انڈیا میں رقم کی ادائیگی کا سادہ نظام جو کاروبار کے ساتھ ساتھ فراڈ بھی آسان بنا رہا ہے

بی بی سی اردو  |  Jul 16, 2024

Getty Imagesلین دین کے لیے یہ سادہ اور مفت نظام تیزی سے مقبول ہو رہا ہے

پچھلے سات سال سے ہر روز ارون کمار ممبئی کی ایک مصروف سڑک پر پھل بیچتے ہیں۔ یہ روزی کمانے کا کوئی آسان طریقہ نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوٹے جانے کا خوف ہوتا ہے اور میرے پاس لائسنس نہیں تو اس لیے مقامی حکام کسی بھی وقت آ کر میرے سٹور کو مسمار کر سکتے ہیں۔‘

لیکن پچھلے چار سال میں ان کے کام کا کم از کم ایک پہلو آسان ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کورونا وائرس سے پہلے سارا لین دین نقد میں ہوتا تھا لیکن اب ہر کوئی یو پی آئی کے ساتھ ادائیگی کرتا ہے۔ کوڈ سکین کریں اور ادائیگی سیکنڈز کے اندر ہو جاتی ہے۔ نقد رقم کو سنبھالنے، گاہکوں کو بقایا پیسے دینے کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس نے میری زندگی اور کاروبار کو آسان بنا دیا۔‘

یو پی آئی جس کا پورا نام ’یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس‘ ہے، سنہ 2016 میں انڈیا کے مرکزی بینک اور ملک کی بینکاری صنعت کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا۔

یہ ایک ایپ پر مبنی فوری ادائیگی کا نظام ہے جو صارفین کو پل بھر میں رقم بھیجنے اور وصول کرنے، بلوں کی ادائیگی کرنے اور دیگر ادائیگیوں کے قابل بناتا ہے۔

اس پر بینک کی تفصیلات یا کوئی بھی نجی معلومات درج کرنے کی ضرورت نہیں اور شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مفت ہے۔

یہ طریقہ اتنا مقبول ہو گیا ہے کہ انڈیا اب سب سے بڑی ’ریئل ٹائم ادائیگی مارکیٹ‘ ہے۔ مئی میں یو پی آئی سے 14 ارب کا لین دین ہوا جو ایک سال پہلے 9 ارب تک تھیں۔ لیکن مقبولیت اور استعمال میں آسانی نے اسے دھوکے بازوں کے لیے بھی پرکشش بنا دیا ہے۔

دہلی میں واقع ’فیوچر کرائم ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے بانی ششانک شیکھر کہتے ہیں ’اگرچہ ڈیجیٹل ادائیگی آسان ہے لیکن اس میں کچھ نقائص بھی ہیں۔‘

شیکھر کا کہنا ہے کہ دھوکے باز لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہیں جس میں انھیں اپنا یو پی آئی پن نمبر شیئر کرنے کے لیے قائل کرنا بھی شامل ہے جو ادائیگیوں کی اجازت دینے کے لیے ضروری ہے۔

کچھ دھوکہ بازوں نے جعلی یو پی آئی ایپس بھی بنائی ہیں جو قانونی بینکنگ ایپس کی نقل ہیں اور پھروہ لاگ ان کی تفصیلات یا دیگر قیمتی معلومات چوری کرتے ہیں۔

شیکھر کہتے ہیں کہ ’جس رفتار سے ملک میں ڈیجیٹل تبدیلی آئی، اس کا مطلب ہے کہ بدقسمتی سے ڈیجیٹل خواندگی اور محفوظ انٹرنیٹ پریکٹس آگے نہیں بڑھ سکی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جنوری 2020 اور جون 2023 کے درمیان مالی دھوکہ دہی کے تقریباً نصف واقعات میں یو پی آئی سسٹم کا استعمال شامل تھا۔

آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟پِگ بُچرنگ فراڈ: ’ہم نے لوگوں سے کیسے لاکھوں ڈالر لوُٹے‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال میں یو پی آئی سے جڑے دھوکہ دہی کے 95،000 سے زیادہ کیسز تھے جو گذشتہ برس 77،000 تھے۔

شیوکلی بھی ایسے ہی ایک فراڈ کا شکار ہو چکی ہیں۔ وہ ہمیشہ سے سکوٹر لینا چاہتی تھیں لیکن یہ ان کے بجٹ سے باہر تھا تاہم رواں سال کے اوائل میں شمال مشرقی انڈین ریاست بہار میں رہنے والی 22 سالہ شیوکلی نے فیس بک پر فروخت کے لیے ایک سکوٹی دیکھی۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے بغیر سوچے سمجھے اس موقع کا فائدہ اٹھایا۔‘

چند کلک کے بعد وہ مالک سے بات کر رہی تھیں جس نے کہا کہ وہ ادائیگی پر گاڑی کے کاغذات بھیج دے گا۔

شیوکلی نے 200 ڈالر ادا کیے لیکن سکوٹر، جسے عام طور پر انڈیا میں سکوٹی بھی کہا جاتا ہے، انھیں کبھی نہیں ملا۔ شیوکلی کو احساس ہوا کہ انھیں دھوکہ دیا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا نہیں تھا کہ مجھے دھوکہ دیا جا سکتا ہے کیونکہ میں تعلیم یافتہ ہوں اور جانتی ہوں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے لیکن دھوکہ باز ہوشیار ہیں۔ ان کے پاس اگلے شخص کو قائل کرنے کا فن ہے۔‘

حکومت اور مرکزی بینک یو پی آئی صارفین کو دھوکہ بازوں سے بچانے کے طریقوں پر غور کر رہے ہیں لیکن فی الحال اگر کوئی متاثرہ فرد معاوضہ چاہتا ہے تو اسے اپنے بینک سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔

مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والے ڈاکٹر درگیش پانڈے کہتے ہیں کہ ’اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ زیادہ تر ذمہ داری بینکوں اور ٹیلی کام کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ شناخت کی جانچ پڑتال کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکہ باز کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔‘

’لیکن خاص طور پر بینکوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ انھیں کاروبار میں آسانی اور شناخت کی جانچ کے نفاذ کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا لیکن اگر وہ بہت سخت ہوں گے تو معاشرے کا کمزور طبقہ بینکنگ سہولیات سے محروم رہے گا۔‘

تاہم ڈاکٹر پانڈے کا کہنا ہے کہ دھوکہ دہی کے زیادہ تر معاملوں میں بینک پوری طرح سے قصوروار نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک پیچیدہ سوال ہے کیونکہ مسئلہ بینکوں کا ہے لیکن یہ متاثرہ شخص ہے جو زیادہ تر معاملات میں اپنی تفصیلات دے رہا ہے۔ میں کہوں گا کہ متاثرہ افراد اور بینک دونوں کو نقصان برداشت کرنا چاہیے۔‘

ان مسائل کے باوجود دیہی علاقوں میں یو پی آئی کو فروغ دیا جا رہا ہے جہاں بینکنگ خدمات تک رسائی مشکل ہوسکتی ہے۔

راجستھان سے تعلق رکھنے والی پونم اونتوال ایک رہنمائی مرکز چلاتی ہیں جہاں لوگوں کو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل بینکنگ کا استعمال کرنے میں مدد کی جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم میں سے زیادہ تر لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہیں اور نہ ہی سمارٹ فون کا صحیح استعمال جانتے ہیں۔ میں انھیں سکھاتی ہوں کہ فون اب صرف لوگوں سے بات کرنے کا آلہ نہیں بلکہ یہ ان کے بینک ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ یو پی آئی مقامی معیشت کو ترقی دینے میں مدد کرے گا۔

’مجھ جیسی بہت سی عورتوں کا ایک چھوٹا سا کاروبار ہے جس سے ہم اپنے گھر سے چلاتے ہیں۔ اب ہم یو پی آئی کے ساتھ پیسے بھیج اور وصول کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس سمارٹ فون نہیں، وہ اپنے لین دین کے لیے میرے مرکز میں آتے ہیں۔‘

دیہی علاقوں میں قدم جمانے کے ساتھ ساتھ یو پی آئی بیرون ملک بھی پھیل رہا ہے۔

بھوٹان، ماریشس، نیپال، سنگاپور، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات میں ریٹیلرز یو پی آئی ادائیگیاں لیں گے اور اس سال فرانس یو پی آئی ادائیگیوں کو قبول کرنے والا پہلا یورپی ملک بن گیا جس کا آغاز آئفل ٹاور کے ٹکٹوں سے ہوا۔

ممبئی میں کمار خوش ہیں کہ انھیں اب نقد رقم کا استعمال نہیں کرنا پڑتا لیکن وہ محتاط رہتے ہیں۔

’میرے جیسے چھوٹے دکاندار کے لیے یہ ( یو پی آئی) پیسہ وصول کرنا بہت آسان بنا دیتا ہے لیکن میں ہمیشہ دھوکے سے ڈرتا ہوں۔ میں خبروں میں سنتا رہتا ہوں کہ کس طرح یو پی آئی دھوکہ دہی بڑھ رہی ہے۔ امید ہے کہ کچھ میکانزم ایجاد ہو جائیں گے تاکہ میرے جیسے چھوٹے دکان دار کو نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

انڈیا میں آسان ڈیجیٹل قرض کا پھندا، جو زندگی کو جیتے جی جہنم بنا دیتا ہےڈیجیٹل فراڈ: ’کیو آر کوڈ سکین کرنے کو کہا گیا اور اکاؤنٹ سے 50 ہزار نکل گئے!‘فون کے ذریعے ہونے والی دھوکہ بازی سے نمٹنا اتنا مشکل کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More