اپنی جان خطرے میں ڈال کر تیندوے کی جان بچانے والے رضاکار: ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 09, 2024

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے علاقے پنجکوٹ چیڑ بن کے جنگلات میں تین سو فٹ بلند درخت کی چوٹی پر پھنسے تیندوا کو کم از کم 48 گھنٹوں بعد آپریشن کے ذریعے ریسیکو کر لیا گیا ہے۔

مگر تیندوے کے درخت پر پھنسے ہونے کی نشاندہی کیسے ہوئی اور یہ ریسکیو آپریشن کیسے عمل میں آیا؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پنجکوٹ چیڑ بن کے رہائشی محمد نسیم،جنگل میں کسی کام سے گئے تو وہاں پر انھیں ایک خوفناک مگر درد بھری آواز سنائی دی۔ وہ یہ آواز سن کر خوفزدہ ہوئے کیونکہ ان جنگلات میں تیندوے ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میں سمجھا کہ میرے قریب ہی کہیں تیندوا موجود ہے اور میں اپنی جان بچانےکے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘

محمد نسیم نے بتایا کہ انھوں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو انھیں کچھ پتا نہیں چلا۔ ’چند سیکنڈ بعد میں جلدی سے وہاں سے نکلا اور کچھ دور چلنے کے بعد آبادی تک پہنچا۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو میں نے سارا واقعہ بتایا تو لوگوں نے کہا کہ کچھ اور لوگ جو جنگل میں لکڑیاں چننے جاتے ہیں انھوں نے بھی یہ آوازیں سنی ہیں۔‘

محمد نسیم بتاتے ہیں کہ ’اس کے اگلے روز بستی کے کچھ نوجوان بچے اس مقام پر گئے اور انھوں نے درخت کی چوٹی پر ایک تیندوے کو پھنسے دیکھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہاں موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہمیں محمکہ جنگلی حیات کو آگاہ کرنا چاہیے۔‘

محمد نسیم نے بتایا کہ وہ ایک سال کی مادہ تیندوا تھی۔ ’ہمارا خیال ہے کہ وہ کم از کم دو دن سے وہاں بھوکی پیاسی پھنسی ہوئی تھی۔ جب وہ لوگوں کو دیکھتی تو بہت شور شروع کر دیتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے اطلاع دینے پر محکمہ وائلڈ لائف والے موقع پر پہنچے اور محکمے کے محمد نعمان اعوان نامی ایک چوکیدار نے درخت پر چڑھ کر تیندوے کو ریسکیو کرنے میں مدد فراہم کی ۔

اس آپریشن میں محکمہ وائلڈ لائف کے ایک چوکیدار محمد نعمان اعوان درخت کی چوٹی پر چڑھے اور رسی باندھ کر درخت کے اس حصے کو گرایا گیا جہاں پر تیندوا پھنسا ہوا تھا۔

تین سو فٹ بلندی اور ہزار فٹ گہری کھائی

محمد نعمان اعوان جو مقامی رہائشی اور علاقے کے ایک چڑیا گھر میں بطور چوکیدار فرائض انجام دے رہے ہیں نے بتایا کہ ’جب ہمارے محکمے تک اطلاع پہنچی کہ تیندوا درخت پر پھنسا ہوا ہے تو ایک ریسیکو ٹیم بنائی گی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب موقع پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہ تو بہت خطرناک جگہ ہے کیونکہ درخت تقریباً تین سو فٹ اونچا تھا اور جہاں درخت تھا وہاں نیچے کم از کم ایک ہزار فٹ گہری کھائی تھی۔ اگر کوئی اس درخت سے نیچے گر جاتا تو سیدھا گہری کھائی میں جاتا جہاں سے اس کی لاش نکالنا بھی ممکن نہیں تھا۔‘

محمد نعمان اعوان کا کہنا تھا کہ ’تیندوے کو مدد فراہم کرنے کا ایک ہی طریقہ نظر آرہا تھا کہ درخت کی چوٹی کا کچھ حصہ گرایا جائے اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی اوپر جا کر رسہ باندھ دے اور پھر نیچے سے سب مل کر اس کو آرام سے گرائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر تو تیندوا پھنسا ہوا تھا مگر جب یہ بات سامنے آئی کہ اس کے نزدیک جا کر رسا باندھنا ہے تو ڈر لگا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے۔ اس وقت تک ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس کی دم بھی پھنسی ہوئی ہے۔‘

’سب نے اوپر جانے سے منع کیا مگر تیندوا بھوکا پیاسا تھا‘

محمد ادریس نعمان بتاتے ہیں کہ ’جب درخت پر چڑھنے کی بات آئی تو کوئی تیار نہیں ہو رہا تھا اس لیے میں نے اپنا نام رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ درخت پر چڑھ کر تیندوے کو بچانے کے آپریشن کے لیے افسران کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا کہ حفاظتی اقدامات کیے جس میں انھیں رسی سے باندھا گیا تھا تاکہ اگر کچھ ہو تو انھیں مدد مل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس سے پہلے کبھی درخت پر نہیں چڑھا تھا اور اتنے بلند درخت پر تو چڑھنے کا سوچا بھی نہیں تھا مگر پھر بھی تیار ہو گیا تھا کہ تیندوا بھی جاندار ہے اس کی جان بچانا بھی ضروری ہے۔‘

محمد ادریس نعمان کہتے ہیں ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے لگا ہے۔ یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اس کی جان بچانے کے لیے جو کر سکتا ہوں کروں۔‘

محمد ادریس نعمان کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا کیونکہ اگر انھیں بتاتا تو وہ مجھے کبھی بھی اوپر نہیں جانے دیتے۔ مجھے اس موقع پر لوگوں نے منع بھی کیا کہ میں فیلڈ ورکر تو نہیں ہوں اگر میں یہ کام نہ بھی کروں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سب کہہ رہے تھے کہ اگر تم تیندوے کے نزدیک گئے تو وہ حملہ کر دے گا۔‘

محمد ادریس کہتے ہیں ’میں نے کہا یہ تیندوا بھوکا پیاسا ہے۔ اگر اس کو مدد نہ ملی تو یہ اسی طرح بھوکا پیاسا مر جائے گا اور مجھے اس کی مدد کرنا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پتا نہیں کہاں سے اتنی ہمت اور طاقت آگئی تھی میں تھوڑی دیر میں اس سےپانچ چھ فٹ کے فاصلے پر پہنچ گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مجھے دیکھ کر وہ خوفناکآوازیں نکال رہا تھا۔ مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اپنے جبڑے کھول رہا تھا مگر وہ پھنسا ہوا تھا اور آزاد نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ پورا زور لگا رہا تھا۔ اتنی دیر میں، میں نے رسہ باندھا اور تیزی سے نیچے اتر آیا تھا۔‘

محمد ادریس نعمان اعوان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ رسا کھینچا گیااور اس وقت کوشش کی گئی کہ تیندوا محفوظ رہے اور اسے چوٹ نہ لگے۔‘

’شکر ہے کہ ایسے ہی ہوا اور وہ جب درخت کے ساتھ نیچے گرا تو اسے کوئی چوٹ نہیں لگی بلکہ وہ درخت پر اسی طرح پھنسا ہوا تھا۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کی مانیٹرنگ آفیسر شائستہ علی کے مطابق ایک سال کی مادہ تیندوے کو کوئی چوٹ نہیں لگی مگر اس کی پھنسی ہوئی دم زخمی ہے اور علاج معالجے کے لیے اسےاسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کیا گیا ہے۔

صحت یاب ہونے کے بعد اسےقدرتی آمجگاہ میں چھوڑا جائے گا تاکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مل سکے۔

تیندوے سے جڑے تنازعات

شائستہ علی کہتی ہیں کہ ’اس وقت کشمیر وائلڈ لائف مقامی لوگوں میں جنگلی حیات کے حوالے سے شعور پیدا کر رہا ہے جس کے اچھے اثرات نظر آرہے ہیں۔ پھنسے ہوئے تیندوا کے بارے میں بھی مقامی لوگوں نے اطلاع دی اور پھر تعاون بھی کیا تھا جس وجہ سے ہمیں کامیابی ملی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر میں تیندوا کی تعداد معلوم کرنے کا کوئی سروے تو نہیں ہوا کہ جس سے بتایا جاسکے کہ کتنے تیندوے کشمیر کے جنگلات میں موجود ہوں گے مگر ہمارے مشاہدے کے مطابق تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’انسانوں اور تیندوے کے درمیان تنازعات بھی ہوئے ہیں جن میں جب تیندوا شکار کی تلاش میں نیچے کے علاقوں میں آکر انسانوں کے مال مویشی پر حملہ کرتا ہے تو اس وقت وہ انسان کے غصے کا شکار بنتا ہے اور مارا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس سال میں ایسے تین واقعات رونما ہوئے ہیں۔

شائستہ علی کہتی ہیں کہ ’ہم کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی طرحجنگلی حیات کے نقصانات پر یہاں بھی معاوضہ دینے کی پالیسی اور پراجیکٹ متعارف کروایا جائے تاکہ لوگوں کا تیندوا اور جنگلی حیات پر غصہ کم ہوسکے۔‘

محمد ادریس نعمان اعوان کہتے ہیں کہ اس کارنامے پر مجھے میرے محکمے اور علاقے کے لوگوں نے شاباش دی ہے اور میری بہادری کو سراہا ہے۔ مجھے علاقے کے سیاسی و سماجی رہنما نے نقد دس ہزار روپے انعام بھی دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ’اگر حکومت محکمہ وائلڈ لائف کو بہتر سہولتیں اور کارکناں کو حفاظتی کٹ وغیرہ فراہم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ہمارا محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ کا کام بہت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے۔‘

’زخمی تیندوے کے عوض لاکھوں آفر ہوئے مگر والدہ اور بہن نے منع کر دیا‘سوزوکی کی فیکٹری بند کرانے والا تیندوا پکڑا گیابرفانی تیندوا معدومی کے خطرے سے باہر؟شیرنی نے تیندوے کے بچے کو گود لے لیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More