خوراک کی منتقلی سے بادشاہوں کی پابندیوں تک: ہونٹوں کے بوسے کی تاریخ کیا بتاتی ہے

بی بی سی اردو  |  Jul 06, 2024

Getty Images

رومانوی فلموں نے یقیناً اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن کیا واقعی وہ پہلا بوسہ یہ بتا سکتا ہے کہ آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی مل گیا ہے؟

ہم اس عمل کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن بوسہ دینا اتنا خاص کیوں ہے؟

ایک تصور یہ ہے کہ جب ہم بہت چھوٹے بچے ہوتے ہیں تو اسی وقت سے ہونٹوں کو چھونے کا عمل پسندیدہ ہو جاتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے کے بعد بچہ اپنے ہونٹ کو مثبت رویوں سے جوڑ لیتا ہے۔

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ انسان خصوصی طور پر ہونٹوں کے بوسہ سے اس لیے رغبت رکھتا ہے کیوں کہ ارتقائی ماضی میں مائیں خوراک کو پہلے اپنے ہونٹوں سے چباتی تھیں اور اس کے بعد بچوں کے منھ میں ڈالتی تھیں جسے ’پری ماسٹیکیشن فوڈ ٹرانسفر‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یہ رویہ بندروں میں اب بھی موجود ہے۔ خوراک کی منتقلی کا یہ عمل جانوروں کی دنیا میں کافی عام ہے۔

Getty Images

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہونٹ بہت حساس ہوتے ہیں۔ یہ انسانی جسم کے ان حصوں میں شامل ہیں جنھیں کپڑوں کی مدد سے ڈھانپا نہیں جاتا۔

پروفیسر ولیئم جانکوویاک کا کہنا ہے کہ ’ہم جتنے زیادہ کپڑے پہنتے ہیں، بوسے کی شرح اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔‘

دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جتنے کم کپڑے پہنتے ہیں، یہ شرح اتنی ہی کم ہو جاتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم کے شکار کرنے والوں میں ہمیں بوسے کی روایت نہیں ملتی اور یہ صرف آرکٹک زون کے انوئٹس میں موجود تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انوئٹس واحد شکار کرنے والا گروہ تھا جس میں بوسے کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ مشہور اوشیئنک بوسہ کہلاتا ہے جس میں وہ ایک دوسرے کی ناک کو رگڑتے تھے۔‘

Getty Images

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

پروفیسر ولیئم کے مطابق باقی جن جگہوں پر شکاری رہائش پذیر تھے، وہاں کپڑوں کا رواج نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جسم کے کسی بھی حصے سے لذت کا احساس حاصل کر سکتے تھے۔

’لیکن جب آپ زیادہ کپڑے پہن لیتے ہیں تو پھر آپ کے پاس حساس تجربے کے لیے انسانی چہرہ ہی رہ جاتا ہے۔‘

اور آخر میں ایک اور وجہ بھی بتائی جاتی ہے جو غالبا انسانی ارتقا سے منسلک ہے۔

اس نظریے کے مطابق جب انسان ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو سونگھ سکتے ہیں۔ تاہم ایک تجزیے کے مطابق انسانی آبادی کا نصف سے بھی کم حصہ ہونٹوں سے بوسہ لیتا ہے۔

ہم بوسہ کیوں دیتے ہیں، یہ روایت کہاں سے چلی؟ہم ایک دوسرے کو بوسہ کیوں دیتے ہیں؟Getty Imagesسنسکرت کی قدیم تحریوں میں بوسے کی پہلی روایت ملتی ہے

پروفیسر ولیم جانکویاک نے دنیا بھر میں 168 ثقافتوں کا جائزہ لیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق تقریبا 46 فیصد افراد رومانوی انداز میں ہونٹوں سے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہیں۔ اس تعداد میں والدین کا اپنی اولاد کا بوسہ لینا یا پھر جیسا کہ کئی معاشروں میں ہوتا ہے کہ ملاقات کے وقت ملنے والے بوسہ لیتے ہیں، شامل نہیں۔

پروفیسر ولیم جانکویاک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کی یہ ضرورت بوسہ لینے کے علاوہ بھی دیگر کئی طریقوں سے پوری ہو سکتی ہے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’دلچسپ چیز یہ ہے کہ معاشرتی پیچیدگیاں جتنی زیادہ بڑھتی ہیں، بوسہ لینے کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے۔‘

Getty Imagesیہ رواج کیسے شروع ہوا؟

ہمارے پاس تاریخ میں سب سے پہلے اس طرح کے رویے کا جو تحریری ثبوت ہے وہ ساڑھے تین ہزار سال پرانے ہندو ویدک سنسکرت سے ملتا ہے۔

’دی سائنس آف کسنگ‘ کی مصنف شرل کرشنبام کہتی ہیں کہ ’ویسے تو ایسی بہت سی ثقافتیں ہیں جن میں ہونٹوں سے بوسہ لینے کی مثال ملتی ہے لیکن ایک مالے بوسہ بھی ہے جس کے بارے میں ڈارون نے لکھا ہے کہ خواتین زمین پر لیٹ جاتیں اور مرد اوپر سے ان کو سونگھتے۔‘

’پھر ٹروبریانڈ جزائر جہاں میں نے سب سے حیران کن رواج دیکھا۔ وہاں تحقیق کے لیے جانا ہوا تو مجھے علم ہوا کہ رواج یہ ہے کہ محبت کرنے والے ایک دوسرے کی پلکیں نوچتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کو یہ ایک بہت غیر رومانوی سی حرکت لگے گی لیکن ان کے لیے یہ محبت دکھانے کا ایک طریقہ تھا۔‘

شرل کرشنبام کا کہنا ہے کہ طریقہ جو بھی ہو، اس کے پیچھے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنے کی نیت کارفرما ہوتی ہے تاکہ ہم ان کے قریب تر ہو سکیں۔

تاہم ہونٹوں سے لبوں کا بوسہ لینا انسانوں تک محدود ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بوسہ لینا ایک ارتقائی عمل ہے تو ہم جانوروں میں ایسا رواج کیوں نہیں دیکھتے؟

اس سوال کا جواب بی بی سی ارتھ کو 2015 میں ملیسا ہوگنبوم نے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ ایک وجہ یہ ہو کہ بو کی مدد سے بہت مددگار معلومات حاصل ہوتی ہیں جیسا کہ خوراک، بیماری، موڈ۔ لیکن جانوروں میں بو سونگھنے کے زیادہ بہتر طریقے موجود ہیں اور اسی لیے ان کو زیادہ قربت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

یہ سوال بھی ہے کہ یہ رواج ہر ثقافت میں کیوں نہیں پایا جاتا اور کیا یہ طریقہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا؟

شرل کرشنبام کہتی ہیں کہ دنیا میں مختلف ادوار اور مختلف مقامات میں بوسہ لینے کے رواج میں کمی بیشی آئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک بیماری ہے۔

’ایسے بادشاہ بھی تھے جنھوں نے اپنی رعایا پر پابندی لگا دی کہ وہ بوسہ نہیں دے سکتے کیوں کہ ان بادشاہوں کے خیال میں یہ ایک ایسا عمل تھا جس کا حق صرف ان کو ہی حاصل تھا۔‘

’تاہم پابندیوں، بیماریوں، اور وباؤں کے باوجود بوسہ لینے کا رواج انسانی تاریخ میں بار بار لوٹا۔‘

ہم ایک دوسرے کو بوسہ کیوں دیتے ہیں؟فرانسیسی ’آئی لوو یو‘ کہنے میں اتنے کنجوس کیوں ہیں؟’یہاں بوسہ لینا منع ہے‘: انڈیا میں ’نو کسنگ زون‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More