسیم اکرم کو بھی حیرت ہوئی تھی۔

اگرچہ وہاب ریاض کی برطرفی ایک پاپولسٹ فیصلہ ہے مگر دراصل یہ بھی اسی قدر موثر ہو گا جس قدر محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی کا فیصلہ تھا۔

اگر محسن نقوی پاکستان کرکٹ کے بہتر مستقبل کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں پاپولسٹ روش سے ہٹ کر قدم اٹھانا ہو گا اور اس ٹیم کے لیے پھر سے کوئی کاردار لانا ہو گا جو اس بھٹکتے ہوئے کرکٹ کلچر کو راہِ راست پر لا سکے۔

کرکٹ کی تاریخ پر پی سی بی کی ویڈیو سے عمران خان غائب: ’کیا آپ کھیل کو بھی منقسم کرنا چاہتے ہیں؟‘کیا کامیاب کرکٹر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کامیاب کوچ بھی ثابت ہوں؟مصباح الحق: ’بچپن میں شرارتی تھا، فوج میں جانا چاہتا تھا لیکن والد کی وفات نے سب بدل دیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More