جب فریڈ سمتھ نے بین الاقوامی کمپنی فیڈ ایکس کو جوا کھیل کر دیوالیہ ہونے سے بچایا

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2024

Getty Images

'فیڈ ایکس' آج ایک ایسا نام بن چکا ہے جسے بیرون ملک اور کسی حد تک پاکستان میں بھی ہر شخص جانتا ہے۔

اور یہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ فیڈ ایکس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کمپنی روزانہ کے حساب سے 220 ممالک اور علاقوں میں ایک کروڑ 65 لاکھ پیکجز پہنچاتی ہے۔ کمپنی میں چھ لاکھ ملازمین، دو لاکھ دس ہزار ٹرکس، وینز اور 697 ہوائی جہاز ہیں۔

سنہ 2021 میں اس امریکی کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 84 ارب ڈالرز ہو گئی تھی جس کے بعد فیڈ ایکس عالمی سطح پر لاجسٹکس اور ڈیلیوری کے سیکٹر کی ٹاپ کمپنیوں میں سے ایک جانی جانے لگی۔

لیکن آج کی یہ ملٹی نیشنل کمپنی بہت سے نشیب و فراز سے گزری ہے حتیٰ کہ پانچ دہائیوں پہلے کمپنی کا دیوالیہ نکل چکا تھا اور اسے بند کرنے کی نوبت آ گئی تھی۔ لیکن پھر قسمت کے ایک کھیل نے اسے ڈوبنے سے بچا لیا۔

Getty Imagesڈیلیوری بزنس ایک انقلابی خیال

آج کے دور میں ایسی کمپنی جو ہوائی جہاز اور ٹرکوں وغیرہ کے ذریعے ڈاک اور چھوٹے پیکجز پہنچائے اورعام ڈاک سے کہیں زیادہ تیز سروس مہیہ کرے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن ساٹھ کی دہائی میں یہ اس آئیڈیا کو ممکن بنانے کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت تھی۔

فیڈ ایکس کمپنی بنانے کا تصور فریڈرک ڈبلیو سمتھ کے ذہن میں آیا تھا جو اس وقت ییل یونیورسٹی میں اقتصادیات کے طالب علم تھے۔ آج وہ امریکہ میں فریڈ سمتھ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سمتھ 1944 میں امریکہ کی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جس نے لوگوں کو بذریعہ سڑک لانے اور لے جانے کے بزنس سے بہت دولت کمائی۔

لیکن جب سمتھ نے اپنی کلاس میں اپنے بزنس آئیڈیا کو پیش کیا تو کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ان کے استاد نے ان کی پریزنٹیشن سننے کے بعد انھیں تنبیہ کی اور کہا کہ ’آئیڈیا کافی دلچسپ ہے اور آپ کی معلومات بھی اچھی ہیں لیکن ’سی‘ گریڈ سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے آئیڈیا قابل عمل بھی ہونا چاہیے۔‘

اگرچہ ماہرین تعلیم سے انھیں اچھا رسپانس نہیں ملا لیکن نوجوان سمتھ نے ہار نہیں مانی۔ ویتنام میں دو مشن مکمل کر کے سنہ 1971 میں انھوں نے وراثت میں ملے چالیس لاکھ ڈالر اور سرمایہ کاروں اور بینکوں سے قرض میں ملے آٹھ کروڑ ڈالرز اپنی کمپنی میں لگا دیے جس کا نام انھوں نے فیڈرل ایکسپریس کارپوریشن رکھا۔ آج کمپنی فیڈ ایکس کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جمع کی ہوئی رقم سے انھوں نے 14 چھوٹے ہوائی جہاز اور کئی ٹرک خریدے۔

اگرچہ کمپنی کے حرکت میں آنے کے بعد پہلے دن صرف 186 پیکجز پہنچانے کے آرڈر آئے، آہستہ آہستہ آرڈرز میں اضافہ ہونے لگا۔ کچھ سال پہلے سمتھ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کمپنی شروع ہونے کے کچھ ہی مہینوں میں پیکجز پہچانے کی سروس 25 امریکی شہروں میں شروع ہو گئی تھی۔

لیکن انٹرپنیور میگزین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1973 میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ کی وجہ سے حالات بدل گئے۔ جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا جس کے باٰث کمپنی کے اخراجات بڑھ گئے۔ سنہ 1974 کے وسط میں کمپنی کو ماہانہ تقریباً دس لاکھ ڈالرز کا خسارہ ہو رہا تھا۔

Getty Imagesزندگی پر شرط

قرضوں تلے دبے سمتھ نے سرمایہ کاروں سے کچھ اور رقم مانگی تاکہ کمپنی ڈوبنے سے بچ جائے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

فیڈ ایکس کمپنی اب دیوالیہ ہونے کے دہانے پر آ چکی تھی۔ اس کے اکاؤنٹس میں اب صرف پانچ ہزار ڈالر رہ گئے تھے۔ یہاں سمتھ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو قانونی حیثیت سے مشکوک تھا۔

انھوں نے اپنی کمپنی کے اکاؤنٹس سے وہ رقم نکلوائی اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ کٹا کے لاس ویگس چلے گئے اور وہاں انھوں نے معروف کسینوز میں جوا کھیل کر پورا ویک اینڈ گزار دیا۔

قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ جوا کھیل کر انھوں نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ اگلے ایک ہفتے تک ان کے ہوائی جہاز اڑتے رہیں۔ سمتھ یہ رقم لے کر میمفس چلے گئے جہاں کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

یک دم اتنا پیسا آ جانے پر کمپنی کے باقی مینیجرز کے کان کھڑے ہو گئے۔ ان میں راجر فراک بھی شامل تھے۔

فراک فیڈ ایکس کے آپریشنز ڈپارٹمنٹ کے پہلے وائس پریزیڈنٹ تھے۔ انھوں نے ناصرف اس بات کی تفتیش کی کہ پیسہ کہاں سے آیا بلکہ تفتیش میں ملنے والی غیر معمولی معلومات کو اپنی کتاب ’چینجنگ ہاؤ دی ورلڈ ڈز بزنس: فیڈ ایکس انکریڈبل جرنی ٹو سکسیس – دی انسائیڈ سٹوری‘ میں بھی شائع کیا۔

اپنی کتاب میں انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے سمتھ سے پوچھا کہ رقم کہاں سے آئی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’جنرل ڈائینمکس کے ساتھ ملاقات بہت مایوس کن تھی اور مجھے پتہ تھا کہ ہمیں پیر تک پیسے مل جانے چاہییں۔ میں نے ہوائی جہاز کا ٹکٹ کرایا اور لاس ویگس جا کر 27 ہزار ڈالر بنا لیے۔‘

فراک نے انھیں ڈانٹا اور کہا کہ سمتھ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ ’یہ ہماری کمپنی کے آخری پانچ ہزار ڈالر تھے۔ تم ایسے کیسے لے گئے؟‘ اس پر سمتھ نے چڑ کر جواب دیا۔ ’تو اس میں ایسا کیا ہو گیا؟ ہمارے پاس ویسے بھی اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم تیل خریدتے اور اپنے ہوائی جہاز اڑاتے۔‘

Getty Images

آنے والے سالوں میں سمتھ خود اپنے اس پرخطر فیصلے کے بارے میں بات کرتے رہے۔

سنہ 2008 میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کھل کر بات کی اور بتایا کہ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ میں نے اتنی رقم جیتی تھی کہ میں تنخواہیں دے سکوں گا لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ جوا کھیل کر جو رقم کمائی وہ ہم پر موجود قرضے کے سامنے ایک قطرے جتنی تھی۔‘ مگر اس وقت کے وسائل ’علامتی‘ تھے اور معاملات سنبھالنے کے لیے ان کو مہلت مل گئی۔

بعدازاں سمتھ نے اپنے بیٹے آرتھر کے کہنے پر ایک پوڈکاسٹ میں حصہ لیا اور پھر سے اس معاملے پر بات کی۔ انٹرویو میں انھوں نے واضح کر دیا کہ جوا کھیل کر کمپنی کا بچا کچا پیسہ داؤ پر لگانے کے فیصلے پر انھیں پورا بھروسہ تھا۔ انھیں نہیں لگتا کہ یہ کوئی نقصان رساں اقدام تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ویتنام میں ہم نے پوکر اور بلیک جیک بہت کھیلا تھا۔ اس وقت میں بہت اچھا بلیک جیک کا کھلاڑی تھا۔‘

کچھ دنوں بعد فیڈ ایکس کو سرمایہ کاروں نے مزید ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر دے دیے جس کی وجہ سے کمپنی کا کام زور و شور سے بحال ہو گیا اور سنہ 1976 میں منافع کمانا شروع کر دیا۔

Getty Imagesکیا فیڈ ایکس کی کہانی مثال دینے کے قابل ہے؟

فراک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فیڈ ایکس کی شروعات کافی کمزور تھیں۔ جوا کھیلنے کے علاوہ کمپنی کو چلانے کے لیے اور بھی متنازع طریقے اپنائے گئے تھے۔

مثلاً ملازمین اور سپلائرز کو جالی چیکس دے دیے جاتے تھے۔ پائلٹس سے کہا جاتا تھا کہ اپنے ذاتی کریڈٹ کارڈ سے ہوائی جہاز میں فیول ڈلوا لیں اور اس کے پیسے انھیں بعد میں دے دیے جائیں گے۔

ان ہیرا پھیریوں کے باوجود فیڈ ایکس ترقی کرتا رہا اور امریکہ کے بڑے فرمز میں سے ایک میں اس کا شمار ہونے لگا۔ سمتھ نے بزنس کی دنیا میں بہت عزت کمائی۔

لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ سمتھ کے نقشِ قدم پر نہیں چلنا چاہیے۔

اقتصادیات کے لیے معروف برطانوی لندن سکول آف اکنامکس کی محقق کیٹی بیسٹ نے کہا کہ فیڈ ایکس کی کہانی بہت اچھی ہے لیکن کاروبار کیسے چلانا ہے اس کے لیے فیڈ ایکس کی مثال اچھی نہیں۔

Getty Images

بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’فیڈ ایکس کمپنی کی شروعات کی کہانی بہت زبردست ہے کیونکہ اس میں مضیحکہ خیز اور کافی پُرخطر اقداماتلیے گئے تھے۔‘

’لیکن میں کسی کو یہ مشورہ نہیں دوں گی کہ ایسے فیصلے لیں جس میں قانونی حیثیت سے شک پیدا ہو جیسے کمپنی کے فنڈز سے بلیک جیک کھیلنا۔‘

وینزویلا سے تعلق رکھنے والے اقتصادیات کے ماہر اور کنسلٹنگ کمپنی اوئیکوس کے بانی ڈینیل کادیناس نے سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا کہ سمتھ کے اقدامات ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’غیر معقول‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’کاروباری شخصیات سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی اور ایک کمپنی کے مالک سے تو بالکل بھی نہیں۔ ان کا مرکزی مشن ہی یہی ہوتا ہے کہ کمپنی کے اثاثوں کی حفاظت کی جائے۔‘

معاشی ماہر نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ یہ بات اتنی پھیل چکی ہے۔ انھوں نے کہا ’کمپنی کے نام کو بہت خطرہ ہوتا ہے۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ آدمی کس منھ سے بینکوں اور سرمایہ کاروں کے پاس پیسے مانگنے گیا تھا؟‘

وینزویلا کے انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز آف ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر ملکو گونزالیز-لوپیز نے بھی کچھ ایسے ہی الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ ’لاس ویگس کے کیسینو ہارنے والوں کے پیسے سے بنے ہوئے ہیں۔ ان کیسینوز میں جیتنے کے لیے آپ کو بہت پیسے لگانے پڑتے ہیں اور اکثر اوقات آپ زیادہ رقم نہیں جیتتے۔‘

سروس شوز: جب تین دوستوں کو فوجی بوٹ بنانے کا آرڈر ملا18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانیایک ’بے گھر، نشے کا عادی‘ شخص کروڑ پتی کیسے بنا؟Getty Imagesقصے کہانیوں سے آگے

اگرچہ سمتھ کے اقدامات پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں تاہم دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ فیڈ ایکس کی کہانی سے بہت اہم سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔

برطانیہ کی کیمبریج یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات سنژو ہو نے تنبیہ کی کہ ’اصل مسئلہ جوا کھیلنے کا نہیں بلکہ ممکنہ نقصان کا ہے۔‘

بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’اگر ہم سمتھ کے فیصلے پر غور کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے بغیر کمپنی بند ہو جاتی اور اسے اپنے قیمتی اثاثے کم داموں میں بیچنے پڑتے۔ سپلائرز اور قرضہ دینے والوں کو کم ہی کچھ واپس ملتا کیونکہ دیوالیہ پن طویل اور مہنگا ہوتا ہے۔‘

بات کو مکمل کرتے ہوئے انھوں نے فوراً کہا ’خطرہ مول لینے سے سمتھ نے کمپنی کو ڈوبنے سے بچایا جس سے ہر کسی کو فائدہ ہوا۔ اگر اسے سختی سے صرف اقتصادیات کی نظر سے دیکھیں تو یہ اچھا فیصلہ تھا کیونکہ انھوں نے کوئی زیادہ بڑا جوا نہیں کھیلا اور جوا کھیل کر صرف اتنا ہی پیسا کمایا جس سے کمپنی چلتی رہے۔'

اپنے رائے کے دفاع میں انھوں نے کہا کہ آج بھی کئی کمپنیاں دیگر مالی معاہدے کر کے سٹاک مارکیٹ میں اپنی قدر بڑھا دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ عمل کیسینو میں جوا کھیلنے سے مختلف نہیں ہے۔‘

سمتھ فیڈ ایکس سے سنہ 2022 کے وسط میں سی ای او کی پوزیشن سے مستفعی ہو گئے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ شروعات میں ان کے کچھ اقدامات متنازع تھے۔

لیکن انھوں نے اس حوالے سے احساس ندامت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

فوربز میگزین میں شائع ہوئے اپنے آرٹیکل میں انھوں نے کہا کہ ’کوئی بزنس سکول یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جوا کھیلنا بھی ایک مالی منصوبہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کریئر کی شروعات میں اس طرح کی حرکتیں آگے بہت کام آتی ہیں۔'

سروس شوز: جب تین دوستوں کو فوجی بوٹ بنانے کا آرڈر ملا18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانی’فیشن انڈسٹری کی آلودگی دیکھ کر رونا آ گیا‘ایک ’بے گھر، نشے کا عادی‘ شخص کروڑ پتی کیسے بنا؟’فیشن انڈسٹری کی آلودگی دیکھ کر رونا آ گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More