Getty Imagesپی ٹی آئی نے غیرملکی فنڈنگ کے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے
پاکستانی حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ایک ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔ جہاں ایک طرف حکومتی وزرا اور مسلم لیگ ن کے رہنما تحریک انصاف پر ’انتشار کی سیات کرنے‘ کا الزام لگاتے ہیں وہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد جماعت پر دباؤ بڑھانا ہے۔
اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے یہ بھِی اعلان کیا کہ ان کی حکومت عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ’غداری‘ کا مقدمہ بنائے گی۔
حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تین دن قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک پارلیمانی جماعت تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔
عدالت کے 13 رُکنی بینچ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی جن نشستوں پر دعوے کرتی آ رہی ہے، وہ ملنے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اس کی 84 نشستیں بڑھ کر 107 ہو جائیں گی اور یوں یہ سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن سکے گی۔
اس کے مقابلے میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 106، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 69، ایم کیو ایم کے پاس 22 اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس نو نشستیں ہوں گی۔
یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ حکومت کو پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی ضرورت کیوں پڑی، اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟
وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق نو مئی کے حملے، سائفر کے معاملے اور امریکہ میں قرارداد سمیت ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ’حکومت تمام ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے تحریکِ انصاف پر پابندی لگائے گی۔‘
پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہواتوشہ خانہ کی نئی انکوائری میں عمران خان اور بشریٰ بی بی جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالےپاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا طریقہ کیا ہے؟
وزیرِ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت پی ٹی آئی پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عائد کرے گی۔
آرٹیکل 17 کے مطابق پاکستان کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو پاکستان کی ’خودمختاری اور ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔‘
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’آئین کا آرٹیکل 17 یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو تو اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
’اس کے لیے انھیں (کابینہ کے) فیصلہ کے بعد 15 دنوں میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے پاس موجود ثبوت کارروائی کے لیے کافی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے، ’لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ وجوہات کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے کافی ہیں۔‘
’جہاں تک بات رہی 9 مئی اور غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کی تو یہ تمام کیسز ابھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے ان کے پاس مزید کوئی ثبوت بھی ہوں کیونکہ حکومت تمام باتیں تو میڈیا پر آ کر نہیں کرتی۔
خیال رہے دو سال قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے غیرملکی ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں الیکشن قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت تحلیل کر دی جائے تو اس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی اسمبلیوں کی بقیہ مدت کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔
کیا حکومت پی ٹی آئی کو ملنے والے عدالتی ریلیف سے خائف ہے؟
پی ٹی آئی نے حکومت فیصلے کو ’مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کت تاریخی فیصلے کے نتیجے میں ملنے والی شرمندگی مٹانے کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔
پارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اپنی خواہش کو قانون کا درجہ دیکر ملک تباہی و انتشار کی دلدل میں دھکیلنے والوں کا ہر میدان ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور کریں گے۔‘
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا ایک لمبا عمل ہے۔ ’ابھی تو یہ معاملہ کابینہ میں جائے گا، حکومت یہ بھی دیکھے گی کہ اس کے اتحادی اس فیصلے پر کیا عمل دیتے ہیں۔‘
دو دن قبل ایک عدالت نے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو دوران نکاح عدت کیس میں بھی بری کردیا تھا۔ اس سے قبل دونوں کو اس الزام میں سات، سات برس کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔
ایسے میں یہ قیاس آرئیاں بھی جاری تھیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو عدالتوں سے ملنے والے ریلیف پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت خائف ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت عدالتوں سے خائف ہے تو تب بھی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا معاملہ جانا تو سپریم کورٹ ہی ہے۔‘
دیگر تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کے بعد حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس لی جائے۔
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے منسلک سیاسی محقق محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’حکومت اس فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کو آرٹیکل 6 اور پابندی جیسے قانونی معاملات میں اُلجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
’سپریم کورٹ کے فُل بینچ کے 11 ججز نے گذشتہ ہفتے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت قرار دیا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت کے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے ریفرنس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘
کیا حکومت کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟
وزیرِ اطلاعات کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کو اعتماد لیا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ حکومت کی جانب سے تاحال اس معاملے پر اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا گیا کہ حال ہی میں ان کی حکمراں جماعت کے لوگوں سے کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی ہے۔
پی پی پی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حوالے سے ان کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت جاری ہے کہ اس پر کیا مؤقف اپنایا جائے اور اجلاس کے اختتام پر جماعت کا مؤقف میڈیا کے ساتھ شیئر کردیا جائے گا۔
تاہم پاکستانی میڈیا پر پی پی پی رہنما کا ایک بیان بھی نشر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ حکومت نے ان کی جماعت کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔
Getty Imagesوزیرِ اطلاعات نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کو اعتماد لیا ہے۔
حکومت کے اس فیصلے پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد رہنماؤں نے بھی اپنا ردِ عمل دیا ہے اور اسے غلط قدم قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے بی بی سی نے حکومتی جماعت کے متعدد رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں موصول ہو سکا۔
ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت کو پابندی کے لیے ریفرنس بھیجنے پر مجبور کیا ہے اور ’ہم نے آخری دم تک کوشش کی کہ ایسے اقدامات نہ کریں۔‘
ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت ’ریاست کے مفادات میں‘ تمام معلومات کو سپریم کورٹ بھیجے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نومئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو سزائیں ملنی چاہییں۔ پی ٹی آئی نے انتشار کی سیاست کو ترک نہیں کیا۔‘
کیا ماضی میں پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی ہے؟
سنہ 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے تحریکِ لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔ تاہم صرف چار ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت جماعت پر عائد پابندی ہٹا دی تھی۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کی گئی تھی، ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی ایسی ہی پابندی کی زد میں آئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت متعدد سیاستدانوں کو بھی نااہل قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے اثرات کبھی ملک پر اچھے نہیں پڑے۔‘
ماضی میں متعدد بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی متعدد تنظیمیں نئے ناموں سے سامنے آ جاتی ہیں۔
سیاسی محقق محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’اگر مان لیا جائے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگ جاتی ہے تو وہ نئے نام سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے، ایسی مثالیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں تمام فریقین رسہ کشی میں مصروف ہیں۔
’ہر فریق سیاسی اور غیر سیاسی اپنی سبقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے پیچھے ارادہ جماعت پر دباؤ بڑھانا اور انھیں اُکسانا ہے۔
’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت چلانے والوں نے سیاسی طور پر جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بیانیہ بنانے کے محاذ پر بھی پی ٹی آئی کو پیچھے دھکیلا جا سکے۔‘
’عمران خان کے خلاف نئے مقدمات کا عندیہ‘: حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 82 ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل: تحریک انصاف پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں حاصل کر لے گی؟وزیر اعظم کی تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت: حکومت اور پی ٹی آئی میں بات چیت کی راہ کیسے نکل سکتی ہے؟