اقوام متحدہ کی ’لسٹ آف شیم‘ میں اسرائیل اور حماس دونوں کا نام کیوں شامل کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 27, 2024

Getty Images

اقوام متحدہ نے اسرائیلی فوج، حماس اور فلسطینی اسلامک جہاد کے عسکری ونگ کو ’لسٹ آف شیم‘ میں شامل کیا ہے۔

اس فہرست میں ایسے گروہوںکے نام شامل کیے جاتے ہیں جو دوران جنگ ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن سے بچوں کو نقصان پہنچا ہو۔

یہ فہرست اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی بچوں اور مسلح جھڑپوں پر سالانہ رپورٹ میں شامل ہے۔

یہ تازہ ترین رپورٹ 13 جون کو عوامی سطح پر جاری کی گئی اور اس میں سنہ 2023 کے دوران بچوں کو نقصان پہنچنے والی کارروائیوں پر روشنی ڈالی گئی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات پر بحث بھی کی۔

اس تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سنہ 2023 میں جنگوں میں بچوں پر ہونے والا تشدد انتہا پر تھا، جس میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران بچوں کو ’قتل اور معذور کر دینے والے واقعات میں حیران کن 35 فیصد اضافہ ہوا۔‘

اس رپورٹ میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا ان خطوں میں شمار ہوا ہے جہاں بچوں کے خلاف سب سے زیادہ ’سنگین خلاف ورزیاں‘ ہوئی ہیں۔

Getty Imagesخلاف ورزیوں کی اکثریت اسرائیل سے منسوب ہے

اقوام متحدہ نے اس رپورٹ میں اسرائیلی فوج سے منسوب 5,698 خلاف ورزیوں کی تصدیق کی ہے جبکہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی 116 اور اسلامی جہاد کے عسکری ونگ القدس بریگیڈ کی 21 خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مزید 2,051واقعات کو بچوں کے خلاف کارروائیوں سے منسوب کرنے کا عمل ابھی بھی جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے مندرجہ ذیل خلاف ورزیوں کی تصدیق کی ہے:

2267 فلسطینی بچوں کی ہلاکتیں، جن میں سے اکثریت غزہ میں سات اکتوبر سے 31 دسمبر کے دوران ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق ’زیادہ تر واقعات آبادی والے علاقوں میں اسرائیلی فوجکے حملوں سے پیش آئے۔‘43 اسرائیلی بچوں کی ہلاکت کے واقعات جو زیادہ تر اسرائیل میں پیش آئے اور یہ ہلاکتیں سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے دوران ہوئیں جن میں گولہ باری اور راکٹ فائر ہوئے تھے اور بچے گولیوں کی زد میں آ گئے تھے۔حماس کے القسام بریگیڈ اور دیگر فلسطینی مسلح گروپوں کی طرف سے 47 اسرائیلی بچوں کے اغوا کے واقعاتاسرائیلی فوج کی جانب سے 906 فلسطینی بچوں کو مبینہ سکیورٹی جرائم پر حراست میں لینے کے واقعات اسرائیلی فوج، آباد کاروں سے منسلک سکولوں اور ہسپتالوں پر نامعلوم افراد کے 371 حملےحماس کےالقسام بریگیڈ، دیگر فلسطینی مسلح گروپ اور نامعلوم افراد کی جانب سے اسرائیل کے سکولوں اور ہسپتالوں پر 17 حملےGetty Images

اس فہرست میں ان واقعات کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں کسی بھی حملے یا کارروائی میں بچوں کا معذور ہو جانا اور انھیں انسانی امداد تک رسائی سے انکار کرنے جیسے سنگین اقدام شامل ہیں تاہم اقوام متحدہ نے وضاحت کی ہے کہ اس رپورٹ میں بچوں کے خلاف جرائم کی مکمل تصویر سامنے نہیں آئی کیونکہ اس عالمی تنظیم کی مانیٹرنگ کرنے والے عملے کی ان علاقوں میں رسائی اب بھی ایک چیلنج ہے۔

’لسٹ آف شیم‘ کیا ہے اور اس میں کس کس کا نام ہے؟

سنہ 2001 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک قرارداد میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ’جنگ کے فریقین‘ کی ایک فہرست بنائیں جو بچوں کو بھرتی بھی کرتے ہیں اور ان کا استمعال بھی کرتے ہیں۔

اس وقت یہ فہرست سلامتی کونسل کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی سالانہ رپورٹ کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہے جس میں ’بچوں پر مسلح تصادم کے اثرات کے حوالے سے رجحانات اور ارتکاب کی خلاف ورزیوں سے متعلق معلومات‘ شامل ہیں۔

سنہ 1996 میں مسلح جھڑپوں میں بچوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندہ کا عہدہ متعارف کروایاگیا۔

اس کا کام یہ تھا کہجنگ کے دوران بچوں پر پڑنے والے اثرات کی نشاندہی کی جائے۔ اس نے بچوں کے خلاف چھ سنگین جرائم کی نشاندہی کی۔

یہ بھی پڑھیے’اسرائیلی فوجیوں نے زخمی فلسطینی کو جیپ سے باندھا‘: آئی ڈی ایف کا اعترافاسرائیلی فوج کا جنوبی غزہ میں فوجی کارروائی میں ’وقفے کا اعلان‘ حکومت میں تقسیم کا باعث کیوں بن گیا ہے؟اسرائیل کی پیچیدہ سیاست، انتہا پسند یہودی وزرا اور حماس کی شرط جو غزہ میں عید سے قبل جنگ بندی کے راستے میں رکاوٹ ہیں

ان میں سے پانچ ایسی خلاف ورزیاں ہیں جن سے فریق خود بخود اقوام متحدہ کی لسٹ آف شیم میں شامل ہو جاتے ہیں:

بچوں کو جنگ میں بھرتی کرنا اور ان کا استعمال کرناجنگ کے دوران کارروائیوں میں بچوں کا قتل اور ان کو معذور کر دینابچوں کے خلاف جنسی تشددسکولوں اور ہسپتالوں پر حملہبچوں کو اغوا کرنے کی کارروائیاں

اس کے علاوہ ایک خلاف ورزی یہ بھی ہے کہبچوں سمیت شہریوں کی انسانی امداد تک رسائی روک دینا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’چوتھے جنیوا کنونشن اور اس کے اضافی پروٹوکول کے تحت یہ ممنوع ہے اور یہ انسانیت کے خلاف جرم اور جنگی جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘

موجودہ فہرست میں بوکو حرام، شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ اور طالبان جیسے مسلح گروپ شامل ہیں۔

پچھلے سال روسی افواج کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

Reutersاسرائیل کی جانب سے مذمت، فہرست میں شمولیت ’غیر اخلاقی‘ قرار

اگرچہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ پر حماس اور اسلامی جہاد کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا لیکن اسرائیل نے کڑی تنقید کے ساتھ اپنی فوج کی اس فہرست میں شمولیت کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دیا ہے۔

7 جون کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے چیف آف سٹاف کورٹنی راترے نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد ایردان کو جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک فون کال کے ذریعے آگاہ کیا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کو اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفان ڈوجارک نے کہا کہ یہ کال عام طور پر ’ان ممالک کو کی جاتی ہے جو فہرست میں نئے نئے شامل ہوتے ہیں تاکہ انھیں دھچکہ نہ لگے اور رازداری رہے۔‘

آئی ڈی ایف کے فہرست میں شامل کیے جانے کے جواب میں اسرائیلی سفیر گیلاد نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں وہکورٹنی راترے سے فون پر بات کر رہے ہیں۔

گفتگو کے دوران گیلاد ایردان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اس ’فیصلے سے صرف حماس کو چھوٹ ملے گی۔‘

بعد ازاں اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کہا کہ فون کال کی شیئر کی ہوئی ریکارڈنگ ’نامکمل‘ ہے اور یہ ’حیرت انگیز اور ناقابل قبول‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اقوام متحدہ کے اپنے 25 سالہ کیریئر میں یہ کبھی ہوتے نہیں دیکھا۔‘

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ نے ’خود کو تاریخ کی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا جب اس نے حماس کی حمایت کی۔‘

فہرست پر سخت تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آئی ڈی ایف دنیا کی سب سے زیادہ بااخلاق فوج ہے اور اقوام متحدہ کا کوئی بھی فیصلہ اسے بدل نہیں سکتا۔‘

اسرائیل کو پہلی بار اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن اقوام متحدہ کی پچھلی رپورٹس میں مسلح جھڑپوں میں بچوں کو نقصان پہنچانے والے ممالک میں اس کا نام آ چکا ہے۔

پچھلے سال شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’524 بچے (517 فلسطینی اور سات اسرائیلی) اسرائیلی فوج کی جانب سے فائر کی گئی آنسو گیس میں سانس لینے کے بعد معذور ہوئے اور 563 کو طبی امداد کی ضرورت تھی۔‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شائع کی ہوئی رپورٹس میں اسرائیل کو شامل نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے بچوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی ڈائریکٹر جو بیکر نے اس فہرست میں اسرائیل کا نام شامل ہونے پر کہا کہ ’یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’حماس کی ’القسام بریگیڈ‘ اور فلسطینی اسلامی جہاد کی ’القدس بریگیڈ‘ کا بھی اس فہرست میں شامل ہونا جائز ہے۔‘

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل ایگنس کالمارڈ نے اس ماہ کے شروع میں لکھا کہ ’اسرائیل کو اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے غزہ میں 15 ہزار بچوں کے ہلاک ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

Getty Imagesفہرست میں شمولیت کے اثرات

’آکسفرڈ انسٹیٹیوٹ فار ایتھکس لا اینڈ آرمڈ کانفلکٹ‘ کی سینیئر ریسرچ فیلو ایمانویلا چیارا گیلارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس فہرست میں ممالک اور اداروں کو شامل کرنے کا بنیادی مقصد صرف ’ان کا نام لے کر شرمندہ کرنا ہے‘ اور اس سے ان کو فوری طور پر قانونی مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔‘

’تاہم ممالک انفرادی طور پر اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو وہ اسے ہتھیار دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن اس فہرست میں شامل ہو جانے سے کسی ملک پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں۔‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کو اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک پہلے ہی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کر چکے ہیں اور غیر ریاستی عناصر کے طور پر رپورٹ میں ان کا حوالہ ’ان کی قانونی حیثیت کو متاثر نہیں کرتا۔‘

ایمانویلا چیارا گیلارڈ کا خیال ہے کہ مسلح جھڑپوں میں بچوں کو پہنچنے والے نقصانات اور رپورٹنگ کے لحاظ سے فہرست سازی کے عملی نتائج ہیں کیونکہ اسرائیل اور حماس دونوں پر کڑی ںظر رکھی جائے گی اور ان کا حوالہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی دیا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی اس فہرست سے نکلنے کے لیے تنظیموں کو اقوام متحدہ کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے، ایک ’ایکشن پلان‘ تیار کرنا ہوگا تاکہ اقوام متحدہ کے ساتھ اس پر عملدرآمد ہو سکے اور بچوں کے خلاف مزید جرائم کو روکا جا سکے۔

مشکل فیصلوں کا وقت اور اسرائیلی وزیراعظم کی پریشانی: ’نتن یاہو جانتے ہیں کہ حماس کی بقا اُن کی شکست کے مترادف ہے‘غزہ اسرائیل تنازع: حماس نے جنگ بندی کی شرائط قبول کر لیں ’رفح آپریشن جاری رہے گا‘ نیتن یاہواسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More