دیامیر میں ’شدت پسند کمانڈر‘ کی ہلاکت: گلگت بلتستان میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کی ضرورت کیوں پڑی؟

بی بی سی اردو  |  Jul 06, 2024

Getty Images

پاکستان کے زیرِ انتظام خطے گلگت بلستان میں سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران ایک مبینہ شدت پسند کمانڈر کی ہلاکت ہوئی ہے۔ مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے میں بڑے منصوبوں کے تحفظ کے لیے شدت پسندوں کے خلاف ’انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں‘ جاری رہیں گی۔

خیال رہے 4 جولائی کو گلگت بلتستان سکاؤٹس اور پاکستانی فوج نے ایک انٹیلی جنس پر مبنی کارروائی کے دوران سانحہ ہڈور کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے دیامیر کے علاقے داریل میں چھاپہ مارا تھا جس میں ان کے طابق مطلوب ملزم کمانڈر شاہ فیصل کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جبکہ ایک اور ملزم زخمی ہوا تھا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ شدت پسند گذشتہ برس دسمبر کے دوران ایک مسافر بس پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے، جس میں کم از کم دس افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوئے تھے۔

یہ کارروائی ایک وقت میں سامنے آئی ہے جب کچھ روز قبل پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ’آپریشن عزمِ استحکام‘ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس آپریشن کے تحت ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ سانحہ ہڈور میں ملوث دیگر ملزمان کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نہ صرف سانحہ ہڈور بلکہ اس کے علاوہ بھی جن شدت پسندوں اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج ہیں۔ ان کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ اس کا مقصد ضلع دیامیر اور شاہراہ قراقرم پر دیامیر بھاشا ڈیم اور دیگر بڑے منصوبوں کو محفوظ بنانا ہے۔‘

پاکستان کو زمینی طور پر چین سے جوڑنے والی شاہراہ قراقرم دیامیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم زیرِ تعمیر ہیں جن پر چینی کمپنیاں کام کر رہے ہیں۔

رواں برس مارچ میں خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں شدت پسندوں کے ایک حملے میں پانچ چینی انجینیئرز اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔ حملے میں ہلاک ہونے والے افراد داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ جولائی 2021 میں بھی اس علاقے میں ایک دھماکے میں نو چینی اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Getty Imagesرواں برس مارچ میں ضلع شانگلہ میں ایک خودکش حملے میں پانچ چینی انجینیئرہلاک ہوئے تھےسانحہ ہڈور میں ملوث ملزمان کون ہیں؟

پاکستانی فوج اور گلگت بلتستان سکاؤٹس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ’مطلوب کمانڈر‘ کا تعلق شدت پسند تنظیم ’مجاہدین گلگت بلتستان و چترال‘ سے بتایا گیا ہے۔

ماضی میں بھی گلگت بلتستان اور خصوصاً شاہراہ قراقرم پر رونما ہونے والی متعدد دہشتگردی کی کارروائیوں میں بھی اسی تنظیم کا نام منظرِ عام پر آتا رہا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اس تنظیم سے منسلک شدت پسند نانگا پربت میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کے قتل، مسافر بسوں پر حملے اور لڑکیوں کے سکولوں کو آگ لگانے سمیت دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے وزیرِ داخلہ شمس لون نے ضلع دیامیر میں کی جانے والی کارروائی کے حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس کارروائی کے دوران تین سکیورٹی اہلکار، ایک سویلین اور کم عمر بچی بھی زخمی ہوئی ہے۔

BBC

ان کے مطابق اس کارروائی کے دوران زاہد نامی ایک کمانڈر بھی زخمی حالت میں گرفتار ہوا ہے۔ سانحہ ہڈور میں ملوث ہونے کے الزام میں ماضی میں سات ملزمان کو اشتہاری اور مفرور قرار دیا گیا تھا۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کہتے ہیں کہ سانحہ ہڈور میں ملوث ہونے کے الزام میں پہلے ہی تین سہولت کار سکیورٹی اداروں نے گرفتار کیے تھے اور ان کی نشاندہی پر مزید سات افراد کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔

سانحہ ہڈور کے خلاف دیامیر کے عوام نے احتجاج بھی کیا تھا، جس پر حکومت نے ملزمان کی گرفتاری کا وعدہ کیا تھا۔

ضلع دیامیر میں جمعیت علما اسلام (ف) کے جنرل سیکریٹری بشیر احمد قریشی کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے کمانڈر شاہ فیصل کا نام اکثر اوقات سننے میں آتا رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کبھی منظرِ عام پر آجاتا تھا اور کبھی غائب ہوجاتا تھا۔ داریل ان کا آبائی علاقہ ہے۔‘

سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی کارروائی پر علاقے کی کچھ مذہبی شخصیات نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

ضلع دیامیر کی مقامی تنظیم تحریکِ تحفظ صحابہ و اہلبیت کے امیر مولانا محمد شریف کا کہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں کی کارروائی کے بعد علاقے میں علما کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

چینی معیشت اور پانچ سوال: پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چین کی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟

مولانا محمد شریف کا کہنا تھا کہ ’حکومت ایک طرف ماہ محرم میںعلماء سے امن و امان بحال رکھنے کی اپیل کررہی ہے اور دوسری طرف ایسی کاروائیاں کررہی ہے جس سے علاقے میں غم وغصہ اور اشتعال پیدا ہورہا ہے۔ اس کاروائی کے لیئے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر شاہ فیصل کسی مقدمے میں مطلوب تھا تو اس کو زندہ پکڑتے اور اگر بھاگ رہا تھا تو اس کو پھر بھی زندہپکڑا جاسکتا تھا۔ اس طرح اس گھروں کو جلانا اور یہ حالات پیدا کرناکسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘

تاہم گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی گرفتاری کے لیے حکومت اور سیکورٹی اداروں نے بار بار دیامیر جرگہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے رجوع کیا تھا مگر کسی طرف سے بھی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔

فیض اللہ فراق کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بعد اب دیامیر، شاہراہ قراقرم اور بابو سر ٹاپ پر حالات معمول کے مطابق ہیں، تاہم علاقے میں سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔

کیا شاہراہ قراقرم سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن چین کے دباؤ پر ہو رہا ہے؟

رواں برس مارچ میں شدت پسندوں کے حملے میں پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے بعد چین کی حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان چینی شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے مطابق گذشتہ مہینے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران صدر شی جن پنگ نے امید ظاہر کی تھی کہ ’پاکستان ایک محفوظ اور استحکام پر مبںی سازگار کاروباری ماحول بنانے کی کوششیں جاری رکھے گا اور چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی مؤثر طریقے سے حفاظت کرے گا۔‘

خطے کی سکیورٹی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے سابق سیکریٹری داخلہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اختر علی شاہ کا ماننا ہے کہ حالیہ آپریشن بین الاقوامی دباؤ پر کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر چین کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اداروں کی حالیہ کارروائیوں کا مقصد سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے حالات کو بہتر بنانا ہے۔

انھوں نے ’آپریشن عزمِ استحکام‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپریشن ماضی میں کیے گئے آپریشنز بالخصوص پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد کیے گئے آپریشن سے مختلف ہے۔‘

Getty Imagesرواں برس مارچ میں شدت پسندوں کے حملے میں پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے بعد چین کی حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے

’اس میں کسی بھی جگہ اور مقام پر لوگوں سے علاقے نہیں خالی کروائے جائیں گے بلکہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جائیں گی۔‘

خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی نے مزید کہا کہ ’اس وقت امریکہ کا اس خطے میں زیادہ مفاد نہیں ہے، مگر چین کا مفاد پاکستان سے وابستہ ہے اور پاکستان کا مفاد بھی چین اور اس کے منصوبوں سے وابستہ ہے۔‘

’اگر پاکستان میں چین کے لیے حالات اچھے نہیں ہوں گے، پاکستان میں امن نہیں ہوگا تو یہ منصوبے آگے نہیں بڑھیں گے اور پاکستان میں معاشی بہتری پیدا نہیں آئے گی۔‘

ان کے مطابق دیامیر میں شدت پسند تنظیموں کی موجودگی میں چین کسی بھی صورت میں شاہراہ قراقرم کے اطراف میں موجود منصوبوں پر کام جاری رکھنے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور اسی لیے اس علاقے میں سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد بیجنگ پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟شانگلہ حملے کے بعد چین کی تحقیقاتی ٹیم کی اسلام آباد آمد: پاکستان سے ’سکیورٹی خطرات کے مکمل خاتمے‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہچینی وزیرِاعظم کا وہ دورہ جو پاک چین دوستی کا پیش خیمہ بنا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More