سندھ کے ایک گاؤں میں نومولود بچی کو زندہ دفن کرنے کا مبینہ واقعہ: ’باپ نے کہا وہ فوت ہو گئی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 09, 2024

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں

’پولیس کی موجودگی میں طیب عرف مچھر راجپر نے کدال کی مدد سے مٹی ہٹائی تو اندر سے کپڑے میں لپٹی ہوئی نومولود بچی کی لاش نکلی۔‘

پاکستان کے صوبہ سندھ میں لونگ راجپر نامی گاؤں کے رہائشی طیب پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے اپنی نومولود بچی کو زندہ دفنا دیا تھا۔

اس واقعے کی خبر پھیلنے کے بعد پولیس نے طیب کو حراست میں لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا اور پھر ملزم ہی کی نشاندہی پر اس جگہ کی تصدیق ہوئی کہ جہاں انھوں نے مبینہ طور پر اپنی نومولود بچی کو زندہ دفن کیا تھا۔

جس گاؤں، لونگ راجپر، میں یہ واقعہ پیش آیا وہ دو ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے اور ٹھارو شاہ قصبے سے 10 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ قصبہ ضلع نوشہروفیروز کی کنڈیارو تحصیل کی حدود میں ہے۔

لونگ راجپر میں طیب کا ایک کمرے کا کچا گھر ہے۔ ان کی اہلیہ اپنے دو بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر جا چکی ہیں۔

کنڈیارو پولیس نے ملزم طیب راجپر عرف مچھر کا تین روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ طیب نے اپنی نومولود بچی کو زندہ کیوں دفن کیا؟

بی بی سی نے لونگ راجپر میں طیب کے اہلخانہ سے یہ جاننے کی کوشش کی جو خود اس وقت کنڈیارو کے تھانے میں زیر حراست ہیں۔

تاہم پہلے اس واقعے کی ایف آئی آر میں موجود تفصیلات جانتے ہیں۔

’بوری میں ڈال کر قبرستان لے گیا‘

بچی کی ہلاکت کا مقدمہ سات جولائی یعنی دو دن قبل ہی سرکار کی جانب سے اے ایس آئی غلام حسین کی مدعیت میں کنڈیارو تھانے میں درج کیا گیا۔

اس ایف آئی آر کے مطابق اے ایس آئی غلام حسین نے بتایا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر موجود تھے تو انھیں اطلاع ملی کہ ’طیب عرف مچھر راجپر نے مبینہ طور پر اپنی بیمار نومولود بیٹی، جس کی عمر چھ سے سات دن ہو گی، کا علاج کرانے کی مالی استطاعت نہ ہونے کے باعث اپنے گاؤں کے قریب ایک قبرستان میں قبر کھود کر اسے زندہ دفن کر دیا ہے۔‘

مقدمہ کے مدعی کے مطابق یہ اطلاع ملنے کے بعد دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ وہ گاؤں لونگ راجپر پہنچے اور طیب عرف مچھر کو حراست میں لیا۔

پولیس کا دعوی ہے کہ گرفتار ہوتے ہی طیب نے خود ہی اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے غلطی ہوئی ہے۔‘

پولیس کے مطابق ملزم نے بتایا کہ 20-25 روز قبل اس کی بیٹی پیدا ہوئی تھی جو پیدائش کے وقت سے ہی بیمار تھی۔

ملزم کا کہنا تھا کہ ’غربت کی وجہ سے وہ بیٹی کا علاج نہیں کروا سکا‘ اور ’اس کو گھر سے ایک بوری میں ڈال کرقبرستان لے گیا جہاں گڑھا کھود کر بچی کو کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا۔‘

ایف آئی آر میں مدعی اے ایس آئی غلام حسین نے دعویٰ کیا کہ ملزم کو وہ اپنے ساتھ اس مقام پر لے گئے جہاں بچی کو دفن کیا تھا اور خود ملزم نے ہی اس جگہ کی نشان دہی کی تھی۔

کینیا میں مذہبی فرقے کے پیروکاروں کی اجتماعی خود کشی: ’انھوں نے زندہ بچوں کو بھی دفنا دیا‘انڈیا کا غریب ترین گاؤں جہاں نمک، ہلدی اور برتن خریدنا بھی لوگوں کے لیے ایک خواب ہے’طیب نے کہا بچی فوت ہو گئی ہے‘

ملزم کے ایک سگے بھائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعوی دہرایا کہ ’طیب کی نومولود بچی صحت مند نہیں ہو رہی تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے جتنا خرچہ نہیں تھا۔‘

تاہم اُن کا کہنا ہے کہ طیب کے بھائیوں کو ’یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے جا رہا ہے۔‘

مقامی صحافی دین محمد، جو اس گاؤں کا خود دورہ کر چکے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم طیب اور اس کے بھائی غربت سے بھی نچلی لکیر کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ملزم کی بھابھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طیب نے اپنے رشتے داروں اور گاؤں والوں کو بتایا تھا کہ بچی فوت ہو گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل بچی کو اس کی والدہ دو بار ہسپتال بھی لیکر گئی تھیں لیکن وہ ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔‘

ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بچی کو کس ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

ضلع کے ڈی ایچ او ہیلتھ غلام قادر چانڈیو نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بنیادی صحت مرکز اس گاؤں کے قریب ہی موجود ہے لیکن ان کی اطلاعات کے مطابق بچی کو علاج کے لیے اس مرکز نہیں لایا گیا تھا۔

ادھر ٹھارو شاہ کے ایس ایچ او ابراہیم سومرو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں ایس ایس پی نے خود سوشل میڈیا پر خبریں سامنے آنے کے بعد تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد انھوں نے مشتبہ ملزم کو گرفتار کیا۔

سومرو کے مطابق ابتدائی بیان میں ’پولیس کو ملزم نے بتایا تھا کہ بچی کو کفن میں دفنایا تھا تاہم اس کی لاش کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی۔‘

ویمپائرز: جب لوگوں کو اس طرح دفن کیا گیا کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ نہ ہوسکیںآسٹریلیا: دو سال قبل جب انڈین نوجوان نے ’انکار پر لڑکی کو زندہ دفن‘ کر دیا انڈیا کا غریب ترین گاؤں جہاں نمک، ہلدی اور برتن خریدنا بھی لوگوں کے لیے ایک خواب ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More