Getty Images
اس وقت ہماری حالت دیسی ائیر لائن کے ان مسافروں جیسی ہے جو سیٹ بیلٹ باندھے پرواز اڑنےکے منتظر ہیں۔انجن بند ہیں چنانچہ اے سی نہ چلنے کے سبب کیبن میں گھٹن بڑھ رہی ہے۔ فضائی عملے کی کاک پٹ میں آہر جاہر مسلسل ہے۔ گراؤنڈ پر بھی زمینی عملہ کچھ زیادہ ہی مستعد ہے۔
کھڑکی سے باہر جھانکتے یا بے چینی سے پہلو بدلتے بے بس مسافروں کو کچھ نہیں ٹپائی دے رہا ہے کہ پرواز میں تاخیر کا سبب آخر کیا ہے؟کسی وی آئی پی کا انتظار ہے؟ کوئی تکنیکی خرابی دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟ پائلٹ یا معاون میں سے کسی کی طبیعت ناساز ہے؟ یاکوئی اور پراسرار وجہ ہے؟
کیبن کے پسینجر ایڈریس سسٹم پر ہر آدھے پونے گھنٹے بعد کسی فضائی میزبان کی مشینی لہجے سے لبالب آواز متوحش مسافروں کی جھنجھلاہٹ اور بڑھا رہی ہے۔
’ناگزیر تکنیکی وجوہات کے سبب تاخیر پر ہم معذرت خواہ ہیں۔ ہم انشااللہ تھوڑی دیر میں پرواز کر جائیں گے۔ براہِ کرم اپنی نشستوں پر تشریف رکھیے۔ کرسی کی پشت سیدھی رکھیے وغیرہ وغیرہ۔‘
اس ’حقائق کے خزانے‘ میں سے مسافر جو چاہے نتیجہ چن لے یا پھر اپنا ہی لہو پیتا رہے۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ریاست کا طیارہ بھی ایسی ہی حالت میں ہے۔ انجن کبھی آن ہوتا ہے کبھی آف مگر طیارہ ہل نہیں رہا۔ ۔کبھی تو یوں لگتا ہے کہ یہ ٹائروں کے بجائے اینٹوں پر کھڑا ہو۔ پر تاثر مسلسل یہ دیا جا رہا ہے کہ بس تھوڑی دیر میں ہی ہم ٹیک آف کرنے والے ہیں۔
Getty Images’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘’لاش کو عزت دو‘’خدایا آئی ایم ایف کو ہیضہ ہو جائے‘
پچیس کروڑ مسافروں کو یہ تو اندازہ ہے کہ کچھ اوندھا سیدھا ہوئے چلا جا رہا ہے۔ لیکن ریاستی ائیرلائن کا عملہ نہ مسافروں کو پوری سچائی کے ساتھ اعتماد میں لینے کی ہمت رکھتا ہے۔ نہ اپنے کچھ غلط ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔ نہ ہیمسئلے کی نوعیت بتانے پر تیار ہے اور یہ بھی کہ اندازاً خرابی کب تک دور ہو جائے گی؟
ایسی بے یقینی کے جوہڑ میں افواہیں پنپتی ہیں۔ افواہوں کے جھنڈ کو حقائق کے اجالے سے بھگانے کے بجائے تادیبی قوانین کا بوجھ اور بڑھا کے انھیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو ’دبکے‘ میں نہ آئے اس پر شرپسند، ملک دشمن، بیرونی آلہ کار وغیرہ وغیرہ کے بیسیوں سٹیکرز میں سے کوئی بھی چپکا دیا جاتا ہے۔
ایسی اول جلول حرکتوں اور انتظامی بدحواسیوں سے عدم اعتماد کی خلیج تھوڑی اور بڑھ جاتی ہے اور اس خلیج کو پاٹنے کے لیے کھردرے طرزِ عمل میں مزید سختی لائی جاتی ہے۔ یوں مزید غلط فہمیاں پھلتی پھولتی ہیں۔ یوں ہم سبایک منحوس چکر کے قیدی بنے گول گول گھومتے رہتے ہیں۔
جن ریاستوں کو خود پر اعتماد ہوتا ہے ان کے چالک سوچ بچار کر کے ایسی انتظامی، سیاسی، اقتصادی قانون سازی پر توجہ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک عام شہری ریاستی امور میں برابری کی ساجھے داری اور اس ساجھے داری سے وفاداری محسوس کرے۔
مگر جو ریاستیں بالادست طبقات اور اداروں کے مفادات کو ہمیشہ اوّلیت دیتی ہیں انھیں اس گولی کو عام آدمی کے حلق سے اتارنے کے لیے سماجی، مذہبی، اقتصادی و سیاسی جبر اور نفاق پرست حکمت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
جبر کی مزاحمت میں جو بے چینی جنم لیتی ہے اسے خوش اسلوبی سے کم کرنے کے طریقے سوچنے کے بجائے اسے دبانے کے لیے مزید جبر کا سہارا لیا جاتا ہے اور اس جبر کو بیرونی دنیا کے لیے زود ہضم بنانے کی خاطر رنگ برنگی قانونی پوشاکیں پہنانا پڑتی ہیں۔ اور پھر اس ’حسنِ انتظام‘کو آئینی و قانونی و جمہوری قرار دے کر استحصال کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔
یوں سمجھ لیں کہ مقتدر اشرافیہ کے نزدیک عام آدمی وہ گدھا ہے جس کے آگے مستقبل کے سنہرے ڈنڈے پر امید کی گاجر باندھکے لامحدود سواری گانٹھی جا سکتی ہے۔ جب گدھا تھکن سے چورگر پڑتا ہے تو اس کے جوان بچوں کو سواری میں جوت لیا جاتا ہے۔
اس گدھا پچیسی کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ریاست بالاخر دو واضح فریقوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جس کا ایک ہاتھوسائل پر ہے اور دوسرے ہاتھ میں شخصی و طبقاتی و ادارہ جاتی مفادات کے تحفظکا قانونی ڈنڈا ہے اور دوسرا فریق وہ مسائل زدہ مخلوق ہے جو اس ڈنڈے سے مسلسل پیٹی جا رہی ہے۔
Getty Images
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ استحصال جاری رکھنے والوں کو بھی ریاست کی پائیداری پر اعتماد نہیں ہوتا۔ وسائل، سہولتوں اور میرٹ کی منصفانہ تقسیم کو مسترد کرنے والا بالادست طبقہ بھی اس مستقل خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کل کلاں اگر یہ سب چھن گیا یا پھر ریاست ہی چھن گئی تو کیا ہو گا۔
اس لالچی گھبراہٹ کے سبب جبر اور لوٹ کھسوٹ کی رفتار اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لپا ڈکی کی بہتی گنگا میں کھلے عام اشنان کرنے والوں کو ہر سایہ اپنا دشمن نظر آنے لگتا ہے۔ ہر ابھری ہوئی کیل کا علاج ہتھوڑے میں ڈھونڈا جاتا ہے۔
جب تک محروم محکموں کو جدید و کہنہ ڈیجیٹل نان ڈیجیٹل ہتھکنڈوں سے دہشت کا چابک لہرا لہرا کر دبایا جا سکتا ہے دبایا جاتا ہے اور جب زمین پاؤں تلے سے نکلتی محسوس ہوتی ہے تب سماج، ملک اور قومی ڈھانچے کو اس کے حال پر چھوڑ کے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے۔
تاریخ ایسی بیسیوں عبرتی مثالوں سے مالامال ہے۔
جس طبقے کو مسلسل توہین، عزتِ نفس کی پامالی، جان و مال کے عدم تحفظ ، دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری ہونے کے لگاتار احساس، سماجی و مذہبی گھٹن اور ترقی کے مواقع کی بند گلی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے پاس آخر میں دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو اٹھ کھڑا ہوا جائے یا اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور ہو جایا جائے یعنی جس کے پاس بھی قابلیت یا نکلنے کا وسیلہ ہو وہ چلا جائے۔
چنانچہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہر کوئی پر تول رہا ہے۔ لوٹنے والے بھی بیرونِ ریاست اپنا اور اپنی نسلوں کا تسلی بخش انتظام کر چکے ہیں اور لٹنے والے بھی پہلی فرصت میں نکلنا چاہتے ہیں۔
یہ ریاست بنی تو آزادی کے وعدے پر مگر اس سے لگاتار ایک نوآبادی جیسا سلوک کیا گیا ۔ فرق بقولِ غالب بس اتنا پڑاکہ گورے کی قید سے رہائی ملی تو کالے کی قید میں آ گئے۔
البتہ حکمران طبقات آج بھی گورے کی اقتصادی و ذہنی قید میں ہیں اور ہم اپنے خرچ پر’ کالوں ‘ کی قید میں ہیں۔
گویا غلام کا ہدف غلام ہی ہے۔
کیا پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈالا؟’خدایا آئی ایم ایف کو ہیضہ ہو جائے‘https://www.bbc.com/urdu/pakistan-62401175اگر پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی ہے تو عام آدمی کے لیے صورتحال اب بھی پریشان کن کیوں؟