حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان کیا ایک ’سوچا سمجھا‘ فیصلہ ہے یا ’جلد بازی‘ میں اٹھایا گیا قدم؟

بی بی سی اردو  |  Jul 17, 2024

Getty Images

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے چند ہفتے قبل ہی قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران اپنے حریف عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ مگر پھر اچانک ان کی حکومت نے عمران خان پر غداری کا مقدمہ بنانے اور ان کی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا۔

لیکن اس اعلان کو ابھی ایک دن ہی ہوا تھا کہ حکمراں جماعت کی الجھن واضح ہو گئی اور یہ بھی نظر آ گیا کہ ایسے کسی فیصلے میں اتحادی جماعتیں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حکومتی اتحاد میں شامل کئی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انھیں اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

بیشتر سیاسی رہنماؤں نے اسے ’غیر جمہوری‘، ’غیر سیاسی‘ اور یہاں تک کہ ’جلد بازی‘ اور ’بوکھلاہٹ‘ میں کیا گیا ایک ’بچگانہ‘ فیصلہ قرار دیا ہے۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کے بعد حکمراں اتحاد دو تہائی اکثریت کھو سکتا ہے۔

یہی وہ اہم فیصلہ تھا جس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے وفاقی اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران تحریک انصاف پر سیاست کا دروازہ بند کرنے کی بات کہی۔

انھوں نے سائفر، فارن فنڈنگ اور دیگر مثالوں کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان اور ان کی جماعت ملکی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔

مگر اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ حکومت کے لیے ایسا کوئی فیصلہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے حکومتی اتحاد کے قائم رہنے پر ہی سوال اٹھا دیا ہے اور کہا ہے کہ ’اتحاد اس طرح نہیں چل سکتے۔‘

تو دوسری طرف بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ’اعلیٰ قیادت‘ کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور یہ کہ وہ اس فیصلے سے لاعلم نہیں تھے۔

مگر اسی بحث کے دوران وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو تسلیم کرنا پڑا اس فیصلے پر ابھی ’حتمی فیصلہ‘ ہونا باقی ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ابھی حتمی نہیں، کل وزیرِ اطلاعات نے جو اعلان کیا اس پر سیاسی جماعتوں اور اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ کوئی فیصلہ سیاسی نہیں ہوگا، فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی غیرملکی فنڈنگ لینے والی جماعت ہے، جسے یہودیوں اورمسیحوں نے بھی فنڈز دیے ہیں، تمام ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی فارن فنڈڈ جماعت ہے، پی ٹی آئی پر پابندی لگانےکے لیے آئینی و قانونی پہلو مد نظر رکھے جائیں گے، ہمیں ملکی سلامتی اور استحکام کو مقدم رکھنا چاہیے، جو ملکی سلامتی کے خلاف ہو اسے قانون اور آئین کے تحت سزا ہونی چاہیے۔

Radio Pakistanحکومت نے عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف آرٹیل 6 کے تحت مقدمات قائم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے

مسلم لیگ ن جو اپنے سیاسی دور میں ایک ایسے وقت سے گزر رہی ہے جب چند مشکل فیصلوں کے باعث اس کی مقبولیت کے گراف میں کمی محسوس کی جا رہی ہے، ایک متنازع فیصلہ کیوں کرے گی؟ اور کچھ عرصہ پہلے جو جماعت مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے ’جمہوری انداز میں اختلافات کے حل‘ تلاش کر رہی تھی، اب ایک ’آمرانہ فیصلہ‘ کیوں کر رہی ہے؟

کچھ سیاستدان اسے ’ٹائم بائینگ حربہ‘ کہہ رہے ہیں، اور کچھ ’مایوسی اور بوکھلاہٹ۔‘ جبکہ کئی ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ اس سوچے سمجھے فیصلے کا مقصد عدلیہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

انھی سوالوں کا جواب جاننے کے لیے جب بی بی سی نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے بات چیت کی تو ایسا معلوم ہوا کہ اب یہ معاملہ عدلیہ اور ان کی جماعت کے درمیان لڑائی میں بدل رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کے ہی طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ’جب عدلیہ اپنا کام نہیں کرے گی تو ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔‘

حکومت نے عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟Getty Imagesمسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے معاملے پر اتحادیوں کو اعتماد میں لیا تھا’یہ حکومتی چال ہے‘

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینیئر سیاسی رہنما افراسیاب خٹک کے خیال میں یہ حکومت کی ایک ’چال‘ ہے۔

ان کے خیال میں مسلم لیگ ن نے ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے جواب میں دو کام کیے ہیں: چار ایڈہاک ججز کے نام دیے تاکہ عدالت میں اکثریت بدلی جا سکے اور تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی کو کنفیوز کرنے کے لیے ان پر پابندی کا اعلان کر دیا۔‘

بی بی سی سے اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور سینیئر سیاستدان میاں افتخار کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی حمایت نہیں کرتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پی ٹی آئی سے شدید نظریاتی اختلافات ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پابندی لگا دی جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کیا بزور شمشیر کسی کو روکنا جمہوریت ہے؟ یہ مایوسی، بوکھلاہٹ اور جذبات میں آ کر کیا گیا فیصلہ ہے۔ یہ پارلیمان اور عدلیہ میں لڑائی کرانے کے مترادف ہے۔ اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو اور نقصان مسلم لیگ ن کو نقصان ہوگا۔‘

لیکن مسلم لیگ ن بظاہر کسی بھی سیاسی نقصان سے قطع نظر دکھائی دیتی ہے۔

Getty Imagesبعض سیاسی جماعتیں تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے کو ’غیر جمہوری اقدام‘ کہہ رہی ہیں’پی ٹی آئی کو جیسا ریلیف ملا، ہمارا ردعمل بھی ویسا ہی ہے‘

مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر طلال چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کوئی ڈر نہیں کہ کل کیا ہوگا۔ آج ہم نے وہ کیا ہے جو درست ہے۔ یہ مشکل تھا، کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔ مگر ہم نے یہی کرنا ہے۔‘

وہ متنبہ کرتے ہیں کہ ’اگر ہمیں اس سے زیادہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ تحریک انصاف کو ریلیف آؤٹ آف بوکس ملا ہے تو ہمارا فیصلہ اور ردعمل بھی آؤٹ آف بوکس ہیں۔‘

انھوں نے گذشتہ سال نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر داڑھی اور شلوار قمیض میں کوئی شخص فوجی تنصیبات پر حملہ کرے تو وہ دہشتگرد ہے لیکن جینز پہنے، پڑھا لکھا، شہر میں رہنے والا شخص دفاعی تنصیبات پر حملہ کرے تو وہ سیاسی جماعت کا رکن ہے؟

خیال رہے کہ نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنوں کو فوجی عدالتوں میں دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا ہے۔

ان میں سے بعض کارکنان کو رہائی بھی ملی ہے تاہم متعدد مقدمات اب بھی زیرِ التوا ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ان الزامات کو رد کیا ہے کہ نو مئی کے پرتشدد واقعات میں جماعت کی قیادت ملوث تھی یا یہ کہ یہ واقعات ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھے۔

Social mediaمشتعل مظاہرین نے نو مئی کو راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے باہر نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کی اور چند مظاہرین عمارت کی حدود میں داخل ہو گئے

اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے افراسیاب خٹک اسے ’تختہ اسلام آباد کی خاطر دلیل، منطق اور عقل سے بالاتر‘ فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ملک سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، خیبر پختونخوا میں دو دن سے جنگ جیسی صورتحال ہے، بلوچستان میں ایک الگ لڑائی ہے۔ تو یہ ملک کیسے اس قسم کی سیاسی نادانی سہہ پائے گا؟‘

مگر سینیٹر طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ان کی جماعت سیاسی جماعتوں سے مشاورت جاری رکھے گی اور ان کے تحفظات دور کرے گی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے اعلان پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی حکومت ’سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے اور انھیں ملک دشمن قرار دینے کے نتائج کو آسانی سے فراموش کر سکتی ہے۔۔۔ اِس طرح کے اقدامات سے وہ خود کو ہی نقصان پہنچائے گی۔‘

پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہواحکومت نے عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟’عمران خان کے خلاف نئے مقدمات کا عندیہ‘: حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More