Getty Images
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کی جانب سے گھریلو صارفین کو سولر سسٹم فراہم کرنے کی ’روشن گھرانہ‘ سکیم متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بعد اب خیبرپختونخوا کی حکومت نے بھی گھریلو صارفین کو سولر سسٹم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب اور خیرپختونخوا حکومتوں کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب پاکستان کے بیشتر شہروں میں عوام بجلی کے بلوں میں ’اوور بلنگ‘ کی شکایات کر رہے ہیں اور بجلی کے بلوں میں استعمال شدہ یونٹس کی تعداد اور اس کے عوض واجب الادا رقم سے مطمئن نہیں۔
اس عوامی ردِعمل پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بجلی کے بِلوں سے متعلق شکایات پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیرِ توانائی اویس احمد لغاری کو بجلی صارفین کے بِلوں میں ’مصنوعی طور پر اضافی یونٹ شامل کرنے والے‘ افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔
تو کیا پنجاب اور خیرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کے یہ منصوبے کامیاب ثابت ہوں گے اور اس سے عوام کی مشکلات میں کس حد تک کمی آ سکے گی؟
اس سے پہلے ہم یہ جاننےکی کوشش کرتے ہیں کہ پنجاب اور خیرپختونخوا کے ان سولر منصوبوں کی خصوصیات کیا ہیں۔
سولر سسٹم کن گھرانوں کو فراہم کیے جائیں گے؟
پنجاب میں حکمراں جماعت کے مطابق صوبائی حکومت یہ سولر سسٹم ان گھرانوں کو فراہم کرے گی جہاں ماہانہ بجلی کے 50 سے 500 یونٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔
حکومتی جماعت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سولر سسٹم کی لاگت کا 90 فیصد حصہ پنجاب حکومت جبکہ 10 فیصد صارف ادا کریں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سولر پینل پانچ سال کی آسان اقساط پر صارفین کو مہیا کیے جائیں گے‘ اور سکیم کے پہلے مرحلے میں ’غریب ترین گھرانوں‘ کو سولر سسٹم دیے جائیں گے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’سولر سکیم‘ متعارف کروانے جا رہے ہیں جس کے تحت ایک لاکھ گھروں کو سولر سسٹم مہیا کیے جائیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم ایک سولر سکیم متعارف کروائیں گے۔ جو لوگ لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہیں اور جو بہت کم بہت کم مقدار میں 200 اور 300 بجلی کے یونٹ استعمال کرتے ہیں۔‘
’ابتدائی طور پر ایک لاکھ لوگوں کو سولر سسٹم مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق یہ سولر سسٹم تین طرح کے گھرانوں کو دیے جائیں گے: پہلے وہ جو انتہائی غریب ہیں انھیں پورا سولر پلانٹ لگا کر دیں گے اور انھیں سولر سے چلنے والے پنکھے اور بیٹری بھی مہیا کریں گے۔
مزمل اسلم کہتے ہیں کہ ’یہ لگ بھگ 2 لاکھ کے قریب کا پیکج ہوگا لیکن ابھی اس پر حتمی کام کیا جا رہا ہے۔‘
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ’دوسرے وہ لوگ ہیں جو سولر سسٹم لینے کی استطاعت رکھتے ہیں، ان کے لیے آدھی رقم صوبائی حکومت دے گی اور آدھی وہ خود دیں گے۔‘
’تیسرے وہ لوگ ہیں جو سولر سسٹم لگوانے کی استطاعت تو رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس نقد رقم موجود نہیں، انھیں ہم یہ سسٹم آسان اقساط پر دلوا دیں گے، اس کا مارک اپ بھی ہم ادا کریں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس منصوبے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی تو ان کا کہنا تھا کہ 30 جون کو صوبائی حکومت نے اپنے خزانے میں 100 ارب روپے کی سرپلس رقم چھوڑی ہے۔
مزمل اسلم نے مزید بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ہمارا ہدف یہ ہے کہ اس سکیم کے لیے ہم دس ارب روپے رکھیں اور مجموعی طور پر یہ سکیم 20 ارب روپے تک جائے گی۔‘
کیا اس سکیم کو کامیاب بنانا ممکن ہے؟
ماضی میں پنجاب حکومت کے ساتھ سولر منصوبوں پر کام کرنے والی نجی کمپنی کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’اس پورے منصوبے پر کُل کتنی لاگت آئے گی یہ تو اس وقت ہی پتہ چلے گا جب یہ معلوم ہو کہ کتنے صارفین سولر سسٹم فراہم کیے جا رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں ایک کلو واٹ کے سولر سسٹم کی قیمت تین سے ساڑھے تین لاکھ کے درمیان ہے، جبکہ دو کلو واٹ کے سولر سسٹم پر چار سے ساڑھے چار لاکھ روپے کی لاگت آ تی ہے۔
نجی کمپنی کے عہدیدار کے مطابق ’ماضی میں صوبہ پنجاب میں ہی ایک اس طرح کا پائلٹ پراجیکٹ مکمل کیا جا چکا ہے اور اس کے نتائج بھی اچھے آئے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سولر سسٹم میں لیتھیم کی بیٹری استعمال ہوتی ہے جو کہ دس برس بھی چل جاتی ہے۔
ان کے مطابق حکومت عام طور پر اس طرح کے منصوبوں میں نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور تمام کمپنیاں پراجیکٹ حاصل کرنے کے چکر میں سستے سے سستے ریٹ حکومت کو دیتے ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب کی وزیرِ اطلاعات اعظمیٰ بخاری نے کہا کہ سولر سسٹم کن خاندانوں کو دیا جائے گا اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اس حوالے سے وفاقی حکومت سے مشاورت جاری ہے، جلد ہی تمام تفصیلات کا اعلان کردیا جائے گا۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے لیے اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیےگھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟بیٹری کی طرح توانائی سٹور کرنے والا سیمنٹ جو آپ کے گھر کو سستی اور بلاتعطل بجلی فراہم کر سکتا ہےGetty Imagesماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے لیے اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا
معاشی امور کے ماہر عمار حبیب خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ملک بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ’پروٹیکٹڈ‘ گھرانے موجود ہیں اور ان میں سے تقریباً ایک کروڑ گھرانے پنجاب میں ہیں۔
’اگر یہ سسٹم ہر گھرانے کو دیا جاتا ہے تو کُل قیمت ایک کھرب سے بھی تجاوز کر جائے گی۔‘
’پروٹیکٹڈ‘ گھرانوں سے مراد وہ صارفین ہیں جو کہ کم بجلی استعمال کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے انھیں رعایت دی جاتی ہے۔
عمار حبیب خان کہتے ہیں کہ ’ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کے پاس اس سکیم کے لیے مالیاتی وسائل تو نہیں لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ پنجاب حکومت 20 فیصد ڈاؤن پیمنٹ کردے اور پھر صارفین تین یا چار سال میں اس کی اقساط بھرتے رہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’روشن گھرانہ‘ سکیم کی کامیابی اس پر منحصر کرتی ہے کہ حکومت اسے ڈیزائن کس طرح کرتے ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے سولر سسٹم کی 90 فیصد ادائیگی قابلِ عمل حکمتِ عملی نہیں۔
دوسری جانب ماہرِ معاشیات شاہد محمود خیبر پختونخوا کی سکیم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی سکیموں میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ جیسے خیبر پختونخوا کے لوگ سولر کے فوائد سے ناواقف ہیں اور انھیں حکومتی سبسڈی کی ضرورت ہے۔
’درحقیقت کم از کم ایک دہائی سے کے پی میں سولرائزیشن کی رفتار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔‘
شاہد محمود کہتے ہیں کہ دوسری چیز یہ ہے کہ عمومی طور پر ایسی سرکاری سبسڈی سکیمیں بیوروکریسی کے تحت چلائی جاتی ہیں۔
’تاریخ گواہ ہے کہ (ایسی سکیموں کا) نتیجہ فضول خرچی اور وسائل کے ضیاع کی صورت میں ہی نکلا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب لوگ پہلے ہی سولر انسٹال کر رہے ہیں اور بہت سی کمپنیاں صارفین کو خدمات مہیا کرنے کے لیے موجود ہیں تو ایسے میں حکومت اس کام کو بیوروکریسی کے حوالے کیوں کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر کسی ایک سپلائر کو منتخب کرے گی جس سے مسابقت اور کارکردگی میں فرق پڑے گا۔
شاہد محمود سوال کرتے ہیں کہ اس سکیم کے لیے درکار مالی وسائل کہاں سے آئیں گے۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا صوبہ ہے جو اس طرح کی ناقص اور غیر سوچی سمجھی سکیموں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایک لاکھ گھروں میں سولر نصب کر دیا جائے تب بھی ’بیس لوڈ‘ کے طور پر بجلی پیدا کرنے کے روایتی طریقوں جیسے ایل این جی اور ہائیڈرو کی ضرورت رہے گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک مرکزی نظام ہے جس کے فیصلے وفاقی حکومت لیتی ہے۔ اس سلسلے میں وفاق اور خیبر پختونخوا کے درمیان مسائل سے سب ہی آگاہ ہیں۔
’اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ خیبر پختونخوا وفاقی حکومت سے کنٹرول لے کر اپنا پاور سیکٹر خود چلائے اور وفاق کئی وجوہات کی بنا پر یہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
ان کے خیال میں یہ سولرائزنگ سکیم خیبر پختونخوا کے پاور سیکٹر کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
’زیادہ سے زیادہ یہ سکیم مائیکرو لیول پر لوگوں کو فائدہ پہنچائے گا لیکن مجموعی طور پر اس کا معاشی سرگرمیوں یا گھریلو بہبود پر کوئی بامعنی اثر پڑنے کا امکان بہت کم ہے۔‘
پاکستان میں سولر سسٹم کا بڑھتا ہوا استعمال
گذشتہ دو تین سال میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب لوگوں کی ایک بڑی تعداد سولر سسٹم کے استعمال کر ترجیح دے رہی ہے تاہم پاکستان میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کے سبب سولر سسٹم پر بھی کافی خرچا آ جاتا ہے۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سولر پینلز کی سروسز دینے والے عبدالستار صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سولر پینلز کی مقامی مینوفیکچرنگ نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے جتنے بھی پینلز اور انورٹر درآمد کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر چین سے ہی آتے ہیں۔
’ان میں چین کی اپنی کمپنیوں کے علاوہ دیگر ممالک کی کمپنیوں کی مصنوعات بھی بنائی جاتی ہیں۔‘
اب یہاں مسئلہ یہ ہے جب کوئی چیز درآمد کی جاتی ہے تو اس کی قیمت ڈالر کی قیمت سے جڑ جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک سولر پینل کی فکس پرائس جو آج سے لگ بھگ دس دن پہلے تک 37 ہزار روپے تھی آج 46 ہزار ہو گئی ہے۔
عبدالستار کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں سولر انرجی غریب یا متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہی رہے گی جب پاکستان میں روپے کی قدر بہتر نہیں ہو جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حالانکہ عالمی سطح پر سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں یہ قیمت آئے روز بڑھ رہی ہے۔
وہ مثال دے کر بتاتے ہیں کہ آپ کم از کم دو پلیٹس بھی لگاتے ہیں تو آپ کو ایک لاکھ 12 ہزار تو ایک طرف رکھنا ہو گا، اس میں اگر آپ ایک کلو واٹ کا انورٹر بھی خریدتے ہیں جو معیاری بھی نہیں تو وہ بھی اس وقت آپ کو لگ بھگ 80 ہزار تک کا پڑ جائے گا۔ اس میں بیٹری کی قیمت بھی شامل کر لیں تو بات سوا دو سے ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
سروس دینے والوں کے مطابق یہ سسٹم عموماً دو سے تین پنکھوں اور کچھ لائٹس کا بوجھ اٹھا سکے گا اور بیٹری میں انرجی سٹوریج کے حساب سے پورے دن میں اس کا استعمال کیا جا سکے گا۔
’ہمارے پاس جگہ بھی ہے اور جانور بھی‘: انڈیا میں گوبر سے سستا ایندھن کیسے حاصل کیا جا رہا ہے؟گھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟قدرتی خوبصورتی سے مالامال سکاٹش جزیرہ جو اپنی ضرورت کی بجلی خود بناتا ہے