وہ دور جب ہندوستانی روپے نے خلیجی ریاستوں میں سونے کے سکوں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنائی

بی بی سی اردو  |  Jul 16, 2024

Getty Images(فائل فوٹو)

عربی میں حرف ’پ‘ نہیں، سو ہندوستانی روپے کو تو گھونگھوں سے موتی نکالتے خلیج کے عرب مچھیروں نے روبیا کہہ لیا لیکن اس کا کیا کیجیے کہ برطانویحکمران کی تصویر والے کاغذ کے اس ٹکڑے میں نہ سونے کے عثمانی سکے جیسی چمک تھی نہ چھونے، گننے اور جمع کر کے رکھنے میں ویسا مزہ اور اعتماد اور بھیگ گیا تو ضائع۔

موتیوں کے عرب تاجروں کے بیان میں لنڈا شلچر لکھتی ہیں کہ سونے کے سکے نہ صرف زر مبادلہ کا ذریعہ تھے بلکہ دولت اور تحفظ کی علامت بھی تھے۔

’سونے کے سکوں کی گنتی ہوتی اور ہر لین دین میں وزن کیا جاتا، سامان خریدنے سے لے کر قرضوں کے تصفیہ تک۔‘

خلیجی ریاستوں کی معیشتوں کی تبدیلی کا احاطہ کرتی اپنی تحریر میں انتھونی بی ٹوتھ بتاتے ہیں کہ کیسے ابوظہبی کے ایک چھوٹے تجارتی مقام پر احمد نامی تاجر ایک برطانوی افسر سے روپے لینے سے انکار اور سونے کے سکوں پر اصرار کرتے ہیں۔

افسر ان کی ہچکچاہٹ کو سمجھتے ہوئے احمد کے سامنے دوسرے تاجروں سے روپے کے بدلے سامان خریدتے ہیں۔

اس مظاہرے سے قائل ہو کر ہی احمد نے کاغذی کرنسیپراعتماد کیا۔

یہی مسئلہ بیسویں صدی کے اوائل میں دبئی کے موتیوں کے ایک تاجرعبداللہ کا بھی تھا، جن کی کہانی ان زبانیروایات میں سے ایک ہےجو دبئی میوزیم آرکائیوز نے جمع کی ہیں۔

عثمانی سونے کے سکوں میں تجارت کرنے کے بعد عبداللہ کو ابتدائی طور پر نئی کاغذی کرنسی ہندوستانی روپے پر شک تھا۔ ایسی ہیہچکچاہٹ بہت سے اور تاجروں میں بھی تھی جنھیں خدشہ تھا کہ کاغذی کرنسی سونے جیسی قیمتی نہیں۔

ایک دن عبداللہ کو اپنے موتیوںکے بدلے ایک اہم پیشکش ملی لیکن ادائیگی ہندوستانی روپے میں تھی۔ نئی کرنسی کو قبول کرنے یا معاہدہ کھونے کے انتخاب کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پر اتفاق کر لیا۔ آہستہ آہستہدوسرے تاجر بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔

16ویں صدی میں خلیج کے کچھ حصوں میں عثمانی توسیعکے ساتھشروع ہونے والا سونے کے سکوں کا دور پہلی عالمی جنگ کے بعد اس سلطنت کے ختم ہوتے ہی سمٹ گیا تھا لیکنخلیج کے یہ تاجر اس سے پہلے اور 10ویںصدی کے بعد سے جو کرنسی استعمال کر رہے تھے اسے کہیں لٹکانا بھی آسان تھا اور لے جانا بھی۔

چاندی کے تار سے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کی شکل میں بنی ہرمز لارین سے فارس، ہندوستان اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تجارت ہوتی تھی جس کا مشاہدہ مراکش کے سیاح ابن بطوطہ نے 14ویں صدی میں اپنے سفر کے دورانمیں بھی کیا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ کے زوال نے خلیج کے مالیاتی نظام میں ایک خلا پیدا کر دیا۔

Getty Imagesسونے کے سکوں کی گنتی ہوتی اور ہر لین دین میں وزن کیا جاتا، سامان خریدنے سے لے کر قرضوں کے تصفیہ تک

خلیج کے موتیوں کی تجارت میں سب سے زیادہ با اثر ہندوستانی شخصیات میں سے ایک حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان تھے۔ نظام جواہرات جمع کرنے کے شوقین تھے اور موتیوں کے لیے ان کا شوق افسانوی تھا۔

نظام اکثر اپنے ایجنٹوں کو بحرین اور دبئی بہترین موتی لینے بھیجتے۔ 1930 کی دہائی میں نظامنے قابل اعتماد جوہری، خواجہ رحیم کو موتیوں کی ایک خصوصی کھیپ حاصل کرنے بحرین بھیجا۔ رحیمنے موتیوں کے ایک سوداگر احمد بن جمعہ سے انتہائی نفیس موتی لیے اور سونے اور ہندوستانی روپے میں قیمت ادا کی۔

خلیج عرب سےنکالے گئے اعلیٰ قسم کے موتیوں کے خریداروں میں نوجوان مہاراجا بھوپندر سنگھ آف پٹیالہ اور جوناگڑھ کے نواب مہابت خان سومبھی شامل تھے۔

ایسی بااثر شخصیات کی ساکھ کے باعثخلیج میں ہندوستانی روپے کی قبولیت کو تقویت اوردوسرے تاجروں کو بھی اپنے لین دین میں اسکرنسی کو اپنانے کی ترغیبملی۔

اس تبدیلی نے خطے کے مالیاتی نظام میں ایک اہم تبدیلی کا آغاز کیا۔

یہ بھی پڑھیےپیسہ کب ایجاد ہوا اور امریکی ڈالر دنیا کی سب سے اہم کرنسی کیسے بنا؟وہ عالمی کرنسی جس نے امریکی ڈالر سے قبل تین سو سال تک دنیا پر راج کیاایک کھرب ڈالر مالیت کا وہ پلاٹینیم سکہ جو امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے خلیجی روپیا کا دور

سنہ 1959 تک برطانیہ نے خلیجی روپیا متعارف کرا دیا۔

یہکرنسی خاص طور پر خطے میں ٹروشل سٹیٹس (متحدہ عرب امارات کی پیشرو الامارات المتصالحہ)اور برطانیہ کےزیرانتظام ریاستوں کویت، بحرین، عمان اور قطر کے لیے بنائیگئی تھی۔

ٹروشل سٹیٹس خلیج فارس (جنوب مشرقی عرب) کے جنوب میں قبائلی کنفیڈریشنز کا ایک گروپ تھا جسکے رہنماؤں نے 1820 اور 1892 کے درمیان برطانیہ کے ساتھ حفاظتی معاہدوں یا جنگ بندی پر دستخط کیے تھے۔

بحرین 1861 میںبرطانویپروٹیکٹوریٹ بنا۔ کویت نے سنہ 1899 میں برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد کویت کو عثمانی اثر و رسوخ اور دیگر بیرونی خطرات سے محفوظ بنانا تھا۔

قطر 1916 میں برطانوی نگرانی میں آیا، برطانیہ اس کے خارجہ امور اور دفاع کا انتظام کرتا تھا۔ کویت1961 میں مکمل آزاد ہوا۔

قطر اور بحرین نے سنہ 1971 میں برطانیہ سے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ عمان کبھی باضابطہ برطانوی نگرانی میں نہیں تھا لیکن برطانیہ نے 19ویں صدی کے اوائل سے شروع ہونے والے معاہدوں کے ذریعے خاص طور پر ساحلی علاقوں اور سمندری امور پر خاصا اثر و رسوخ استعمال کیا۔

عمان نے کافی حد تکخود مختاری برقرار رکھی لیکن 1970 میں سلطان قابوس کے تحت اپنی آزادی کا دوبارہ دعویٰ کیا۔

ہندوستانی روپے سے جڑا خلیجی روپیا غالب کرنسی بن گیا تاہم یہ استحکامتھوڑی مدت کے لیے تھا۔ 1966 میں انڈیانے روپے کی قدر میں کمی کی تو خلیج میں اقتصادی بحران پیدا ہو گیا۔

ٹروشل ریاستیں اور دیگر خلیجی ممالک متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ ان کے ذخائر کی قدر راتوں رات گر گئی تھی۔

میلکم سی پیک نے ’یونائیٹڈ عرب ایمریٹس: اے وینچر ان یونٹی‘ میںلکھا کہ ’انڈین روپے کی قدر میں کمی خلیجی ریاستوں کے لیے ایک اہم لمحہ تھا۔ اب انھیں تیزی سے اقتصادی اور مالیاتی اصلاحات کی ضرورت تھی۔‘

Getty Imagesمحتلف کرنسیوں کا عبوری دور

ٹروشل ریاستوں نے فوری بحرینی دینار اور قطری اور دبئیریال کو عبوری کرنسیوں کے طور پر متعارف کرا دیا۔

یہ عبوری دور غیر یقینی صورتحال اور خطے کی بڑھتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک مستحکم، متحد کرنسی کی ضرورت سے عبارت تھا۔

انتھونی بی ٹوتھ ’دی ٹرانسفرمیشن آف گلف سٹیٹس اکانومیز‘ میں کہتے ہیں کہ ’اس دور میں متعدد کرنسیوں کو گردش میں دیکھا گیا، جو خطے کی مستحکم اقتصادی بنیادوں کی تلاش کی عکاسی کرتا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات اور درہم

یکم دسمبر 1971 کو معاہدوں کی منسوخی تکٹروشل ریاستیں غیر رسمی طور پر برطانیہ کے زیرانتظام رہیں۔ اگلے دن شیخوں کی ریاستوں میں سے چھ دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین اور فجیرہ نے متحدہ عرب امارات کی تشکیل کی۔ ساتویں راس الخیمہ نے 10 فروری 1972 کو شمولیت اختیار کی۔

اس اتحاد نے ایک متحد قومی کرنسی کی راہ ہموار کی۔ 1973 میں متحدہ اماراتی درہم متعارف کرایا گیا، جس سے ملک کی معیشت میں استحکام اور ہم آہنگی آئی۔

درہمسے نہ صرف مقامی تجارت کو سہولت ملی بلکہ متحدہ عرب امارات کو مشرق وسطیٰ میں ایک فروغ پاتے اقتصادی مرکز کا مقام بھی ملا۔

لنڈا شلچر کا کہنا ہے کہ درہم کا تعارف متحدہ عرب امارات کی معیشت کو متحد کرنے میں ایک اہم قدم تھا۔

چارلس اساوی نے فصاحت کے ساتھ ’خلیج کی تاریخی ترقی: موتیوں سے تیل تک‘ میں لکھا کہ ’خلیج کی اقتصادی تاریخ موافقت اور لچک کی کہانی ہے، جس میں ہر مالیاتی تبدیلی، تبدیلی اور پیشرفت کے وسیع بیانیے کی عکاسی کرتی ہے۔‘

اساوی کے مطابق 1973 میں متحدہ عرب امارات کے درہم کا تعارف خلیج کی مالیاتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔

’درہم نے تیزی سے متحدہ عرب امارات کی متنوع معیشتکو یکجا کر دیا اور استحکام کا باعث بنا۔‘

تھالر سے ڈالر تک: یورپ کے ایک گاؤں میں جنم لینے والا سکہ دنیا کی طاقتور کرنسی کیسے بنا؟انڈیا: ’2000 کا نوٹ جو کالے دھن کو روکنے آیا لیکن اس کی وجہ سے بند ہو گیا‘کرپٹو کرنسی کی بقا کی جنگ میں کون کہاں کھڑا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More