انڈیا الیکشن: ’کمزور اکثریت‘ مودی اور بی جے پی کے لیے کیا مشکلات پیدا کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 05, 2024

EPA

انڈیا کے الیکشن کے نتائج کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی، جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار پارلیمانی انتخابات جیتنے والے پہلے سیاسی رہنما بن گئے ہیں تاہم بی جے پی وہ بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا دعویٰ انتخابات سے قبل کئی بار کیا گیا۔

ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بھی بن پائیں گے یا نہیں۔

بی جے پی کے دعوؤں اور ’ایگزیٹ پولز‘ کی توقعات کے برعکس انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو نمایاں طور پر کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

اب تک کے رجحانات کے مطابق بی جے پی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) 543 میں سے292 نسشتوں کے ساتھ انتخابات جیتنے کی طرف گامزن ہے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن ’انڈیا‘ اتحاد کو 234 نشستیں ملی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق تمام نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے اور حکمراں بی جے پی 240 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی جیتی گئی سیٹوں سے تقریباً 60 کم ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کو 99 سیٹیں ملی ہیں جو کہ سنہ 2019 کے انتخابات کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہیں۔

واضح رہے کہ انڈیا میں سیاسی جماعتوں یا ان کے اتحادیوں کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے غیر متوقع نتائج کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب رہیں گی لیکن انھیں ہمیشہ یہ خطرہ رہے گا کہ حزب اختلاف حکمراں اتحاد سے ناراض جماعتوں کو اپنی جانب راغب کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے لیے کمزور مینڈیٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ پچھلی حکومت کے برعکس پارٹی کو ممکنہ طور پر اپنے نامکمل ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔

EPA

آنے والے دنوں میں جو علاقائی پارٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ان میں کانگریس کی حلیف سماج وادی پارٹی ہے، جو اتر پردیش کی 80 نشستوں میں سے 37 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ ٹی ایم سی جو کہ بنگال میں برسر اقتدار ہے نے 20 نشستیں حاصل کی ہیں اور گذشتہ انتخابات کے مطابق میں ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب مودی کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ نے بہار میں 12 اور ٹی ڈی پی نے آندھرا پردیش میں 16 نشستیں حاصل کی ہیں۔

بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر میں دفعہ 370 کو ہٹانے اور تین طلاق روکنے کا قانون متعارف کرانے جیسے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔ لیکن نئی حکومت کے لیے نامکمل وعدے جیسا کہ ’ون نیشن ون الیکشن‘ اور یکساں سول کوڈ (جس کے تحت اقلیتوں کے شادی اور وراثت کے قوانین کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا) کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔

’ون نیشن ون الیکشن‘ وعدے کے تحت بی جے پی پارلیمانی اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی وقت میں کروانا چاہتی ہے۔ بی جے پی ماضی میں کہہ چکی ہے کہ اس سے حکومتوں کو بار بار انتخابات کرانے کے بجائے حکمرانی پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔

تاہم حزب اختلاف نے یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے کہ اس سے حکمران جماعت کو غیر مناسب فائدہ پہنچے گا۔

تجزیہ کار اور صحافی شعیب دانیال کہتے ہیں کہ ناقدین اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ بی جے پی نے سرکاری اداروں کو کمزور کیا ہے، جس کے تناظر میں شہریوں کے لیے حکومت کی غفلت کو روکنے کے لیے ووٹ ہی ’واحد ذریعہ‘ ہے۔

ناقدین بی جے پی کی پالیسیوں کو اکثر فرقہ وارانہ قرار دیتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ اس سے انڈیا کی وفاقیت کمزور ہو رہی ہے۔

ان انتخابات میں علاقائی پارٹیوں کو اہمیت حاصل ہونے کی وجہ سے مودی اور ان کے اہم ساتھی امت شاہ کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے مبینہ طور پر مرکز میں حکومتی طاقت کے عمل پر اہم اثر پڑے گا (یعنی پہلے جیسا تاثر تھا کہ طاقت کا مرکز مودی اور امت شاہ ہیں اور وہی سارے فیصلے لیتے ہیں، اب چونکہ مودی دوسری علاقائی جماعتوں کے ساتھ ملک کر حکومت بنائیں گے لہذا انھیں ان پارٹیوں کی بھی سننا پڑے گی۔)

ان انتخابی اعداد و شمار کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت ایک مرکزی جماعت کی بجائے اتحادی جماعتوں پر مبنی سیاست کی آئینہ دار ہو گی جو انڈیا میں سنہ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں عام تھا۔

EPA

مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مخلوط حکومتیں مسابقتی مفادات کی کھینچا تانی کی وجہ سے عوام کے حقوق کے لیے بہتر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر بی جے پی کی زیرقیادت گذشتہ این ڈی اے حکومت کے دوران اس کی کئی اہم اتحادی جماعتوں کے لیے اس کا ہندوتوا کا نظریہ ناقابل قبول تھا، جس کی وجہ سے اسے ’موڈیریٹ‘ سیاست کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

مثلا 1998 میں جب بی جے پی پہلی بار مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تھی تو لال کرشن اڈوانی پارٹی کے سربراہ تھے اور بابری مسجد کے انہدام کی تحریک کی قیادت میں سب سے آگے رہنے والے لوگوں میں سے تھے۔ لیکن کئی جماعتوں نے ان کے نام پر اعتراض کیا اور اٹل بہاری واجپائی، جنھیں پارٹی کے اندر ایک معتدل چہرہ سمجھا جاتا تھا، متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیےانڈین الیکشن 2024: آخری مرحلے کی ووٹنگ کے بعد ایگزٹ پولز میں کس پارٹی اور اتحاد کو سبقت مل رہی ہے؟ایگزٹ پول کیا ہے اور ماضی میں انتخابی نتائج کی پیشگوئیاں کتنی درست ثابت ہوئیں؟سوامی ویویکانند راک: وہ تاریخی مقام جہاں نریندر مودی الیکشن کے آخری مرحلے میں مراقبہ کر رہے ہیںکیا اس بار بھی حکومت کچھ ویسی ہی ہو گی؟

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مودی خود حکومت کی قیادت کریں گے یا دوسرے دعویدار بی جے پی حکومت میں شراکت داری کے لیے مطالبات کریں گے۔

سینیئر تجزیہ کار شرت پردھان کا کہنا تھا کہ مودی اور امت شاہ کی جوڑی کے لیے، جن کا حکومت پر یکطرفہ غلبہ رہا ہے، متنوع اتحادی شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اتحادی سیاست کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت میں عدم استحکام کے امکانات رہیں گے کیوں کہ چھوٹی پارٹیوں کو حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اپنی طرف بڑی اور بہتر وزارتوں کے وعدے کے ساتھ راغب کر سکتی ہیں۔

ان کے مطابق مستقبل کی حکومت کے لیے روزگار اور مہنگائی ایک سنگین مسئلہ رہے گا کیونکہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ نوجوانوں نے فیصلہ کن طور پر ان مسائل پر ووٹ ڈالے ہیں۔

واضح رہے کہ روزگار اور مہنگائی انڈیا میں لوگوں کے لیے اہم مسائل ہیں اور یہ فیض آباد جیسی نسشتوں پر اپوزیشن کی جیت سے واضح ہوتا ہے، جس کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد منہدم کرکے رام مندر تعمیر کیا گیا تھا۔

بی جے پی اتحاد نے 400 سیٹیں جیتنے کی کال دی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا اثر الٹا ہوا جیسا کہ ماہر نفسیات اور سیاست دان یوگیندر یادو نے اشارہ کیا۔

بی جے پی کے 400 سیٹوں کی کال کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر بی جے پی 400 سے زائد نسشتوں کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے تو وہ آئین کو بدل دے گی۔ یہ دلتوں اور اقلیتوں کے لیے تشویش ناک بات تھی کیونکہ آئین انھیں سازگار حقوق دیتا ہے۔

اگرچہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں اکثر مبینہ طور پر فرقہ وارانہ مسائل کو اٹھایا تھا لیکن اپوزیشن اپنے مہم کے لیے اپنے نکات پر قائم رہی جیسے کہ 30 لاکھ نوکریوں کا وعدہ، غریبوں کو 10 کلو گرام مفت راشن دینے کا وعدہ اور غریب خاندانوں کو ہر سال ایک لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ۔

انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر سیاسیات پرتاپ بھانو مہتا کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات اشارہ کرتے ہیں کہ مودی اب ’دیوتا نما‘ نہیں رہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’آج وہ صرف ایک عام سیاستدان ہیں، جو کہ کافی چھوٹے ہو گئے ہیں۔‘

جبکہ بے جے پی کی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی انتخابی نتائج پر انڈین میڈیا میں مختلف بیانات دیتے ہوئے ’مودی کی مقبولیت‘ کے دور کے ختم ہونے کی بات کی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نے کہا کہ ’یہ انتخابات عوام کی طرف سے ایک پیغام ہے کہ وہ بی جے پی کے 10 سالہ دور حکومت سے تھک چکے ہیں اور انہیں بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ انڈیا کی جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ لوگوں نے بی جے پی کو باہر کر دیا۔‘

جبکہ گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ’ملک کے لوگوں نے نریندر مودی کو واضح پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کو نہیں چاہتے۔‘

انتخابی نتائج سے ایک بات واضح ہے کہ اگر مودی وزیر اعظم کے طور پر اقتدار میں واپس آتے ہیں تو انھیں ایک مختلف حقیقت کا سامنا ہو گا۔ سنہ 2014 میں ایک زبردست مینڈیٹ کے بعد نسبتاً کمزور نتائج ان کے لیے ایک نازک صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔

سوامی ویویکانند راک: وہ تاریخی مقام جہاں نریندر مودی الیکشن کے آخری مرحلے میں مراقبہ کر رہے ہیںایگزٹ پول کیا ہے اور ماضی میں انتخابی نتائج کی پیشگوئیاں کتنی درست ثابت ہوئیں؟انڈین الیکشن 2024: آخری مرحلے کی ووٹنگ کے بعد ایگزٹ پولز میں کس پارٹی اور اتحاد کو سبقت مل رہی ہے؟انڈیا الیکشن: ووٹوں کی گنتی جاری، بی جے پی کے این ڈی اے اتحاد کو سبقت
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More