فٹبال کے 9 کھلاڑیوں پر گینگ ریپ کا الزام: ’نہ صرف میری ویڈیو بنائی بلکہ ویڈیو کال کر کے دوستوں کو بھی دکھایا‘

بی بی سی اردو  |  May 10, 2024

Getty Images

وہ پارٹی چھٹیوں کے دوران ہونے والی کسی بھی معمول کی پارٹی کی طرح ہوئی تھی مگر اس کا اختتام اجتماعی ریپ اور فٹ بال کے نو کھلاڑیوں کی حراست کے ساتھ ہوا۔

یہ تمام فٹبالر چلی کے کلب کوبریلوا کی یوتھ ٹیم کا حصہ تھے اور اب اگر اُن پر ریپ کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو ان سب کو 15 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سنہ 2021 میں پہلی مرتبہ یہ معاملہ منظر عام پر آیا اور اس پر شکایت کا اندراج ہوا مگر اس پر کارروائی میں تین سال کا عرصہ لگ گیا۔

’انتباہ: اس کہانی میں شامل بعض باتیں قارعین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے‘

’مجھے کمرے میں جانے پر مجبور کیا، جہاں 8 یا 10 لوگوں نے میرا ریپ کیا‘

شکایت کنندہ کی کہانی سے پتا چلتا ہے کہ اُن پر یہ حملہ چلی میں قومی تعطیلات سے ایک دن قبل 16 ستمبر 2021 کی رات کو ہوا۔

اس حملے کے بعد 18 سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ کوبریلوا کان سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کھلاڑیوں میں سے ایک کو جانتی تھیں اور اس نے انھیں ایک پارٹی میں مدعو کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ شرکت کی۔

خاتون نے اس واقعے کے بارے میں ٹی وی 13 کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں ان میں سے ایک کے ساتھ باتھ روم میں گئی اور جب میں وہاں پہنچی تو وہاں ہم سے پہلے ہی دو لوگ موجود تھے۔ میں نے باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی مگر انھوں نے مُجھے میرے بازوؤں سے پکڑ لیا اور ایک کمرے میں لے گئے۔ جب اُس کمرے میں پہنچی تو وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ میں نے ان سب سے جان بچانے اور بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر میں ناکام رہی اور ان سب نے مُجھے گھیر لیا اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ سب مُجھ سے زیادہ طاقتور تھے۔‘

خاتون نے چلی کے خبر رساں ادارے سی ایچ وی نوٹیسیاس کو ایک بیان میں کہا کہ ’میں نہ تو اس سب کے لیے وہاں گئی تھی اور نہ ہی میں نے کسی کو بھی اس بات کی اجازت دی تھی کہ میں یہ سب کرنا چاہتی ہوں، میں یہ سب نہیں چاہتی تھی مگر اُنھوں نے مجھے ایک کمرے میں جانے پر مجبور کیا، جہاں آٹھ یا 10 مزید لوگ داخل ہوئے اور سب نے میرا ریپ کیا۔‘

Getty Imagesیہ تمام فٹبالر چلی کے کلب کوبریلوا کی یوتھ ٹیم کا حصہ تھے

اس واقعے کے اگلے ہی دن پولیس میں شکایت کے دوران خاتون نے بتایا کہ اس سب کے دوران انھیں خاموش رکھنے کے لیے حملہ آوروں نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور اس سب کے لیے انھوں نے مختلف حربوں کا استعمال کیا۔

لا ٹیرسیرا نامی چلی کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے خاتون کے انٹرویو میں بتایا گیا کہ ’(انھوں نے) مجھے زبردستی بازوؤں، گردن اور کمر سے پکڑ لیا، انھوں نے میرے چہرے پر تھپڑ مارے، انھوں نے اپنی بیلٹ سے مجھے مارا، انھوں نے بیلٹ میری گردن کے گرد باندھ کر مُجھ پر ظلم کیا، میں نے اپنے چاروں اطراف میں کنڈوم دیکھے، جن میں سے کُچھ کمرے کے فرش پر گرے ہوئے تھے۔ انھوں نے نہ صرف میری ویڈیو بنائی بلکہ ویڈیو کال کر کے دوسرے دوستوں کو بھی دکھایا کہ انھوں نے کیا کیا۔‘

اگلے روز جب وہ ہوش میں آئیں تو انھوں نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے دوست نے انھیں چند ضروری ٹیسٹ اور طبی معاینے کے لیے ہسپتال پہنچنے میں اُن کی مدد کی۔

بعد ازاں، متاثرہ خاتون شکایت درج کروانے کے لیے پولیس کے پاس گئیں۔

فرانزک رپورٹ میں ’ان کے ریپ اور تشدد‘ کی تصدیق ہوئی تاہم اس کے باوجود، خاتون کا کہنا ہے کہ جن تفتیشی افسران نے ان کی درخواست موصول کی تھی، انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ یہ شکایت واپس لے لیں بلکہ یہ بیان بھی دیں کہ جو بھی ہوا، وہ باہمی رضا مندی سے ہوا تھا۔

’انھوں (پولیس والوں) نے مجھ سے کہا کہ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک سپورٹس کلب ہے اور ان کے پاس اچھے وکیل ہیں۔ آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ وکلا کی فیس کیسے ادا کریں گی؟ آپ اس سب کے بیچ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ اتنا برا تو نہیں ہوا جتنا دوسروں کے ساتھ ہو چُکا۔‘

یہ بھی پڑھیےفٹبالر پر ریپ کے الزامات: ’کوئی بات نہیں، میں 10 ہزار خواتین کے ساتھ سیکس کر چکا ہوں‘دنشکا گوناتھیلاکا جنسی حملے کے الزام سے بری: ’سری لنکن کرکٹر کے پاس سیکس کے دوران کونڈم اتارنے کا کوئی موقع نہیں تھا‘Getty Images(فائل فوٹو)ایک طویل خاموشی

ٹی وی 13 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس مقدمے میں مزید پیشرفت نہیں ہو سکی کیونکہ متاثرہ خاتون نے ریپ کے الزامات واپس لے لیے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کیے تھے اور وہ شکایت کی مزید پیروی کرنا ہی نہیں چاہتیں۔‘

بالآخر 9 مئی 2023 کو مقدمے کو خارج کرتے ہوئے اسے بند کر دیا گیا لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔

پارٹی میں موجود فٹبال کھلاڑیوں میں سے ایک کی والدہ ماریا ایلینا ساویدرا، اگرچہ مبینہ واقعات میں ملوث نہیں تھیں، 2023 میں عوامی سطح پر کُچھ شکایات کے ساتھ سامنے آئیں، جس کی وجہ سے اس واقعے کی تحقیقات کو دوبارہ فعال کرنے میں مدد ملی۔

خاتون نے کوبریلوا اور پروفیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن (اے این ایف پی) کو پیغامات بھیجے۔

کلب نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے کلب سے منسلک وکلا کی بجائے غیر جانبدار وکلا کی ایک ٹیم مقرر کی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ’شکایت میں بیان کیے جانے والے حقائق کا کوئی ثبوت ریکارڈ میں موجود ہی نہیں۔‘

لیکن کوبریلوا کے سابق صدر فرنینڈو رامریز کے مطابق کلب کو اس سارے واقعے کے بارے میں علم تھا اور وہ یہ جانتے تھے کہ اُس رات کیا ہوا تھا تاہم وہ اس واقعے کی تحقیقات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے ٹی وی 13 کو دیے گئے بیان میں کہا ’مجھے عملی طور پر اُسی وقت اس سب کے بارے میں پتا چل گیا تھا مگر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اس معاملے سے دور رہوں اور تحقیقات کا عمل آگے نہ بڑھایا جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’17 ستمبر کو ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ایک کلب ہاؤس میں کسی کا ریپ ہوا۔‘

واضح رہے کہ کھلاڑیوں کی گرفتاری کے بعد شائع ہونے والے ایک بیان میں ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعاون کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ ’یہ وہی ادارہ ہے جس نے اس کیس میں ذمہ دار تمام افراد کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔‘

نومبر 2023 میں چیمبر آف ڈپٹیز کے سپورٹس کمیشن نے شکایت کنندہ کی گواہی سننے کے لیے ایک سیشن منعقد کیا اور پھر جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں ان 9 کھلاڑیوں پر فرد جرم عائد کی گئی جنھیں اب ’معاشرے کی سلامتی کے لیے خطرہ‘ سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ باضابطہ سماعت بند دروازوں کے پیچھے ہوئی تھی لیکن مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ پولیس رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ گرفتار کیے گئے نو فٹبالرز میں سے آٹھ نے خاتون کا ریپ کیا تھا جبکہ ان میں سے ایک نے واقعات کو ریکارڈ کیا تھا۔

توقع ہے کہ اس عمل میں 120 دن لگیں گے۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں کھلاڑیوں کو 15 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اسی بارے میں’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایابدنام مذہبی رہنما مریضوں کو شفایاب کرنے کے جعلی معجزے کیسے دکھاتا تھا؟ ’کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ سب ایک تماشا تھا‘’مجھے دبئی سے سمگل کر کے انڈیا میں سیکس ورکر بننے پر مجبور کیا گیا۔۔۔‘ دلی کی ازبک خاتون کی کہانی
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More