اسحاق ڈار بطور نائب وزیراعظم، کیا نواز شریف نے روایتی محاذ آرائی کا آغاز کر دیا؟

اردو نیوز  |  Apr 29, 2024

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو اتحادیوں سے مشاورت کے بعد نائب وزیراعظم بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق اسحاق ڈار کی تقرری پر پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں اور ان کی تقرری کا فیصلہ وزیراعظم نے دوستوں کی مشاورت سے کیا۔  

تاہم تجزیہ نگار اس تقرری کو پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی مکمل اور بااختیار وزیراعظم بننے کی پرانی خواہش یا کوشش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف اب کی بار خود اقتدار میں نہیں ہیں لیکن حکمران جماعت کے قائد ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو کنگ میکر ضرور سمجھ رہے تھے لیکن کچھ ہی مہینے گزرنے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ انھیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق اس وجہ سے نواز شریف نے نہ صرف جماعت کے اندر بلکہ حکومتی سطح پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے بلکہ واپس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسحاق ڈار کی تقرری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

سیاسی امور کے ماہر ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’بظاہر اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم مسئلہ تب ہوگا جب وہ معاشی معاملات میں مداخلت کریں گے۔ انھیں وزیر خارجہ بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ معاشی امور سے دور رہیں گے کیونکہ گذشتہ حکومت کے 16 ماہ میں ان ہی کی وجہ سے معیشت کا حال برا ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اب جب انھیں نائب وزیراعظم بنا دیا گیا ہے تو وہ براہ راست معاشی معاملات میں مداخلت کریں گے تو ایسی صورت میں وہ حلقے جو ان کی معیشت میں مداخلت کے خلاف تھے ان کو یہ بات پسند نہیں آئے گی اور اس طرح حکومت اور ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوں گے۔‘

ضیغم خان نے کہا کہ ’نواز شریف کی جانب سے اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم بنانا دراصل شہباز شریف کو کم تر تصور کرنے کے مترادف ہے۔‘

ضیغم خان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے شہباز شریف کی حکومت میں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو اپنے وائسرائے بنایا ہوا تھا۔ (فوٹو: اے پی پی)’اس سے پہلے بھی شہباز شریف کی حکومت میں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو اپنے وائسرائے بنایا ہوا تھا جو وزیراعظم کو لفٹ تک نہیں کراتے تھے۔ اب انھیں نائب وزیراعظم بنا دیا ہے جو آگے چل کر شہباز شریف حکومت اور ن لیگ کے لیے کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہوگا۔‘

پاکستان میں جمہوری حکومتوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان تعلقات سے آگاہی رکھنے والے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی کا کہنا ہے کہ ’بظاہر لگ رہا ہے  نواز شریف ماضی کی طرح محاذ آرائی کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے رانا ثنا اللہ کے گذشتہ کچھ روز کے بیانات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ن لیگ میں بیانیہ نواز شریف کا چلے گا جو کچھ روز میں سامنے آئے گا۔ اب اس کے سامنے آنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے یا کم از کم بیانیہ کی تلاش کی طرف قدم بڑھا دیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسحاق ڈار کی تعیناتی مسلم لیگ ن اور حکومتی سطح پر شہباز شریف گروپ کے مقابلے میں نواز شریف گروپ کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے اور اس سلسلے میں مقتدر حلقوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ لگ رہا ہے کہ نواز شریف اپنی طاقت اور اختیار منوانا چاہ رہے ہیں۔‘

خالد لودھی کے مطابق ’یہ دو آتشہ اقدام ہے جس سے شہباز شریف اور مقتدر حلقوں دونوں کو پیغام دیا گیا ہے۔ اس سے ن لیگ کو کیا فائدہ ہوگا یہ تو کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن دوسری سائیڈ الرٹ ہو جائے گی اور لازمی طور پر اس کا ردعمل بھی آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ اسحاق ڈار کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑے۔‘

جنرل لودھی کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی تعیناتی مسلم لیگ ن اور حکومتی سطح پر شہباز شریف گروپ کے مقابلے میں نواز شریف گروپ کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سیاسی خاندانوں کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کار مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ ’شریف خاندان ہوں یا زرداری خاندان ان کے آپس کے معاشی معاملات ایک دوسرے سے اس قدر منسلک ہیں کہ ان میں اختلافات کی صرف خبریں ہی باہر آ سکتی ہیں یہ خود اختلافات کا شکار نہیں ہوتے۔ اگر ہوتے بھی ہیں تو وہ نہ اس کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان تین دہائیوں سے زائد عرصہ سیاست میں گزارنے کے باوجود ایک ہے اور ان کے ساتھ اختلاف کرنے والے جاوید ہاشمی ہوں، چوہدی نثار، شاہد خاقان عباسی ہوں یا مفتاح اسماعیل وہ پارٹی سے باہر ہو جاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ اسحاق ڈار کی تعیناتی نواز شریف گروپ کی جانب سے شہباز شریف کے ساتھ کسی اختلاف کا نتیجہ ہے یہ درست نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت با اختیار ہونی چاہیے اور کسی مداخلت کے بغیر ہونی چاہیے۔ اس لیے وہ اپنے طور پر ایسا کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھا سکتے ہیں کہ جس سے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام جائے کہ نواز شریف بطور پارٹی سربراہ مضبوط ہو رہے ہیں۔‘

’اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ انھیں نظرانداز کیا جا رہا ہے، ایرانی صدر کے دورہ پاکستان میں ان کی نواز شریف سے ملاقات ہونی چاہیے تھی۔ جس کے بعد نواز شریف حکومت میں اپنے لیے مزید اختیار چاہیں گے۔ ظاہر ہے اس وقت وہ وزیراعظم نہیں بن سکتے تو وہ وزیراعظم کے دفتر میں ایسے لوگ تو چاہیں گے جو ان کو شہباز شریف کے بارے میں نہیں بلکہ دوسری طرف کی سرگرمیوں اور خواہشات کے بارے میں آگاہ رکھیں۔ اس کے لیے اسحاق ڈار سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More