’عدالت حق تو دلوا سکتی ہے مگر اقتدار نہیں‘: وسعت اللہ خان کی تحریر

بی بی سی اردو  |  Jul 13, 2024

Reuters

باقی دنیا میں جمہوریت نمبرز گیم سمجھی جاتی ہے۔ یعنی جس نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اسے حکومت سازی اور اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر ہمارے ہاں جس نے نمبرز گیم کے سراب سے دھوکہ کھایا وہ بے موت مارا گیا۔

ثبوت یہ ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی حکومت جیتی ہوئی نشتسوں کی تعداد پر یقین کرنے کے باوجود اپنی مدت پوری نہیں کر پائی۔

زور وہ اور ہے پاتا ہے بدن جس سے نمو

لاکھ کودے کوئی ٹانگوں میں دبا کر موصل

( سلیم احمد )

مجیب الرحمان نے متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری بالغ رائے دہی والے انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کر کے کیا کما لیا؟ بھٹو نے ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر کتنے برس حکومت کر لی؟

محمد خان جونیجو کی سادہ اکثریتی حکومت جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھانے کا اعلان کرنے کے بعد کتنے دن پورے کر سکی؟

ان موزی نمبروں نے بے نظیر بھٹو کا دونوں بار کتنا ساتھ دیا۔ حالانکہ انھیں بار بار بلاواسطہ طور پر خبردار کیا گیا کہ آپ اپنے حامی ارکانِ پارلیمان شمار کرنے کے بجائے یہ گنتی کریں کہ کتنے حساس ادارے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں؟

’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہواپی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟

اسی طرح نواز شریف نے جب دوسری باری میں دو تہائی اکثریت لے لی تو ان کی چال ہی بدل گئی اور پھر اسی اکثریت کے رسے سے ان کی مشکیں کس دی گئیں۔

کہیں تیسری بار نمبرز کا دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ میں آیا کہ ووٹ کو بس اتنی عزت دو جتنی عام آدمی کو اس ملک میں حاصل ہے۔ اعتبار کرنا ہی ہے تو ووٹ گننے والوں کا کرو۔

جب نواز شریف کی پارٹی کو یہ فارمولا سمجھا دیا گیا تو دیکھئے کیا ہوا۔ ایوان میں ارکان کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر کو ساتھ لگا کر ان کی جماعت کو اقتدار تک پہنچا دیا گیا۔

سبق کیا ملا؟ سبق یہ ملا کہ ہمارے ساتھ بنا کے رکھو گے، ہر فرمائش پوری کرو گے اور اچھے بچوں کی طرح چلو گے تو فارم پینتالیس فارم سینتالیس میں ضم ہو جائے گا۔

ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں کی راہ اختیار کرو گے تو ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود ایک مقدمے سے دوسرے مقدمے تک جوتیاں چٹخاتے پھرو گے۔

یہ راز ایک زمانے تک اس ملک کی سب سے مقبول جماعت پیپلز پارٹی کو سمجھنے میں چالیس برس لگے۔ نوے کی دہائی کی سب سے مقبول جماعت مسلم لیگ نون کو یہی سادہ سی بات سمجھنے میں تین الیکشن لگے اور اب نسبتاً گرم خون والی پی ٹی آئی کو بھی یہی سمجھانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے کہ جس عدالت کا دروازہ چاہے کھٹکا لو، جتنی نشستوں کے نتائج چیلنج کرنے ہیں کر لو۔ جتنی ضمانتیں لینی ہیں لے لو۔ بیرونِ ملک جتنی لابنگ کرنی ہے کر ڈالو۔ پر جب تھک جاؤ اورسارے ارمان پورے ہو جائیں تب آ جانا۔ کچھ نہ کچھ ایڈجسٹمنٹ کر لیں گے۔

اب اگر سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد بانوے سے بڑھ کے ایک سو چودہ تک پہنچ جائے گی۔ یوں وہ مزید اکثریتی جماعت بن جائے گی۔مگر حکومت سازی کے لئے اسے جو سادہ اکثریت درکار ہے اس تک پہنچنے کے لئے اٹھاون اضافی ارکان کی حمائیت چاہیے۔

ایک راستہ تو یہ ہے کہ عدلیہ کی زنجیر ہلا کر فارم پینتالیس اور سینتالیس کا موازنہ کروا کے کچھ اور نشستیں چھڑوا لی جائیں۔ مگر یہ کام اتنا ہی آسان ہوتا تو آٹھ فروری کے انتخابات کا انتظام کرنے والوں کو اتنی محنت اور خرچہ کیوں کرنا پڑتا۔ لہذا اس آپشن پر دست بدست قانونی و ماورائے قانون جنگ کے بغیر عمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری راہ یہ ہے کہ اقتدار بانٹنے والوں سے کچھ مک مکا ہو جائے اور اس مک مکا کے نتیجے میں پہلے کی طرح اب بھی لیز پر چند جماعتوں کی بیساکھی فراہم کر دی جائے۔ مگر یہ راستہ بدزنی کی موجودہ فضا میں غصے اور انتقام کی جھاڑیوں سے اٹا پڑا ہے۔ جب تک ’تم رہو گے یا ہم‘ کا موڈ دونوں طرف طاری ہے۔ ایسی کوئی بھی سودے بازی ناممکن ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طاقت اور کمزوریوں کا تو اندازہ ہے مگر خان کے موڈ کا کچھ ادراک نہیں۔ بلکہ شاید خان کو بھی نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ بطور بادشاہ گر اپنی اب تک کی کامیابیوں کے ریکارڈ کے سرور میں مبتلا ہے اور خان کو مستقبل کے سہانے سپنوںنے اب تک کھڑا رکھا ہوا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدالتیں بھلے کسی بھی دستوری غلطی کو سیدھا کر لیں۔ ان کے فیصلوں کے باوجود مستقبلِ قریب میں سیاسی استحکام آنے کا کوئی امکان نہیں۔ کسی سیاسی و غیر سیاسی قوت کے پاس اس دلدل سے نکلنے کا کوئی بلیو پرنٹ نہیں۔ اب تو دور دور تک کوئی نواب زادہ نصراللہ خان بھی نہیں۔

اس ملک پر کب کب بحران نہیں آیا۔ مگر پہلی بار سیاسی و معاشی عدم استحکام، لاقانونیت اور دہشت گردی کے کوڑے ایک ساتھ برس رہے ہیں۔

ایسے میں کوئی بھی جیتے پاکستان ایک بڑے مارجن سے ہار رہا ہے۔

پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی اہل: کیا عمران خان کی جماعت سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن سکتی ہے؟’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہواپی ٹی آئی کی زیر حراست خواتین کے اہلخانہ مشکلات کا شکار: ’اُدھر عدالتیں ریلیف دیتی ہیں، اِدھر کسی نئے مقدمے میں پکڑ لیا جاتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More