’وہ ایک معجزہ تھا‘: ڈوبتی ہوئی آبدوز کے حادثاتی کپتان نے اپنے ساتھیوں کی جان کیسے بچائی؟

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2024

26 اگست 1988 کی صبح پیرو کی بری فوج کی آبدوز ’باپ پاکوچا‘ اپنی معمول کی مشقیں مکمل کرنے کے بعد واپس بحری اڈے (نیول بیس) ایل کالاؤ کی طرف روانی سے گامزن تھی۔

اس 94 میٹر لمبی آبدوز پر سوار عملے کے 49 ارکان میں سے کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اب ایک خوفناک تجربے کا سامنا کرنے والے ہیں۔

آبدوز میں موجود افسران میں نوجوان انجینیئر لیفٹیننٹ کوٹرینا الوارڈو بھی شامل تھے، جو اس بات سے بے خبر تھے کہ اس دن زندگی ان کا امتحان لے گی اور وہ دنیا کے سامنے ایک ہیرو بن کر ابھریں گے۔

کوٹرینا نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام آؤٹ لک میں اس یادگار واقعے کی یادیں تازہ کیں۔

کوٹرینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت شام کے چھ بجنے والے تھے اور آبدوز سکون سے سفر کر رہی تھی۔ میں نے رات کا کھانا ختم ہی کیا تھا جب ہمیں ایک ایسا زوردار جھٹکا لگا۔ وہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ میں اپنی نشست سے اچھلا اور میرا سر چھت سے جا ٹکرایا۔‘

ہمارے کانوں سے زوردار دھماکے کی آواز ٹکرائی۔

پاکوچا کا ریڈیو، بجلی اور ریڈار سمیت تمام نظام فیل ہونے لگا اور آبدوز کے تمام کمانڈنگ افسران مخمصے کا شکار ہو گئے۔

ان دنوں پیرو کی حکومت اور ماو نواز گوریلا باغیوں کے درمیان سخت کشیدگی جاری تھی اور کوٹرینا کو پہلا خیال یہی آیا کہ ان کی آبدوز پر حملہ یا کوئی تخریبی کارروائی ہوئی ہے۔

کوٹرینا واقعے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں کمانڈ روم میں پہنچا اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارا ان سے ٹاکرا ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا مگر کس سے؟‘

کوٹرینا پاکوچا کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے شوق میں اس آبدوز کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا جو پہلے امریکہ کی بحریہ کا حصہ تھی اور اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران میں بنایا گیا تھا۔

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’اس کے باوجود میرے پاس جواب نہیں تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ اور نہ ہی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا اب وقت تھا۔‘

BBCحادثے کی وجہ جاپانی ماہی گیروں کی کشتیبنی

آبدوز کے اگلے حصے میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور وہاں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

آبدوز کے عملے کے اراکین نے اپنے آپ کو دھوئیں سے محفوظ رکھنے کے لیے گیس ماسک پہن رکھے تھے اور افراتفری میں بھاگ رہے تھے۔

کسی کو حادثے کی نوعیت کا علم نہیں تھا اور نہ یہ معلوم تھا کہ اس سب کی وجہ ایک جاپانی ماہی گیروں کی کشتی ’کیووا مارو‘ تھیٹ جس میں آرکٹک (قطبین) کی برف کو توڑنے کے لیے نوکداراور مضبوط بیرونی ڈھانچہ لگایا گیا تھا۔

اس ٹکر سے پاکوچا کے انجن روم میں دو میٹر کا سوراخ ہو گیا تھا۔

آبدوز سے ٹکر کے بعد کیووا مارو نے چند میل کا سفر کیا اور اس کے کپتان نے اپنی کمپنی کو اس حادثے کی خبر بھی دے دی۔ لیکن ان کی جانب سے ایسی کوئی بھی اطلاع پیرو کی بحریہ کو نہیں دی گئی۔

اس کے سبب پیرو کی بحریہ کو یہ جاننے میں کئی گھنٹے لگ گئے کہ آبدوز پاکوچا شدید مشکل میں ہے۔

اس دوران آبدوز میں موجود کوٹرینا کو اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ ان کی آبدوز اب ڈوبنے لگی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آبدوز پیچھے کی طرف جھک رہی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی گھوڑے پر سوار ہوں جو چھلانگ لگانے سے پہلے اپنی پچھلی ٹانگیں موڑ لیتا ہے۔‘

وہ اپنے کپتان ڈینیئل نیوا کو آبدوز ڈوبنے کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کنٹرول روم کی طرف بھاگتے ہوئے پہنچے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ پانی پہلے ہی آبدوز کے اندرونی حصے میں بھر رہا ہے۔

تیز لہروں کے سبب آبدوز تیزی سے ہچکولے لے رہی تھی اور آبدوز کا اگلا حصہ وہ واحد جگہ تھی جہاں پانی داخل نہیں ہوا تھا۔

آبدوز کے عملے کے کچھ اراکین نے اپنی جانیں بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگادی لیکن ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔

زخمی ہونے کے باوجود وہ آبدوز کے ڈوبنے کے سبببننے والی لہروں کے اتار چڑھاؤ سے بچنے کے لیے پوری شدت سے اپنے ہاتھ پاؤں چلا رہے تھے۔

کوٹرینا بھی ایسا ہی کرنے والے تھے، لیکن کسی چیز نے ان کا ارادہ بدل دیا۔

کوٹرینا بتاتے ہیں کہ ’میں نے سوچا مجھے کیا کرنا چاہیے؟ مجھے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے، لیکن میں ایک افسر ہوں اور میری ذمہ داری ہے کہ میں ان لوگوں کو بچانے میں مدد کروں جو اندر پھنسے ہوئے ہیں۔ میں انھیں نہیں چھوڑ سکتا۔‘

’میں نے خدا سے دعا کی کہ اگر میں بہادری سے کام کروں تووہمیری جان بچائے۔ پھ میں نے آبدوز کے اندر واپس جانے کا فیصلہ کیا، یہ میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ثابت ہوا تھا۔‘

وہ دوبارہ آبدوز میں داخل ہوئے اور آخر کار کمانڈ روم تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے کپتان کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیےٹائٹن آبدوز کا ملبہ ہمیں اس حادثے کے بارے میں کیا بتا سکتا ہے؟ٹائٹن حادثہ: آبدوز ’پھٹنے‘ کی تحقیقات میں آگے کیا ہو گا؟ سمندر کی اتھاہ گہرائی اور آبدوز میں پھنسے دو افراد: ’تین دن بعد جب ہمیں ریسکیو کیا گیا تو صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی‘شہزادہ داؤد، سلیمان اور ’مسٹر ٹائٹینک‘: بدقسمت ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافر کون تھے؟کچھ فیصلہ کن حساب کتاب

کپتان نے انھیں حکم دیا کہ وہ آبدوز میں موجود تمام افراد کو باہر نکلنے کی ہدایات جاری کریں۔

اس وقت تک آبدوز عدم توازن کا شکار ہو چکی تھی اور اس کا سیدھا رہنا مشکل ہوگیا تھا۔

کوٹرینا اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’پھر چیزیں گرنے لگیں۔ ایک ٹائپ رائٹر، دھاتی اوزار، باورچی خانے میں برتن، سب کچھ گرنے اور ٹکرانے لگا۔ یہ ٹائی ٹینک پر سوار ہونے جیسا تھا۔‘

چیزوں کے گرنے کے دوران کوٹرینا نے چلاتے ہوئے اپنے کپتان کے حکمکو عملے تک پہنچایا۔ اس وقت واحد روشنی وہ سرخ الارم تھا جو وقفے وقفے سے روشن ہو رہا تھا۔

پانی کے داخلے کو کم سے کم کرنے اور ڈوبتی آبدوز میں انتہائی نایاب شے یعنی آکسیجن کے تحفظ کو یقینی بناننے کے لیے تمام ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے۔

کوٹرینا مزید کہتے ہیں کہ ’میں ٹارپیڈو روم میں واپس آرہا تھا اور عملے کے دیگر ارکان بھی میرے ساتھ شامل ہو رہے تھے۔ ہم اپنے راستے میں موجود تمام سوراخوں کو بند کر رہے تھے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنی لائف جیکٹس پہن لیں اور جہاز چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘

کوٹرینا نے مزید افراد کی آبدوز کے اندورونی حصے سے باہر کی طرف نکلنے میں مدد کی۔ اس دوران سمندری پانی پھر دروازے نما سوراخ سے اندر داخل ہونے لگا۔

’میں نے محسوس کیا کہ اب جان بچانا ناممکن ہو جائے گا۔‘

آبدوز سے نکلنے کی کوشش کرنے والا ایک الیکٹریشن اس دوران پھنس گیا، تاہم کوٹرینا نے اسے باہر دھکیل دیا اور پھر دروازہ بند کر دیا۔

اس وقت پانی کی ایک طاقتور لہر نے کوٹرینا کو نیچے پٹخ دیا جس کے سبب وہ وہاں کسی چیز سے ٹکرا گئے۔ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا آخری وقت قریب آ گیا ہو۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’سب کچھ تاریکی میں ڈوب گیا اور میں نے اپنی پوری زندگی کو اپنی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے دیکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ میری روح جسم کا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔‘

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’ایک لیفٹیننٹ نے آبدوز کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تھا اور اس نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس پورا یقین ہوگیا تھا کہ جو لوگ آبدوز میں رہ گئے ہیں وہ مارے جائیں گے۔‘

کوٹرینا کہتے ہیں کہ انھوں نے واپس اٹھنے کی کوشش کے دوران دیکھا کہ وہاں موجود دروازہ جہاں سے پانی داخل ہو رہا تھا اب وہ بند ہوچکا تھا۔

کوٹرینا کے مطابق ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک معجزہ تھا۔‘

آبدوز کوجاپانی ماہی گیری کی کشتی سے ٹکرائے بمشکل سات منٹ گزرے تھے۔ جب کوٹرینا کو ہوش آیا تو انھوں نے ٹھنڈے دماغ سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی۔

انھیں اس وقت اندازہ ہوا کہ اب وہ آبدوز پر موجود سب سے اعلیٰ ترین افسر ہیں اور وہاں موجود عملے کی زندگیاں بچانے کی ذمہ داری بھی ان ہی کے کندھوں پر ہے۔

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ شاید آبدوز کے کپتان وہاں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ وہ دروازے کے سوراخ کو بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سمندر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ڈوب گئے۔

کوٹرینا کپتان کی کوششوں کو قابل قدر اور بہادری کی مثال قرار دیتے ہیں جس کے سبب آبدوز میں مزید پانی داخل نہیں ہو سکا اور وہاں موجود عملے کو اپنی جانیں بچانے کا موقع مل گیا۔

ٹارپیڈو روم میں بیٹھ کر کوٹرینا حساب لگا رہے تھے کہ اس آبدوز میں موجود افراد کو اپنی جانیں بچانے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔

انھوں نے اپنے ماتحتوں سے پوچھا کہ وہ کتنی گہرائی میں ہیں؟ جس پر انھیں جواب ملا 42 میٹر۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آبدوز سمندر کی تہہ تک پہنچ چکی تھی لہٰذا پانی کا دباؤ اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔

اس موقع پر تمام لوگوں کو ٹارپیڈو روم میں طلب کیا گیا۔ کوٹرینا کو معلوم ہوا کہ اب صرف 22 افراد آبدوز کے اندر موجود ہیں، باقی آبدوز سے باہر نکل چکے ہیں یا پھر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

کوٹرینا نے خود سے کہا کہ ’خدا نے مجھے خود کو بچانے کا موقع دیا تھا۔ اب میرے عملے کو بھی ایسا ہی موقع ملنا چاہیے۔‘

غیر متوقع طور پر کمانڈنگ آفیسر بن جانے والے کوٹرینا نے آبدوز میں پھنس جانے والے عملے کو اکھٹا کر کے انھیں امید دلائی کہ وہ سب بچ جائیں گے۔

عملے کی جانب سے کوٹرینا کے لیے تعریفی جملے کہے گئے: ’وہ ہمیں بچالیں گے۔‘

آبدوز میں موجود یہ افراد کسی سپیشل فورس کے رکن نہیں تھے اور نو افراد تو ایسے تھے جنھیں تیراکی بھی نہیں آتی تھی۔

وہ 42 میٹر سمندر کے نیچے تھے، آبدوز میں آکسیجن تیزی سے ختم ہو رہی تھی اور پانی کے اندر داخل ہونے کے بھی کئی راستے کھلے تھے۔

ان کے پاس پینے کا پانی یا کھانا نہیں تھا اور وہ سب ٹارپیڈو روم میں تقریباً اندھیرے میں جمع تھے۔

ایسے مشکل ترین حالات میں انجینئر کوٹرینا نے حساب کتاب میں سر کھپایا جس میں ان کے خیال میں چار گھنٹے لگ گئے۔

آبدوز کے عملے کے ارکان کو لگ رہا تھا جیسے کہ کوٹرینا پاگل ہوگئے ہوں، لیکن کوٹرینا جانتے تھے کہ تمام لوگوں کی جانیں بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان لوگوں کے پاس کتنے گھنٹوں کی آکسیجن بچی ہے۔

کوٹرینا یہ بات جان چکے تھے کہ آبدوز میں بے انتہا پانی بھر چکا ہے اور اسے دوبارہ چلانا بالکل ناممکن ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ زندہ رہنے کے لیے ان لوگوں کو جلد از جلد آبدوز سے باہر نکلنا ہوگا۔

کوٹرینا نے کہا کہ ’اگر ہم 42 میٹر گہرائی میں ہیں تو بچ نکلنا نا ممکن نہیں۔‘

لیکن ان کے ساتھی کوٹرینا سے اتفاق نہیں کر رہے تھے۔ ان سب نے ایک ساتھی کو 15 میٹر گہرائی میں تیرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوب کر مرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان تمام افراد نے جان بچانے کے لیے پیرو کی بحریہ کی مدد کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم کوٹرینا جانتے تھے کہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔

اسی کشمکش میں چند گھنٹے مزید گزر گئے۔ اچانک ہی آبدوز کے ڈھانچے پر ضربیں لگنے کی آوازیں آئیں۔

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’پہلے میں نے سوچا کہ شاید یہ آوازیں آبدوز کے سمندری تہہ میں ڈوبنے کی وجہ سے آ رہی ہیں لیکن وہ آوازیں مختلف تھیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی آبدوز کے ڈھانچے سے ٹکرا رہا ہو۔‘

امید اور ناامیدی کے عالم میں انھوں نے بھی جواباً آبدوز کی باڈی پر ہاتھ مارے۔

جب جواب میں دوسری جانب سے بھی آبدوز پر ٹھوکریں ماری گئیں تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔

انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ پیرو کی بحریہ کے غوطہ خوروں نے ابھیں ڈھونڈ لیا ہے اور آبدوز کے اندر شور سن کر وہ سمجھ گئے ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔

’ہم خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔ میں خوشی سے چیخ رہا تھا، دیکھو میں نے تم سے کہا تھا نہ کہ وہ ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔‘

اس کے بعد انھوں نے امدادی ٹیم سے رابطہ کرنا شروع کیا۔ کوٹرینا نے آبدوز کی مخصوص ٹیوب کے ذریعے غوطہ کوروں کو پیغام بھی بھیجا۔

انھوں نے اپنے کمانڈروں کو صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ پاکوچا میں کتنے آدمی ہیں، ساتھ ہی ان سے درخواست کی کہ غوطہ خور انھیں خوراک اور سانس لینے کے لیے آکسیجن کی بوتلیں فراہم کریں۔

انھیں ٹیوب ہی کے ذریعے تحریری جواب بھی ملا۔ پیرو کے حکام نے امریکہ سے تعاون کے لیے درخواست کی تھی،امریکہ نے جدید ترین آلات بھیجنے کا وعدہ کیا تھا جس کی مدد سے آبدوز میں پھنسے تمام افراد کو بحفاظت باہر نکالا جاسکے گا۔

لیکن کوٹرینا جانتے تھے کہ اس مواد کو پیرو پہنچنے اور مناسب جہاز پر لوڈ کرنے میں دن لگ سکتے ہیں اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔

کوٹرینا نے حساب لگایا تھا کہ ان کے پاس آکسیجن پہنچنے میں تقریباً 48 گھنٹے اور لگ سکتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے بھی انھیں سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

کوٹرینا نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’جب امریکی پہنچیں گے تو وہ صرف لاشیں تلاش کر پائیں گے۔ ‘

تھوڑی دیر بعد، معاملات اور بھی پیچیدہ ہو گئے۔

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’ڈیوٹی پر موجود ایک شخص نے خبردار کیا کہ بیٹری والے کمرے میں آگ لگی ہے۔‘

کوٹرینا نے کمپارٹمنٹ کو سیل کرنے کا حکم دیا اور اپنے ساتھی کو کہا کہ وہ یہ معلومات کسی اور کو نہ دیں ورنہ لوگ مزید گھبرا جائیں گے۔

کوٹرینا نے شیشے دے دیکھا کہ آکسیجن کی کمی کے سبب آگ کی شدت کم ہو رہی ہے۔ آکسیجن کی شدید کمی تھی اور آکسیجن ہی وہی واحد چیز تھی جو زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری تھی۔

’کپتان! آپ انھیں مارنے جا رہے ہیں‘Getty Images

کوٹرینا مزید کہتے ہیں کہ ’آگ کے منظر نے سب کچھ بدل دیا۔ صبح چھ بجے مجھے دوبارہ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمیں اپنی روانگی کی تیاری شروع کرنی چاہیے۔‘

انھوں نے عملے کو اکٹھا کیا تاکہ انھیں سمجھا جا سکے کہ صورتحال کتنی نازک ہے اور ان کے بچنے کا واحد طریقہ آبدوز کو چھوڑنا ہی ہے۔ انھوں نے اپنے فیصلے سے اعلیٰ افسران کو بھی آگاہ کر دیا تھا۔

کوٹرینا کو اعلیٰ افسران نے جواب دیا کہ وہ صورتحال کو دیکھ کر جو چاہیں فیصلہ لے سکتے ہیں۔

اب کوئی متبادل راستہ نہیں بچا تھا اورزندہ بچنے کے لیے ٹھنڈے پانیوں میں پھیپھڑوں کی پوری رفتار سے 42 میٹر اوپر تیرنا تھا۔

کوٹرینا کہتے ہیں کہ ’ہمیں لائف جیکٹس پہننی پڑیں، اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ اگر جیکٹ میں ہوا کم ہوئی تو یہ سطح تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔‘

کوٹرینا نے یاد کرتے ہوئے کہا ’ہمیں دھیرے دھیرے ان لائف جیکٹ کو درکار ہوا کی مقدار کو طاقت لگا کر پورا کرنا پڑا۔‘ پھر انھوں نے حکم دیا کہ تین سے پانچ لوگوں پر مشتمل گروپ بنائے جائیں اور پھر پہلے گروپ آبدوز سے انخلا کے لیے چیمبر میں داخل ہوا۔

جب کوٹرینا نے فلڈ گیٹس کو کھولنے کا حکم دیا تو وہاں موجود افراد نے غصے سے انھیں دیکھا اورکہا: ’آپ کیا کر رہے ہیں، کپتان؟ آپ انھیں مارنے جا رہے ہیں۔‘

کوٹرینا نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اگر پہلے گروپ کے ارکان زندہ سطح پر پہنچ گئے تو ریسکیو غوطہ خور پانچ بار آبدوز کے ڈھانچے پر ضرب لگا کر سگنل بھیجیں گے۔

چند منٹ گہری خاموشی میں گزر گئے اور پھر اچانک پانچ ضربوں کی آواز آئی، اس کا مطلب یہ تھا کہ پہلا گروپ سمندر کی اوپری سطح پر پہنچ گیا تھا۔

’یہ پہلی بار سانس لینے کی طرح تھا‘

پھر دوسرے گروپ کو آبدوز سے باہر بھیجا گیا اور پھر اس کے بعد تیسرے کو۔

پھر کوٹرینا نے خود آبدوز سے باہر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ سطح پر پہنچ کر آخری تین ساتھیوں کو بچانے میں غوطہ خوروں کی رہنمائی کر سکیں۔

’میں نے ایک گہرا سانس لیا۔ 10 سیکنڈ گزرے، پھر 20، پھر 30، اور میں سورج کی روشنی کو قریب سے قریب ہوتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔لیکن مجھے پھر بھی ایسا لگا جیسے میں اوپر نہیں پہنچ سکوں گا۔‘

لیکن میں سانس روکے اوپر تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا اور ایک گہری سانس لی۔

’ایسا لگ رہا تھا جیسے میں پہلی بار سانس لے رہا ہوں اور وہ میری زندگی کی سب سے بہترین سانس تھی۔‘

لیفٹیننٹ کوٹرینا کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے لے جایا گیا۔

’ہر چیز تکلیف دہ تھی اور میں بمشکل بول پا رہا تھا، تاہم اس وقت بھی میں صرف ان تینوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو ابھی بھی آبدوز میں پھنسے ہوئے تھے۔‘

آخر کار جاپانی ماہی گیری کی کشتی کے ساتھ تصادم کے 24 گھنٹے بعد پاکوچا کے عملے کے تین آخری ارکان بھی سمندر کی اوپری سطح تک پہنچ گئے۔

پاکوچا کے ساتھ ایک اور معجزہ رونما ہو چکا تھا۔

جاپانی ماہی گیروں کی کشتی کے کپتان اور سیکنڈ ان کمانڈ کو غیر ارادی قتل عام کا مرتکب ٹھہرایا گیا اور جاپان کے حوالے کیے جانے سے پہلے پیرو میں انھوں نے قید کی سزائیں بھگتیں۔

لیفٹیننٹ کوٹرینا نے 23 دن ہسپتال میں گزارے۔ اس حادثے میں آبدوز کے عملے کے نو افراد ہلاک ہوئے تھے اور جو بچ گئے تھے وہ آج تک کورٹینا کا کارنامہ نہیں بھولے ہیں۔

ٹائٹن آبدوز کا ملبہ ہمیں اس حادثے کے بارے میں کیا بتا سکتا ہے؟ٹائٹن حادثہ: آبدوز ’پھٹنے‘ کی تحقیقات میں آگے کیا ہو گا؟ سمندر کی اتھاہ گہرائی اور آبدوز میں پھنسے دو افراد: ’تین دن بعد جب ہمیں ریسکیو کیا گیا تو صرف 12 منٹ کی آکسیجن باقی تھی‘ہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More