لاہور۔12جون (اے پی پی):شہنشاہ غزل استاد مہدی حسن کی بارہویں برسی (کل)13جون بدھ کو منائی جا رہی ہے۔مہدی حسن کا تعلق موسیقی کے کلاونت گھرانے سے تھا۔ وہ ہندوستان کی ریاست جے پور کے ایک گاؤں لونا میں 18 جولائی سنہ 1927 کو پیدا ہوئے تھے۔مہدی حسن کے والد کا نام عظیم خان تھا اور ان کا تعلق بھی موسیقی کی دنیا سے تھا۔ مہدی حسن جب چھ سال کے ہوئے تو والد عظیم خان نے تان پورہ سُر کر کے دیا اور کہا کہ یہی تمھارا کھلونا، یہی تمہارا مستقبل ہے۔ننھا مہدی حسن تان پورہ سے راگوں کی شکلیں یاد کرنے لگا۔ابتدائی تعلیم اپنے والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ مہدی حسن بچپن سے ہی بہت جفا کش اور محنتی تھے۔ آواز اور سانس کی پختگی کے لیے وہ شدید جسمانی کسرت بھی کرتے تھے۔یہ کسرت ان کی گائیکی کا اساس بنی اور ان کی سریلی آواز مزید نکھر گئی۔مہدی حسن کے والد اور چچا مہاراجہ بڑودہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ انھوں نے انتہائی کم عمری میں مہدی حسن کو اس قابل کر دیا کہ وہ مہاراجہ بڑودہ کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔مہدی حسن کے فن کو نکھارنے میں ان کے بھائی غلام قادر نے بھی اہم کردار ادا کیا جو لکھنؤ کی موسیقی کی ممتاز درس گاہ کے فارغ التحصیل تھے اور اسی باعث پنڈت کہلاتے تھے۔پنڈت غلام قادر کو موسیقی کے علاوہ سنسکرت، ہندی اور اردو پر بھی ماہرانہ عبور حاصل تھا۔قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن اور پنڈت غلام قادر لاہور چلے آئے۔ جہاں پہلے انھوں نے فلمی صنعت میں قدم جمانے کی کوشش کی مگر وہاں خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کے باعث وہ چیچہ وطنی چلے گئے جہاں انھیں سائیکلوں کی مرمت کا کام بھی کرنا پڑا۔پھر انھوں نے کاروں کو ٹھیک کرنے کا کام سیکھا یہاں تک کہ مہارت سے انجن باندھ لیتے تھے تاہم موسیقی سے ان کا لگاؤ جنون کی حد تک برقرار تھا۔اسی زمانے میں انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی میں موسیقی کے پروگراموں کے حصول کے لیے آڈیشن دیا ۔اس کے بعد انھیں گاہے بہ گاہے ریڈیو پاکستان بلایا جانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ وہ شادی بیاہ اور ایسی ہی دوسرے پروگراموں میں اپنی گائیکی کا جادو جگانے لگے۔ ان پروگراموں میں وہ زیادہ تر طلعت محمود کے گانے سناتے تھے۔ ہدایتکار رفیق انور کو ان کی گائیکی بہت پسند آئی اور انھوں نے مہدی حسن کو اپنی فلم ’’شکار ‘‘میں گانا گانے کی دعوت دی۔ مہدی حسن نےکراچی آ کر چار نغمات ریکارڈ کروائے ۔ان چار نغمات میں سے دو مہدی حسن نے تنہا گائے اور دو میں ان کا ساتھ مدھو الماس نے دیا۔ ان نغمات کو حفیظ جالندھری اور یزادنی جالندھری نے لکھا تھا اور ان کی موسیقی اصغر علی حسین نے ترتیب دی تھی۔مہدی حسن نے فلمی دنیا کے لیے جو پہلا نغمہ ریکارڈ کروایا، اس کے بول تھے ’میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے۔انہوں نے 1957 میں کراچی میں ریڈیو پاکستان سے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا۔1962 میں فلم فرنگی کے گیت ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نور بہار چلے‘‘ مہدی حسن کی پہلی مشہور غزل تھی۔دنیا میں جہاں جہاں غزل گائی اور سنی جاتی ہے وہاں مہدی حسن کی مدھر آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ان کا گیت’’ اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا ‘‘سب سے زیادہ مشہور گانوں میں شمار ہوتا ہے۔مہدی حسن نے اپنی زندگی میں25 ہزار سے زائد فلمی گیت اور غزل گائیں۔مہدی حسن کو مشکل راگوں پر بھی کمال گرفت حاصل تھی وہ آوازجو دلوں کو چھو لیتی تھی،وہ شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز تھی اسی بات پرمایہ ناز بھارتی گلوکارہ لتا منگیشتر نے کہا تھا کہ ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے ۔ایسی آواز،اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔مہدی حسن کو حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت تمام نمایاں قومی سطح کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔گائیکی کے میدان میں بام عروج پر پہنچنے کی طویل جدوجہد کے بعد مہدی حسن فالج، سینے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے اور طویل علالت کے بعد 13 جون 2012 کو کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔