دو روز تک لفٹ میں پھنسے رہنے والا شخص: ’میں نے سوچا میں زندہ نہیں رہوں گا‘

بی بی سی اردو  |  Jul 18, 2024

ذرا تصور کریں کہ آپ لفٹ میں پھنس جائیں اور وہ بھی دو دن کے لیے۔ ایسا ہی کچھ انڈین ریاست کیرالہ میں ہوا جب ایک شخص 42 گھنٹوں کے لیے لفٹ میں پھنسا رہا۔

59 برس کے رویندرن نائر، جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) سے تعلق رکھتے ہیں، گذشتہ سنیچر کی دوپہر سے پیر کی صبح تک لفٹ میں پھنسے رہے۔

رویندرن نائرنے بتایا کہ چار ماہ قبل باتھ روم میں گرنے کی وجہ سے ان کی کمر میں تکلیف رہتی ہے اور اسی لیے وہ اپنی بیوی سری لکھا کے ساتھ تھرواننتھا پورم میڈیکل کالج ہسپتال کی دوسری منزل پر آرتھوپیڈکس کے ماہر ڈاکٹر سے ملنے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے ہم وقت پر وہاں پہنچ گئے۔ ’میں اپنی کمر کا ایکسرے کروانے گیا تھا۔ ایکسرے کے بعد ڈاکٹر نے مجھے خون کی رپورٹ دکھانے کو کہا جو ہم گھر چھوڑ آئے تھے۔‘

’میں گھر گیا اور رپورٹ لے آیا لیکن چونکہ ہم دونوں میاں بیوی کام سے لیٹ ہو رہے تھے تو میں نے سیڑھیوں کی بجائے لفٹ کا انتخاب کیا۔‘

’میں نے سوچا میں زندہ نہیں رہوں گا‘

رویندرن نائر بتاتے ہیں کہ ’جب میں بارہ بج کر پانچ منٹ کے قریب لفٹ نمبر 11 میں داخل ہوا تو مجھے پتا چلا کہ اس میں کوئی اٹینڈنٹ نہیں لیکن اندر سب کچھ نارمل تھا۔‘

اور پھر جیسے ہی انھوں نے دوسری منزل پر جانے کے لیے بٹن دبایا تو اس کے بعد کچھ بھی نارمل نہ رہا۔ ہوا کچھ یوں کہ لفٹ دوسری منزل کے قریب پہنچی اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے نیچے آئی اور دونوں منزلوں کے درمیان پھنس گئی۔

رویندرن نے اس صورتحال میں ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا، جو لفٹ میں لکھا ہوا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

رویندرن نے اپنی بیوی سمیت بہت سے لوگوں کو فون کیا جو ان کی مدد کے لیے آ سکتے تھے لیکن نیٹ ورک میں کوئی مسئلہ تھا اور فون نہیں لگ رہا تھا۔

’اس کے بعد میری گھبراہٹ بڑھ گئی اور شور مچانے کے لیے میں نے لفٹ کو زور سے پیٹنا شروع کر دیا۔ پھر اسی اندھیرے میں میرا فون کہیں گر گیا اور اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔‘

یہ بھی پڑھیےامریکی خاتون تین دن تک لفٹ میں پھنسی رہیں!’لفٹ بند جبکہ سیڑھیوں پر آگ لگی تھی‘: کراچی میں آتشزدگی کے بعد محمد عامر نے اپنے بیٹے سمیت 25 افراد کی جان کیسے بچائیپتریاٹہ: رات بھر کیبل کار میں پھنسے لوگوں کی کہانی

رویندرن کہتے ہیں کہ میں چیختا رہا اور دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا رہا۔ ’روشنی بالکل نہیں تھی لیکن کچھ سوراخ تھے جن سے میں سانس لے سکتا تھا۔‘

رویندرن نے بتایا کہ ’میں بار بار اس امید پر لفٹ میں مدد کے لیے نصب گھنٹی بجا رہا تھا کہ کوئی میری مدد کو آئے گا۔‘

’اندر مکمل اندھیرا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ دن ہے یا رات اور پھر میں تھک ہار کر سو گیا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے لگا کہ میں زندہ نہیں رہوں گا۔ مجھے اپنی بیوی، بچوں اور خاندان کی فکر ہونے لگی لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالا تاکہ میں اس سے باہر آ سکوں۔‘

رویندرن کی جیب میں بلڈ پریشر کی ایک یا دو گولیاں تھیں لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے وہ انھیں کھا نہیں سکتے تھے اور ان کا منھ اتنا خشک ہو گیا تھا کہ وہ ان گولیوں کو نگل بھی نہیں سکتے تھے۔

پھر رویندرن کو خیال آیا کہ کوئی لفٹ ٹھیک کرنے تو آئے گا لیکن یہ تقریباً 42 گھنٹے بعد ہوا۔

’پیر کی صبح تقریباً چھبجے کا وقت تھا۔ لفٹ آپریٹر نے دروازہ کھولا اور مجھے چھلانگ لگانے کو کہا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا اور لفٹ میں لیٹ گیا تھا۔‘

اہلخانہ نے گمشدگی کی رپورٹ درج کرا دی

رویندرن کی اہلیہ سری لکھا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس دوران انھوں نے اپنے شوہر کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔

ان کے بیٹے ہری شنکر نے بتایا کہ ’کئی بار وہ ہسپتال سے سیدھے کام پر جاتے تھے، اس لیے ہم اتوار کی صبح تک انتظار کرتے رہے۔ فون ٹوٹا ہوا تھا، اس لیے پولیس کو جی پی ایس لوکیشن بھی نہ مل سکا۔‘

سری لکھا کہتی ہیں کہ ’رویندرن بہت پرسکون طبیعت کے مالک ہیں لیکن وہ اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت غصے میں آ جاتے ہیں۔ وہ بار بار یہی کہتے ہیں کہ اگر دل کے مریض کے ساتھ ایسا ہوتا تو کیا ہوتا یا ان کی جگہ اگر کوئی حاملہ عورت ہوتی تو کیا ہوتا؟‘

کیرالہ کی وزیر صحت نے منگل کے روز رویندرن نائر سے ہسپتال میں ملاقات کی، جہاں وہ زیر علاج ہیں۔

سری لکھا نے بتایا کہ ہسپتال حکام اور وزیر صحت نے اس واقعے کے لیے ’ان سے معذرت‘ کی۔

وزیر صحت کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ذمہ داروں کے خلاف بغیر کسی رعایت کے سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

کیرالہ کے محکمہ صحت نے انکوائری کا حکم دیا ہے اور تین لفٹ ٹیکنیشنرز کو معطل کیا گیا ہے۔

آلائی کیبل کار حادثہ: ’ہماری حالت ایسی تھی جیسے قبر کے کنارے پر کھڑے ہوں‘95ویں منزل سے لفٹ گری لیکن لوگ محفوظ رہےانڈونیشیا میں خاتون کی ایئرپورٹ کی لفٹ سے گرنے سے ہلاکت: ’ایک عالمی معیار کےایئرپورٹ پر یہ کس قسم کی سکیورٹی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More