انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں”ابھرتے ہوئے جیو پولیٹیکل لینڈ سکیپ میں پاکستان” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام

اے پی پی  |  Apr 24, 2024

اسلام آباد۔24اپریل (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آبادمیں سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ نے فریڈرک-ایبرٹ-سٹیفٹنگ پاکستان آفس کے تعاون سے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی جس کا عنوان ابھرتے ہوئے جیو پولیٹیکل لینڈ سکیپ میں پاکستان تھا، افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان سفیر آصف درانی تھے۔ ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے اپنے تعارفی کلمات میں دنیا بھر میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا ذکر کیا اور عالمی شراکت داری اور مساوی پیش رفت کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے خطاب میں کہا کہ عالمی سطح پر تاریخی تبدیلیوں کے درمیان آج دنیا شدید پولرائزیشن، اتار چڑھائو اور تقسیم کا شکار ہے، روایتی خطرات بشمول بڑی طاقت کے مقابلے اور یورپ اور مشرق وسطیٰ میں جنگیں سائبر جنگ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے نئے چیلنجوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں، کچھ کو ’مغرب کا زوال‘ اور ’باقی کا عروج‘ نظر آتا ہے۔

کثیر قطبیت کی طرف تبدیلی بھی قابل دید ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی دوسروں کی طرح سرحد پار دہشت گردی سے لے کر خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھائو تک ان پیچیدگیوں سے دوچار ہے۔ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام سے لے کر مشرق وسطیٰ میں تنازعات اور سرحد پار دہشت گردی سے ہائبرڈ جنگ تک پاکستان کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسروں کی طرح پاکستان کو بھی دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خطرات اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا خیال ہے کہ ان تمام حالات سے کامیابی سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون ناگزیر ہے خاص طور پر ایک ایسا نقطہ نظر جو بین الریاستی تعلقات اور بین الاقوامی قانون کے وقتی اصولوں کی پاسداری، مساوی سلامتی میں اعتماد کی تجدید، بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینے اور باہمی تعاون پر مبنی کثیرالجہتی کو مضبوط کرتا ہے۔افغانستان کے بارے میں پاکستان کے خصوصی نمائندے سفیر آصف درانی نے کہا کہ پاکستان کا پڑوس چیلنجز اور تنازعات سے دوچار ہے جس میں بڑی طاقت کی دشمنی مزید بڑھ گئی ہے۔

ماضی میں ایرانی انقلاب، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور چین کے عروج نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے نئی مثالیں پیدا کیں۔ انہوں نے اس تشویش کی نشاندہی کی کہ یوکرائنی بحران کو سرد جنگ کی دشمنی کا احیاء سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل حماس تنازعہ نے عالمی جنگ کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ ایران اسرائیل تنازعہ اگر فوری طور پر نہ روکا گیا تو مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر بھی جا سکتا ہے۔ آصف درانی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا منفرد جغرافیہ اس کی جغرافیائی سیاسی اور جیو اکنامک قدر میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ یہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطوں کے درمیان میں واقع ہے۔ انہوں نے چار اہم عوامل پر روشنی ڈالی جو پاکستان کے علاقائی اور عالمی تناظر کو متاثر کرتے ہیں جن میں پاک بھارت تعلقات، افغانستان کی صورتحال، مشرق وسطیٰ سے پاکستان کی قربت اور پاک چین تعلقات شامل ہیں۔

سفیر آصف درانی نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، ایران چین تعلقات سلامتی اور اقتصادیات کے حوالے سے پائیدار شراکت داری کی بنیاد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت-امریکہ تعلقات، مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اتار چڑھائو اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ یہ چیلنجز تشویشناک ہیں لیکن یہ ایک مستحکم علاقائی پالیسی بنانے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔کنٹری ڈائریکٹر ایف ای ایس پاکستان نے اپنے خطاب میں میں کہا کہ ہم مشکل وقت میں جی رہے ہیں جبکہ عالمی نظام مغرب سے مشرق اور ’گلوبل سائوتھ‘ کی طرف منتقل ہو رہا ہے، یہ تبدیلیاں تنہائی میں نہیں ہو رہی ہیں، آج دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، جنوبی ایشیا میں کیے گئے فیصلوں کے اثرات پوری دنیا کے دیگر براعظموں اور خطوں پر پڑتے ہیں۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے مسائل کے بارے میں جو ایک باہمی خطرہ یا چیلنج ہیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان مسائل کے حوالے سے مکالمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، پاکستان ایک اہم پڑوس میں واقع ہے اور پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول کے ساتھ پاکستان کے لیے اپنی پوزیشن کو سمجھداری سے طے کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ماہرین تعلیم، پریکٹیشنرز، تھنک ٹینک کے ماہرین، سفارت کاروں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے ارکان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More