Getty Imagesفیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخاب لڑںے سے نہیں روکتا
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد اب یہ بات اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ کیا عمران خان کی تحریک انصاف اب قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن جائے گی؟
واضح رہے کہ جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سربراہی میں 13 رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل اکثریت رائے سے منظور کر لی ہے۔ اس فیصلے سے براہ راست تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو آٹھ ججز نے منظور کیا جبکہ پانچ ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا اور پی ٹی آئی ہی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے۔ یوں اب تحریک انصاف سیاسی جماعت بن کر حزب اختلاف کی جماعت بن گئی ہے اور ایسی حزب اختلاف کہ جس کے پاس کسی بھی نشستوں کی تعداد کسی بھی جماعت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد ہی یہ پتا چل سکے گا کہ آیا تحریک انصاف کو تمام مخصوص نشستیں مل سکیں گی یا نہیں۔ انتخابی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ابھی 15 روز میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کیا تمام آزاد امیدوار تحریک انصاف میں ہی شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں تو تحریک انصاف کی سب سے بڑی جماعت بننے کی خواہش پوری ہو سکے گی۔
تحریک انصاف جن نشستوں پر دعوے کرتی آ رہی ہے وہ ملنے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اس کی 84 نشستیں بڑھ کر 107 ہو جائیں گی اور یوں یہ سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن سکے گی۔ اس کے مقابلے میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 106، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 69، ایم کیو ایم کے پاس 22 اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس نو نشستیں ہوں گی۔
مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد ایک بات واضح ہے کہ حکومتی اتحاد کو پارلیمنٹ میں اکثریت تو حاصل ہے مگر اسے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں رہے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی وزرا اور مشیروں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اپیل تو سنی اتحاد کونسل کی تھی مگر ریلیف تحریک انصاف کو دے دیا گیا ہے۔ وزیر قانون نے اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر اپیل پر 31 مئی کو دستیاب ججز کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جس نے اس کیس کی 9 سماعتیں کیں۔
اس اپیل کی سماعت کے دورن سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر 77 مخصوص نشستیں ہیں جو سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔
سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی پہلی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی اور ابتدائی سماعت میں انھوں نے پصاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا تھا جس کی وجہ سے یہ مخصوص نشستیں جن دیگر جماعتوں کو ملی تھیں ان کے ارکان کی رکنیت بھی معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے بعد 13 مئی کو نوٹیفکیشن کے ذریعے 77 مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان کی رکنیت کو معطل کر دیا تھا۔ ان 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختونخوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی معطل مخصوص نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو 14، پاکستان پیپلز پارٹی کو 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں ہیں جن میں سے جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو 7، پیپلز پارٹی کو 7 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔
پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل (ق) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔
سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی نشست معطل ہیں۔ ان میں سے پیپلز پارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست ملی تھی۔
پہلے دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے اور اس فیصلے کے اثرات سے متعلق ماہرین کیا آرا رکھتے ہیں؟
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن نے جو مارچ میں فیصلہ دیا تھا وہ ماورائے آئین ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے جو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اس کو بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
عدالت نے اس سے قبل چھ مئی کو دیگر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔ آج کے عدالتی فیصلے کے مطابق اس فیصلے پر عملدرآمد چھ مئی سے ہی تصور ہو گا۔
سپریم کورٹ کے آٹھ ججز اکثریتی فیصلے کے اہم نکات پڑھتے ہوئے جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے اور اس کے امیدوار کو کسی دوسری جماعت یا آزاد امیدوار کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حق دار ہے اور اس فیصلے کے 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ جو امیدوار آزاد حیثیت میں اس الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اپنی جماعت کی وابستگی سے متعلق بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں اور پھر الیکشن کمیشن اس جماعت کے ساتھ رابطہ کرکے اس بات کی تصدیق کرے اور تصدیق ہونے کے سات روز کے اندر اندر اس امیدوار کو اس جماعت کا رکن تصور کیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آزادا امیدواروں کے سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے بعد اس کی تعداد کو دیکھتے ہوئے متناسب نمائندگی کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اس جماعت یعنی پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی بھی رکن کو اس بارے میں کوئی غلط فہمی ہو تو وہ دوبارہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہمخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن نے جو مارچ میں فیصلہ دیا تھا وہ ماورائے آئین ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے جو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اس کو بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہپی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں لینے کی حقدار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حق دار ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں وہ اس جماعت کے ہی اراکین تصور کیے جائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی جبکہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے کا ’آپریٹیو پارٹ‘ سناتے ہوئے کہا کہ اس اپیل کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے 80 اُمیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا۔
انھوں نے کہا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کی زیر حراست خواتین کے اہلخانہ مشکلات کا شکار: ’اُدھر عدالتیں ریلیف دیتی ہیں، اِدھر کسی نئے مقدمے میں پکڑ لیا جاتا ہے‘’عمران خان کے خلاف نئے مقدمات کا عندیہ‘: حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہواچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اکثریتی ججز سے اختلاف
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان پانچ ججز میں شامل ہیں جنھوں نے ججز کی اکثریت سے اختلاف کیا۔
انھوں نے اپنا نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ سُنّی اتحاد کونسل نے 2024 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی انھوں نے کوئی سیٹ حاصل کی۔
انھوں نے کہا کہ سُنّی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنی کوئی فہرست ہی جمع نہیں کروائی۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر ان کا انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا تھا، لیکن الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی جماعت کے امیدوار کو آزاد قرار دے۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی امیدوار نے الیکشن کمیشن کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے وقت یہ معاملہ عدالت میں آجاتا تو شاید یہ صورتحال اس نہج تک نہ پہنچتی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی اور الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔
انھوں نے کہا کہ اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان خود کو آزاد یا پی ٹی آئی سے وابستہ ڈیکلیئر کریں اور ایسا کرتے ہوئےان اراکین پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔
Getty Imagesجسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہپی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں لینے کی حقدار ہےجسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
انھوں نے کہا کہ وہ امیدوار جنھوں نے دوسری جماعتیں جوائن کیں انھوں نے عوامکے مینڈٹ کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ وہ امیدوار جنھوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہپی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، انھیں پی ٹی آئی کا امیدوار قرار دیا جائے۔
انھوںنے کہا کہ پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے اورپی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حق دار ہے، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔
اس بینچ میں دو ججز جسٹس امین الدین اور جسٹس عرفان سعادت نے سُنی اتحاد کونسل کی درخواست کو یکسر مسترد کیا ہے۔
فیصلے سے پی ٹی آئی خوش، ن لیگ خفا
پاکستان کی سپریم کورٹ کے پارلیمان میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ خلاف آئین قرار دینے پر تحریک انصاف نے اسے آئین و جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے کہا کہ ’آج کا دن پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا یادگار دن ہے۔ ابھی ہمیں آدھا مینڈیٹ ملا ہے۔ ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘
دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس فیصلے پر پریس کانفرنس کے دوران رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مختصر فیصلے پر اتنا کہوں گا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر دعویٰ کیا تھا اورریلیف پی ٹی آئی کو دیا گیا جو نہ اس معاملے میں فریق تھی اور نہ انھوں نے درخواست دائر کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر فیصلہ سوال گندم جواب چنا ہے۔ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اس کا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ریلیف مانگنے سنی اتحاد کونسل آئی تھی تاہم بادی النظر میں ریلیف پی ٹی آئی کو دیا گیا۔ ’پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پانچ صفر کی اکثریت سے آیا تھا اس میں پی ٹی آئی کا دعویٰ نہیں تھا۔‘
وزیر قانون کے مطابق ’جو فریقین منتخب ہوئے ان کی اکثریت عدالت کے سامنے نہیں تھی لیکن ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ قانون کہتا ہے کہ جب تک آپ فریق کو سن نہ لیں اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ’پی ٹی آئی کے آزاد اراکین نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔‘
مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ سپیرم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی اپیل تو بنتی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ نے کرنا ہے ۔
Getty Imagesرہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے کہا کہ ’آج کا دن پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ کا یادگار دن ہے‘’یہ عدالت کا ایک سیاسی فیصلہ ہے‘
سیاسی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کے سیاسی ماحول پر اثرات پڑیں گے۔
ماہرِ قانون اور سینیئر وکیل عابد ساقی نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 13 رُکنی بینچ نے انصاف کیا ہے اور بینچ کے آٹھ ججز نے ایک راستہ نکال لیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کو تکنیکی بنیاد پر مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا تھا، کنفیوژن تو تب پیدا ہوئی جب ان سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔‘
حکومتی مؤقف پر ان کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پورا انصاف کرے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے کسی کو پابند نہیں کیا، بس یہی کہا ہے کہ لوگوں کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ 15 دن میں حلف نامہ جمع کروائیں کہ وہ پی ٹی آئی کے امیداوار ہیں یا آزاد۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس صرف ایک ہی آپشن باقی ہے کہ وہ نظرِ ثانی کی درخواست دائر کریں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سیاسی تجزیہ کار و مبصرین بھی تقسیم نظر آتے ہیں۔
لاہور میں مقیم تجزیہ کار سلمان غنی نے بی بی سی اردو کے اعظم خان کو بتایا کہ ’یہ عدالت کا ایک سیاسی فیصلہ ہے کیونکہ مدعی کوئی تھا اور فیصلہ کسی کے حق میں آگیا۔‘
ان کے مطابق عدالت نے ایک سیاسی بحران کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ سیاسی قوتوں کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے اب سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ بڑھے گا اور پارلیمنٹ میں ایک نئی محاذ آرائی ہو گی۔
سلمان غنی کی رائے میں یہ معاملہ اب پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کی طرف جاتا نظر آتا ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی عوام میں معیشیت کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے۔
ان کی رائے میں جمہوریت وہاں مضبوط ہوتی ہے جہاں حکمران عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوں جبکہ صرف اس ماہ کے بجلی کے بل نے عوام اور حکومت میں بڑی خلیج پیدا کر دی ہے۔
پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار اجمل جامی سلمان غنی سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ماحول میں کشید گی اور تلخی بڑھے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’آج کے فیصلے میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا گیا ہے اور اب ہمیں انھیں میڈیا میں سنُی اتحاد کونسل کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان اراکین کو پی ٹی آئی کے نمائندے ہی پکارا جائے۔‘
اجمل جامی کہتے ہیں ’انتخابی نشان چھن جانے کے سبب لگنے والی قدغن کے باعث پی ٹی آئی کے لوگوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑے لیکن ان کے پوسٹرز پر ضرور لکھا تھا کہ وہ عمران خان کے نامزد کردہ امیدوار ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کا مینڈیٹ ہے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ ’آج کے فیصلے سے جو جمہوریت پر سوال اُٹھ رہے تھے وہ کم ہوئے ہیں اور ثابت ہوا ہے کہ ملک میں لولی لنگڑی ہی سہی لیکن جمہوریت موجود ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس فیصلے کے بعد عمران خان کا مؤقف مزید تلخ اورمضبوط ہو گا اور انھیں اسے بیچنا بھی آتا ہے۔ اس سے ماحول میں کشیدگی اور تلخی بڑھے گی۔‘
Getty Imagesسیاسی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کے سیاسی ماحول پر اثرات پڑیں گےسپریم کورٹ کے ججز تقسیم؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ نگار طلعت حسین نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ میں ایک واضح تقسیم نظر آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کی حمایت کرنے والے ججز آئین اور قانون کے مطابق اس اپیل کا فیصلہ کرنے کے حق میں نظر آئے جبکہ دوسری جانب کچھ ججز کا موقف رہا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ انھوں نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں کس جماعت کو ووٹ دیا ہے لہذا مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی جماعت کو ملنی چاہییں۔
واضح رہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے انتخابی نشان چھین لیا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حثیت میں انتحابات میں حصہ لیا تھا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انھوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی اپنی جماعت کی طرف سے الیکشن نہیں لڑا اور نہ ہی ان کی جماعت نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی تھی۔
طلعت حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے مخصوص نشستوں پر فیصلہ آنے سے پہلے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا چیف جسٹس ان سے متعلق کسی بھی کیس یا درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل نہ ہوں۔
طلعت حسین کہتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل منظور ہونے کے بعد جہاں ایک طرف حکمراں اتحاد کی دو تہائی اکثریت ختم ہو گئی ہے وہیں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اٹھائے جانے والے سوالات شدت اختیار کر گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے جو نشستیں جیتی ہیں اس میں سے بھی ہر دوسری نشست کے نتیجے کو الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کیا جائے گا۔
کیا عمران خان جیل سے تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات دور کر سکیں گے؟وزیر اعظم کی تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت: حکومت اور پی ٹی آئی میں بات چیت کی راہ کیسے نکل سکتی ہے؟’سنی اتحاد کونسل کو جانتا کون ہے؟‘: مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، عدالت میں کیا ہوا