Getty Images
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں سات فیصد سے زیادہ اور خیبر پختونخوا میں 15 فیصد لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے حال ہی میں تمباکو پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی ہے اور ٹوبیکو سیس میں 400 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے جس کے بعد تمباکو سے بنی تمام اشیا بشمول نسوار کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ سیس بھی ایک طرح کا ٹیکس کا ہوتا ہے جو کہ ٹوبیکو مینوفیکچرنگ کمپنی اور ایکسپورٹرز پر عائد کیا جاتا ہے نہ کہ کاشت کاروں پر۔ سیس سے آنے والی آمدن ان علاقوں پر خرچ کی جاتی ہے جہاں تمباکو کاشت کیا جا رہا ہوتا ہے۔
اس اضافے کے بعد جہاں ایک طرف تمباکو کے استعمال میں کمی ہونے کے امید جاگی ہے تو دوسری طرف اس کے عادی افراد کے لیے یہ ایک پریشانی بھی ہے۔
نسوار استعمال کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے مقابلے میں نسوار ایک سستا نشہ ہے لیکن اب نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد یہ بھی انھیں مہنگا پڑ رہا ہے۔
نسوار کے خریداروں میں کمی؟
پشاور کے گنجان آباد علاقے چرگانو چوک پر حاجی مجاہد اقبال اور ان کے بیٹے ایک چھوٹی سے دوکان پر نسوار کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا نسوار بنانے کا اپنا کارخانہ ہے اور وہ گذشتہ 50 برسوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
حاجی مجاہد کی دُکان پر نسوار خرینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ شیشے کے ایک ڈبے میں نسوار کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں موجود تھیں جبکہ نیچے شو کیس میں نسوار کی کلو اور آدھا کلو کی تھیلیاں رکھی ہوئی تھیں۔
حاجی مجاہد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’نئے ٹیکس کا نفاذ ہم پر کیا گیا ہے لیکن ہم یہ اضافی ٹیکس عوام سے لے رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پہلے انھیں تمباکو کا 60 کلو کا تھیلا 36 سو روپے میں مل جاتا تھا مگر اب اس کی نئی قیمت پانچ ہزارہو گئی ہے، جس کے سبب ہم نے نسوار کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
’کچھ عرصہ پہلے تک نسوار کی ایک پڑیا 10 روپے میں مل جاتی تھی، پھر اس کی قیمت بڑھ کر 20 روپے ہوئی اور اب یہ قیمت 30 روپے ہو گئی ہے۔‘
حاجی مجاہد اقبال کہتے ہیں کہ تمباکو پر لگنے والے ٹیکس کے سبب ان کے کاروبار میں مندی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
’اگر ہماری روزانہ کی فروخت پہلے دو لاکھ روپے کی ہوتی تھی تو اب ایک لاکھ 70 ہزار یا ایک لاکھ 80 ہزار روپے کی رہ گئی ہے، کیونکہ لوگوں نے یا تو نسوار کا استعمال چھوڑ دیا ہے یا پھر کم کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نسوار کے لیے تمباکو راکھ اور پانی استعمال کیا جاتا ہے تاہم کچھ لوگ دیگر اشیا جیسے کہ چونا بھی ڈالتے ہیں جس سے نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔
’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟فراڈ میں استعمال ہونے والی ’شیطان کی سانس‘ نامی دوا جس سے کسی بھی شخص کے ’دماغ کو قابو‘ کیا جا سکتا ہے
حاجی مجاہد نے بتایا کہ لوگ اب 30 روپے کی نسوار نہیں خرید پا رہے کیونکہ روزانہ اگر ایک پڑیا خریدی جائے تو مہینے کے 900 روپے بنتے ہیں۔
حاجی مجاہد وہ واحد نسوار فروش نہیں جو کہ تمباکو کی قیمت میں اضافے سے پریشان ہیں۔
محمد آصف بنوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ نورنگ نامی علاقے سے نسوار لاتے تھے کیونکہ وہاں کی نسوار کو یہاں پسند کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تمباکو پر لگنے والے نئے ٹیکس کے سبب ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ محمد آصف نے مزید کہا کہ 45 گرام کی نسوار کی پڑیا کی قیمت اب 30 روپے ہو گئی ہے۔
کیا واقعی نسوار سے غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے؟
نسوار کی دکان پر موجود خریداروں سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں نسوار استعمال کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اب وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔
سعید خان نامی مزدور نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جب نسوار سستی تھی تو وہ ایک دن میں پانچ پڑیاں استعمال کرتے تھے لیکن اب دن میں ایک ہی لیتے ہیں اور ’وہ بھی تھوڑی تھوڑی استعمال کرتا ہوں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ نسوار کے استعمال سے کیا حاصل ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ: ’میں جب غصے میں ہوتا ہوں تو منہ میں نسوار رکھ لیتا ہوں جس سے میرا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔‘
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ نسوار کے استعمال سے غصہ ٹھنڈا ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل نسوار ایک نشہ ہے اور اس کے استعمال سے اس کے عادی شخص کو تسکین ملتی ہے۔
تمباکو پر لگنے والے نئے ٹیکس کے سبب نسوار کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو اس نشے کو ترک کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
محمد عمر کہتے ہیں وہ اب روزانہ نسوار کی ایک ہی پڑیا خریدتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کم استعمال کریں تاکہ ایک پڑیا دو دن چل سکے۔
’مجھے اب تک نسوار سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن مہنگائی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔‘
اس نشے کے عادی ایک اور شخص خان محمد کہتے ہیں کہ ’میں تو نسوار چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن بہت ایسا کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔‘
’جب نسوار نہیں رکھتا یا چھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں تو ذہن پر دباؤ محسوس ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کچھ کھو گیا ہے اور پھر نسوار منہ میں رکھ لینے سے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔‘
Getty Imagesحاجی مجاہد وہ واحد نسوار فروش نہیں جو تمباکو کی قیمت میں اضافے سے پریشان ہیںحکومتی اقدامات
خیبر پختونخوا حکومت نے رواں سال بجٹ میں متعدد اشیا پر ٹیکس عائد کیے ہیں اور اس میں تمباکو بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق اس سے صوبائی حکومت کے ریوینیو میں اضافہ ہوگا۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے تمباکو پر عائد سیس میں 400 فیصد اضافہ کیا ہے۔
’اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو ٹوبیکو سیس میں کافی عرصے سے اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ وفاقی حکومت تمباکو پر ٹیکس بڑھا رہی تھی اور صوبے کو اس سے کوئی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہو رہی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان ٹیکسوں کے نفاذ سے صوبائی حکومت کی آمدن میں چار سو سے پانچ سو فیصد اضافے کی توقع ہے اور اس سے آمدنی میں ڈھائی سے تین ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔
حکومت کی جانب سے تین قسم کے تمباکو پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے: ورجینیا تمباکو، سٹیپ لیف اور نسوار کے لیے استمعال ہونے والا تمباکو۔
مزمل اسلم کے مطابق نسوار میں استعمال ہونے والے تمباکو پر پہلے ڈھائی فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا جسے اب بڑھا کر سات فیصد کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے نسوار کی قیمت میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ نسوار کا استعمال کم کر دیں گے کیونکہ یہ ایک مضر صحت عادت ہے۔
صوبائی حکومت کے مشیر مزید کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ تمباکو پر ایکسائز ڈیوٹی بھی عائد کی گئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی صحت کے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔
نسوار کے استعمال سے بیماروں کا خدشہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2014 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کوئی 1 کروڑ 80 لاکھ لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں۔
لیکن 2014 کے بعد سرکاری سطح پر اس طرح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ سروے تین سے پانچ سال کے وقفے کے بعد دوبارہ ہونا چاہیے۔
خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیاض نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ کچھ عرصے میں جو غیر سرکاری سطح پر سروے کیے گئے ہیں ان کے کے مطابق پاکستان میں سات اعشاریہ دو فیصد لوگ نسوار استعمال کرتے ہیں، جبکہ ان میں سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے لوگوں کی بتائی جاتی ہے جو کہ 15 فیصد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نسوار کے استعمال سے مختلف قسم کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس سے منہ کے اندر تیزابیت کا اثر بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر فیاض کے مطابق نسوار کا استعمال کینسر کے علاوہ دیگر بیماریوں جیسے معدے اور دل کی بیماریوں کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ نسوار کے استعمال سے مسوڑھوں اور دانتوں کی بیماریاں ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
نسوار کی تیاری اور فروختگٹکے کے خلاف قانونی جنگ لڑنے والی صنوبر زندگی کی جنگ ہار گئیںافغانستان کو پیچھے چھوڑ کر میانمار افیون کی پیداوار میں ’نمبر ون‘ کیسے بنا؟مشرق وسطیٰ کو دیمک کی طرح چاٹنے والی منشیات جس کے تانے بانے بشار الاسد اورشام کی فوج سے ملتے ہیں