’اگر میرا بھائی بی ایل اے کے کیمپ میں ہوتا تو ہم اس گرمی میں احتجاج کیوں کرتے؟‘

بی بی سی اردو  |  Jul 13, 2024

BBCضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والی فضیلہ بلوچ اپنے بھائی ظہیر بلوچ کے لیے احتجاج کر رہی ہیں

’اگر میرا بھائی ظہیر بلوچ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کیمپوں میں ہوتا تو میں، میرے خاندان والے اور دیگر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی بھی یہاں شدید گرمی میں احتجاج نہیں کرتی بلکہ ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والی بی بی فضیلہ بلوچ کا جن کے چھوٹے بھائی ظہیر بلوچ گذشتہ ماہ سے لاپتہ ہیں۔

کوئٹہ میں تپتی دھوپ میں سول سیکریٹریٹ کے سامنے ہاکی چوک پر احتجاجی دھرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لاپتہ ظہیر بلوچ کی بہن نے سوال کیا کہ ’کیا کوئی شوقیہ اس شدید گرمی میں یہاں بیٹھ سکتا ہے؟ ہم بیٹھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمارے بھائی کو لاپتہ کیا گیا۔‘

فضیلہ بلوچ نے ظہیر کی جبری گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی ان کو کئی مرتبہ نہ صرف ریاستی ادارے اپنے پاس بلاتے رہے بلکہ ان کے گھر پر بھی چھاپے مارتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ جمعرات کو کوئٹہ میں ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لیے نکالی جانے والی ریلی کے شرکا پر لاٹھی چارج کے علاوہ آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی جس میں خواتین سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ جمعے کے روز بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ظہیر بلوچ کی بازیابیکے لیے مظاہرے کیے گئے اور اس دوران کوئٹہ میں منعقدہ ریلی پر تشدد کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے ظہیر بلوچ کی ریاستی اداروں کی تحویل میں ہونے کی تردید کی ہے۔

کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ظہیر بلوچ کالعدم بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کے بھائی ہیں اور انھیں بشیر زیب نے ’بی ایل اے کے کیمپوں میں بلایا ہو گا۔‘

یاد رہے کہ کالعدم بی ایل اے کا شمار شورش سے متاثرہ بلوچستان میں عسکری کارروائی کرنے والی بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے۔

سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ چند سال قبل افغانستان کے شہر قندھار میں ایک خود کش حملے میں بی ایل اے کے کمانڈر اسلم بلوچ کے مارے جانے کے بعد تنظیم کی کمان بشیر زیب کے ہاتھ میں ہے۔

BBCظہیر بلوچ کون ہیں اور وہ کب سے لاپتہ ہیں؟

ظہیر بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے احمد وال سے ہے۔

فضیلہ بلوچ کے مطابق ان کے بھائی ظہیر بلوچ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

فضیلہ کے مطابق ’ظہیر نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے اور وہ پاکستان پوسٹ میں گذشتہ 15 سال سے کلرک کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ میں سب سے پہلے ان کی تقرری نوشکی میں ہوئی لیکن ایک، دو سال بعد ان کا تبادلہ کوئٹہ ہوا جس کے بعد سے وہ کوئٹہ میں ملازمت کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ ظہیر بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب کالعدم بی ایل اے نے ضلع ہرنائی کے علاقے شابان سے اغوا ہونے والے سات افراد کی رہائی کے بدلے حکومت سے اپنے پانچ لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

فضیلہ کا کہنا ہے کہ 27 جون کو دفتر سے گھر آتے ہوئے ظہیر کو کوئٹہ شہر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیےپنجگور، نوشکی میں ایف سی پر حملے: کیا بلوچ شدت پسندوں کی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے؟بلوچ لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی؟BBC’ظہیر بلوچ کسی سیاسی جماعت یا بی ایل اے سے تعلق نہیں رکھتے‘

فضیلہ بلوچ نے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے ظہیر بلوچ کے کالعدم بی ایل اے سے تعلق کے الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

فضیلہ کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق نہ بی ایل اے سے ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے بلکہ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں۔

’ظہیر بلوچ کو نہ کبھی بشیر زیب نے اپنے پاس بلایا اور نہ ہی ظہیر کبھی بی ایل اے یا کسی اور عسکریت پسند تنظیم کے کیمپ گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر داخلہ یا کوئی اور ایسا الزام لگاتے ہیں تو وہ اس کے ثبوت پیش کریں۔ ’ہمارے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا تعلق کبھی بھی کسی ایسی تنظیم سے نہیں رہا۔‘

انھوں نے کہا کہ ظہیر بلوچ کسی عسکری کیمپ میں ہوتے تو ہم اس شدید گرمی میں یہاں سڑک پر نہیں بیٹھتے اور نہ کسی اور کو یہاں پریشان کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ظہیر بلوچ کوئٹہ میں جنرل پوسٹ آفس میں باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی پر جاتے رہے ہیں اور ’اگر کسی کو شک ہے تو وہ جا کر ان کا ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔‘

’ہم نے سریاب پولیس سٹیشن میں ظہیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست دی لیکن پولیس نے تاحال ایف آئی آر درج نہیں کی۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے پولیس سے اطلاعی رپورٹ کی نقل حاصل کی کیونکہ یہ سرکاری ملازم کی حیثیت سے ان کے دفتر میںجمع کرانا ضروری تھا۔‘

BBCBBC

فضیلہ بلوچ نے تسلیم کیا کہ بشیر زیب انھی کے بھائی ہیں لیکن ’ہم بہن بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کا گذشتہ 25 سال سے ان سے کوئی رابطہ نہیں۔‘

وہ پوچھتی ہیں کہ ’والدہ کی وفات پر بھی بشیر زیب نہ ہمارے گھر آیا اور نہ ہی کسی اور ذریعے سے رابطہ کیا تو اب وہ ہم سے کیسے رابطہ کرے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ بشیر زیب کے بھائی ہونے کے ناطے اس سے قبل ریاستی اداروں نے ظہیر کے گھر پر تین مرتبہ چھاپا مارا لیکن ان کے گھر سے ایک غلیل تک بھی برآمد نہیں ہوئی۔

’ظہیر بلوچ کو کئی مرتبہ ریاستی اداروں کے اہلکار اپنے دفاتر میں بھی بلاتے رہے۔ ظہیر نے ان کو لکھ کر دیا کہ ان کا بشیر زیب اور ان کی تنظیم سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔ ظہیر بلوچ نے انھیں یہ بھی لکھ کر دیا تھا کہ انھیں وہ جب بھی بلائیں گے تو وہ ان کے پاس آئے گا۔‘

’ہم تو اعلانیہ طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ظہیر بلوچ کا نہ کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رہا ہے اور نہ وہ کسی غیر قانونی کارروائی میں ملوث رہا ہے تاہم سرکار کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو وہ ان کو اپنے عدالتوں میں پیش کریں اور وہاں یہ بتائیں کہ ان پرکیا کیا الزامات ہیں۔‘

فضیلہ بلوچ نے کہا کہ اگر ان پر کوئی الزام نہیں ہے تو ان کو رہا کیا جائے کیونکہ ان کی جبری گمشدگی سے نہ صرف ان کے بچے بلکہ پورا خاندان ایک اذیت سے دوچار ہے۔

BBC’مطالبہ ماننے کی بجائے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘

فضیلہ بلوچ نے کہا کہ 10 روز سے زیادہ دیر تک سریاب روڈ پر ظہیر کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا گیا لیکن ’کوئی بھی وہاں ہم سے پوچھنے کے لیے بھی نہیں آیا۔‘

’جب ہماری بات نہیں سنی جارہی تھی تو پھر ہم نے ریڈ زون تک پُرامن مارچ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہماری بات سنی جائے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پہلے ریلی کے شرکا کو یونیورسٹی کے قریب روکا گیا اس کے بعد چمن پھاٹک اور جی پی او کے علاقے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں متعدد لوگ زخمی ہوگئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔‘

BBC

مظاہرے میں شامل ایک خاتون نے اپنے زخمی ہاتھ کو دکھاتے ہوئے کہا کہ سریاب روڈ پر پولیس اہلکاروں نے ان کو مارا پیٹا جس سے ان کی ہاتھ زخمی ہوا۔

سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن گلزار دوست بلوچ بھی زخمیوں میں شامل ہیں جن کے سرپر چوٹ آئی۔

وہیل چیئرز پر احتجاج میں شریک شخص نے بتایا کہ ریلی انتہائی پر امن تھی لیکن اسے ناکام بنانے کے لیے پولیس نے بدترین شیلنگ کی جس کے باعث ریلی میں خواتین اور بچے نڈھال ہو گئے۔

فضیلہ بلوچ نے بتایا کہ احتجاج کے دوران تشدد کی ویڈیوز خود اس بات کی گواہ ہیں کہ کس طرح ریلی کے شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ظہیر بلوچ اور ان کی بازیابی کے لیے ریلی کے گرفتار شرکا کو جب تک بازیاب نہیں کیا جاتا ان کا احتجاج نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں شدت لائی جائے گی۔

BBCڈی آئی جی کے مطابق پولیس کی 12 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا

دوسری طرف بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ظہیر بلوچ نامی شخص ’ریاستی اداروں کی تحول میں نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بشیر زیب دوسرے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اُکساتے ہیں اور ان کو دہشت گردی کے کیمپوں میں بلاتے ہیں ’تو کیا وہ اپنے بھائی ظہیر کو ان کیمپوں میں نہیں بلائیں گے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی پریس کانفرنسوں میں یہکہتے رہے ہیں یہ لوگ ’بی ایل اے کے کیمپوں میں جاتے رہتے ہیں۔‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ احتجاج کرنے والے لوگ گذشتہ دس بارہ روز سے سریاب روڈ پر احتجاج کررہے تھے لیکن ہم نے ان کو کچھ نہیں کہا حالانکہ سریاب میں لوگ ان کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔

’تاہم جب انھوں نے ریڈ زون کی طرف مارچ کیا تو ہم نے ان کو بتایا کہ وہ ریڈ زون نہیں آئیں بلکہ پریس کلب کے باہر پر امن مظاہرہ کریں۔‘

وزیر داخلہ کا کہنا تھا ریڈ زون میں ریاست کے کام متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ پریس کلب نہیں گئے بلکہ ریڈ زون کی جانب آئے۔

انھوں نے کہا کہ مظاہرین پولیس کے اہلکاروں پر حملوں کے علاوہ ان کو اشتعال دلاتے رہے جس کی ویڈیوز ہمارے پاس ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ گرفتار خواتین نے جرم کیا لیکن وزیر اعلیٰ نے گرفتار ہونے والی پانچ خواتین کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے لیکن اس کے باوجود بھی مظاہرین نے ریڈ زون میں گھسنےکی کوشش کی تاہم پولیس نے مظاہرین کے ساتھ انتہائی تحمل اور برداشت کا رویہ اختیار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریڈ زون کوئٹہ میں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ رجسٹری، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، ججز اور اعلیٰ سول حکام کی رہائش گاہوں سمیت سول سیکریٹریٹ بلوچستان کی عمارت بھی موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ ریڈ زون کے حوالے سے پالیسی واضح ہے کہ اس میں کسی کو بھی احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ریلی کے شرکا نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا جس سے پولیس کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کی 12 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر پولیس پر تشدد اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر مجموعی طور پر 27 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

بلوچ لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی؟وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں پھر تیزی، آخر یہ تنازع ہے کیا؟مچھ میں 10 ہزارہ کان کنوں کا قتل، دولتِ اسلامیہ نے ذمہ داری قبول کر لیماہل بلوچ سے برآمد ہونے والی جیکٹ حملے کے لیے کسی تیسرے شخص کو پہنچائی جانی تھی، بلوچ حکام کا دعویٰ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More