فچ رپورٹ نے پاکستان میں ’فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنوکریٹ حکومت‘ کی پیش گوئی کیوں کی؟

بی بی سی اردو  |  Jul 18, 2024

Getty Images

’عدالتوں سے شنوائی کے باوجود عمران خان کے ابھی جیل سے باہر آنے کا امکان نہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اگلے 18 ماہ تک بھی برسراقتدار رہے گی اور آئی ایم ایف کے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے گی۔‘

’اگر کسی صورت میں حکومت چلی بھی جاتی ہے تو متبادل کے طور پر نئے انتخابات کے بجائے زیادہ امکان فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنوکریٹس حکومت کے ہیں۔‘

یہ معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے ’فچ‘ کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ کے الفاظ ہیں جس کے بعد ایک جانب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ایک عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے اس تبصرے یا پیش گوئی کی بنیاد کیا ہے اور اس رپورٹ کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

کیا ماضی میں بھی عالمی ادارے اس طرح کسی ملک کے سیاسی حالات پر تبصرے کرتے رہے ہیں؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے مختلف معاشی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔

فچ رپورٹ کیسے تیار کرتا ہے؟

عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ اور معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق کے مطابق معاشی درجہ بندی کرنے والے اداروں کا ایک میکنزم ہوتا ہے۔ ’وہ سیاسی پہلو کو بھی دیکھتے ہیں تو سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہوں گے۔‘

’سٹیٹ بینک حکام سے لے کر دیگر اداروں سے ملتے ہیں اور حکام سے بات کرتے ہیں۔ معیشت پر رپورٹس اور اعدادوشمار لیے جاتے ہیں۔ وہ حکام سے معلومات حاصل کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنا تجزیہ کرتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں یہ ادارے اپنے لحاظ سے ’فیئر‘ تجزیہ کر رہے ہوتے ہیں۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ’سرکاری ملاقاتوں اور اعدادوشمار کے علاوہ درجہ بندی کرنے کے لیے ان اداروں کے اپنے ذرائع بھی ہوتے ہیں۔‘

’یہ اس ملک کے متعلق شائع ہونے والی خبروں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’یہ بات پہلے دن سے کی جا رہی تھی کہ یہ حکومت 18 ماہ کے لیے آئی ہے تو ہو سکتا ہے کہ فچ نے بھی ان خبروں کے زیر اثر پانچ سال کے بجائے 18 ماہ کے عرصے کا ہی ذکر کیا ہے۔‘

فوج کی حمایت میں قائم ہونے والے ٹیکنوکریٹ انتظامیہ سے متعلق تبصرے پر ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ فچ نے اپنے ذرائع سے یہ بات یا تجزیہ پیش کیا ہوگا۔

تاہم وزارت خزانہ کے سابق ترجمان اور ماہر معاشی امور ڈاکٹر نجیب خاقان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی وزارت خزانہ کو یہ وضاحت دینی چاہیے کہ فچ کی ٹیم اس نتیجے پر کیسے پہنچی۔‘

ان کے مطابق ایک درجہ بندی کے ادارے کی طرف سے ’کسی ملک کے اندرونی حالات پر اس طرح کا تبصرہ مناسب نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستانی حکام یہ بات یقینی بنا سکتے تھے کہ اس رپورٹ کے آنے سے پہلے اس طرح کے تبصرے کے الفاظ بہتر ہوتے کیونکہ اب جب باہر کے لوگ اس طرح کا تبصرہ پڑھیں گے تو پاکستان پر ان کا اعتماد کمزور ہو گا۔‘

Getty Imagesرپورٹ میں کیا کہا گیا ہے اور یہ اہم کیوں ہے؟

واضح رہے کہ فچ نے پاکستان سے متلعق اپنی اس تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح کم ہوسکتی ہے۔‘

ایجنسی کے مطابق توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود کم کر کے 14 فیصد تک لے آئے گا۔ اس وقت یہ شرح 20.5 فیصد ہے۔

فچ کے مطابق حکومت پاکستان نے بجٹ میں مشکل ترین معاشی اہداف مقرر کیے ہیں۔ پاکستان مالیاتی خسارہ 7.4 فیصد سے کم کرکے 6.7 فیصد پر لانا چاہتا ہے۔

فچ کے مطابق حکومتِ پاکستان کے مشکل معاشی فیصلے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا معاشی رسک بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ہے۔

معاشی ماہر خرم شہزاد کی رائے میں ’پاکستان سے متعلق اس رپورٹ کو مثبت نہیں کہا جا سکتا۔‘

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ عالمی درجہ بندی کے ادارے معاشی رسک کے علاوہ کسی ملک میں سیاسی رسک کو بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ادارے رپورٹ میں وہی کچھ لکھتے ہیں جو کسی ملک میں ہو رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق کے مطابق ’فچ تو دسری درجہ بندی کی ایجنسیوں سے قدرے نئی ایجنسی ہے مگر یہ تمام ایجنسیاں معاشی کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کا بھی جائزہ لیتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب کوئی غیرملکی سرمایہ کار کسی اور ملک جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے ایسے ملک کی درجہ بندی کو دیکھتے ہیں۔‘

’اگر کسی ملک کی درجہ بندی اچھی نہیں ہے تو پھر ایسے میں سرمایہ کار بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا۔‘

ان کے خیال میں فچ کے سیاسی امور پر تجزیے کا پاکستان پر اثر تو ہو گا مگر ’یہ ضرور ہے کہ درجہ بندی کی یہ رپورٹ بہت متوازن لگ رہی ہے۔‘

معاشی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ درجہ بندی فچ کے ایک ماتحت ادارے بی ایم آئی نے کی ہے جو سیاسی خطرات سے متعلق رپورٹ مرتب کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس رپورٹ میں جس طرح ڈیڈھ برس میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں فوج کی طرف سے نئی حکومت تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے ’اس طرح درجہ بندی کے ادارے کبھی تبصرے نہیں کرتے۔‘

ان کے مطابق ’موڈیز اور ایس اینڈ پی گلوبل جیسے درجہ بندی کے ادارے سیاسی حالات پر ماضی میں بھی ضرور بات کرتے آئے ہیں مگر وہ ٹرینڈز اور حالات پر تبصرہ یا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر ان کی وجوہات بھی دیتے ہیں مگر کبھی حکومتوں کی تبدیلی اور کسی ممکنہ نئی حکومت کے خدوحال کسی نے کبھی کسی نے نہیں بتائے۔‘

ان کے مطابق ’اس پیش گوئی کی کیا بنیاد ہے، اس رپورٹ کو پڑھ کر اس بارے میں معلومات نہیں ملتی ہیں۔‘

’سیاسی مفادات‘ پر مبنی فیصلے یا ناقص حکمت عملی: پاکستانی معیشت اس نہج تک کیسے پہنچی؟سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ: پاکستان کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کون ہے؟رپورٹ کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ اور معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے لیے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس رپورٹ میں معاشی اعشاریے بہتر دکھائے گئے ہیں۔

’کرنسی کو مستحکم اور شرح سود کے کم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔‘ ان کی رائے میں پاکستان کی معیشت سے متعلق اس ایجنسی کے تبصرے مثبت ہیں۔‘

Getty Images

ثنا توفیق کے مطابق اسی طرح کی ایک رپورٹ معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے موڈیز نے بھی پاکستان کے حوالے سے جاری کی ہے، جس میں پاکستان کے معاشی عشاریوں کو مثبت دکھایا گیا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہتر فنڈنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

موڈیز کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام سے پاکستان کے لیے فنڈنگ کے امکانات میں بہتری آئے گی اور نیا آئی ایم ایف پروگرام فنانسنگ کے معتبر ذرائع فراہم کرے گا۔

موڈیز کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی، زیادہ ٹیکسز، توانائی کے نرخوں میں اضافہ، کمزور گورننس اور بڑھتا سماجی تناؤ حکومت کی اصلاحات کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔

موڈیز نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’مشکل اصلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کا مضبوط انتخابی مینڈیٹ نہ ہونا خطرات پیدا کر سکتا ہے۔‘

خرم شہزاد کی رائے میں ’موڈیز نے صرف خطرات کی بات کی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ کتنے ماہ میں اور کون سی نئی حکومت آئے گی۔‘

ان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ فچ نے اپنے ماتحت ادارے بی ایم آئی کو سیاسی خطرات پر ہی رپورٹ مرتب کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔

تاہم سابق وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سیاسی تبصرہ یا تجزیہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک معیشیت سے جڑی حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکامکی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’عالمی ادارے اور سرمایہ کار اس بات کو ضرور دیکھتے ہیں کہ کیا کسی ملک میں حکومت ٹھہر سکتی ہے یا نظام حکومت درست طریقے سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔‘

ان کے مطابق پاکستان کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی کہ آخر کیوں اس طرح کے خدشات عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں۔

ثنا توفیق کے مطابق ’جب اتنی بڑی درجہ بندی کے ادارے سیاسی پہلو پر تبصرہ کرتے ہیں تو اس کے اثرات تو ملک پر پڑتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں اس رپورٹ میں سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشی خطرات کے پہلو سے بات کی گئی ہے۔

ثنا توفیق کے مطابقرپورٹ میں ممکنہ خطرات کا تجزیہ کیا گیا ہے ’مگر پاکستان کے لیے کیا ہوگا سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ’کس کے امکانات‘ ہیں۔

معاشی امور کے ماہر ارسلان آصف سومرو بھی ثنا توفیق کی اس بات سے متفق ہیں کہ درجہ بندی میں سیاسی تبصرے، تجزیہ اور پیش گوئیاں ضرور ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایجنسیاں اپنی درجہ بندی کو بہتر بھی کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’جب عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور پھر ملک میں ایک نگران حکومت کا دور آیا تو اس وقت پاکستان کی ان عالمی اداروں کی نظر میں سیاسی درجہ بندی بہت خراب تھی مگر پھر جب انتخابات ہو گئے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو درجہ بندی میں بہتری دیکھنے میں آئی۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات کی وجہ سے ماضی میں ڈیفالٹ تک کی پیش گوئیاں کی جا چکی ہیں مگر پھر ان اداروں نے ہی تسلیم کیا کہ وہ پیش گوئیاں درست ثابت نہیں ہوئیں۔‘

ارسلان آصف کے مطابق رائے میں ’ابھی جب پھر یہ درجہ بندی کے ادارے رپورٹ جاری کریں گے تو پھر اس رپورٹ میں وہ سیاسی درجہ بندی کو بھی بہتر کریں گے کیونکہ بظاہر پاکستان میں اس وقت حکومت مستحکم ہے اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی روشنی میں اصلاحات نافذ کرنے کے راستے پر ہے۔‘

’سیاسی مفادات‘ پر مبنی فیصلے یا ناقص حکمت عملی: پاکستانی معیشت اس نہج تک کیسے پہنچی؟سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ: پاکستان کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کون ہے؟حکومت نے عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More