جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2024

لی ہی ٹائی کی اُس سیکس فیسٹیول سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں جس کی تشہیر انھوں نے جنوبی کوریا میں اپنی نوعیت کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس میلے کے طور پر کی تھی۔

اُن کا خیال تھا کہ اس سیکس فیسٹول (میلے) میں خصوصی طور پر مدعو کی گئی جاپانی پورن سٹارز کو دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد جوق در جوق چلے آئیں گے۔ اس میلے کے دوران ایک فیشن شو، سیکس ٹوائز کی نمائش اور بالغ افراد کے کھیلوں کے مقابلے بھی شامل کیے گئے تھے۔

تاہم اس فیسٹول کے انعقاد سے صرف 24 گھنٹے قبل ہی اسے منسوخ کر دیا گیا۔

جنوبی کوریا سیکس اور بالغوں کی تفریح کے بارے میں قدامت پسندانہ رویہ رکھتا ہے۔ عوامی سطح پر برہنہ پن پر پابندی عائد ہے اور ایک خاص حد سے زیادہ کے پورن پر مبنی مواد کی فروخت غیر قانونی ہے۔

لی ہی ٹائی کہتے ہیں کہ ’تقریبا ہر ملک میں ہی سیکس فیسٹیول ہوتا ہے لیکن جنوبی کوریا میں ایسا تفریحی کلچر موجود نہیں۔ میں اس ضمن میں پہلا قدم اٹھانا چاہتا تھا۔‘

واضح رہے کہ لی ہی ٹائی کی ’پلے جوکر‘ نامی کمپنی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے پورن تیار کرتی ہے، اور اس کمپنی نے حال ہی میں جنوبی کوریا میں اس نوعیت کی متعدد تقریبات کے انعقاد کا آغاز کیا۔

تاہم سیکس فیسٹول کے انعقاد سے ایک ماہ قبل سوون شہر، جہاں اس میلے کو منعقد ہونا تھا، میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ (لی ہی ٹائی اور ان کی کمپنی) خواتین کا استحصال کر رہے ہیں۔

اس تنظیم کا موقف تھا کہ یہ فیسٹیول دونوں صنفوں (مرد اور خواتین) کے لیے نہیں ہے اور زیادہ تر ٹکٹ خریدنے والے مرد ہیں۔

اس شہر کے میئر نے بھی ایک پرائمری سکول کے قریب فیسٹیول منعقد کیے جانے پر تنقید کی تھی اور حکام نے دھمکی دی تھی کہ اگر تقریب کا انعقاد کیا گیا تو کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔

لی ہی ٹائی اس پر مایوس ضرور ہوئے لیکن انھوں نے میلے کا مقام بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ تاہم ایک بار پھر کچھ ویسا ہی ہوا۔ فیسٹول کے انعقاد کے لیے بچوں کے سکول سے دور ایک نئی جگہ کا انتخاب کیا گیا تاہم حکام نے دوبارہ الزام لگایا کہ میلے میں ’سیکس سے جڑے مسخ شدہ تصورات کا پرچار ہو گا۔‘

یہ صورتحال دیکھتے ہوئے لی ہی ٹائی نے اس فیسٹول کے انعقاد کے لیے سیئول کے دریا پر لنگرانداز ایک بحری جہاز کو چُنا لیکن یہاں بھی مقامی کونسل کے دباؤ پر جہاز کے لیز ہولڈر نے دھمکی دی کہ اگر میلے کا انعقاد کیا گیا تو وہ راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی فراہمی بند کر دیں گے۔

ہر بار لی ہی کو میلے کی تقریبات میں ردوبدل کرنا پڑیں جبکہ مداحوں کی جانب سے ٹکٹ کی رقم واپس کرنے کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور یوں لی ہی کو اپنی جیب سے لاکھوں پاؤنڈ ادا کرنا پڑے۔

کسی اور حل کی تلاش میں لی ہی نے سیول کے مشہور گنگنم علاقے میں ایک زیر زمین بار کو میلے کو چنا اور اس بار انھوں نے اس مقام کو خفیہ رکھا۔ تاہم گنگنم کی مقامی کونسل نے سینکڑوں ریسٹورنٹس کو خط کے ذریعے متنبہ کیا کہ اگر کسی نے بھی اس میلے کے انعقاد کی حامی بھری تو اسے بند کر دیا جائے گا کیوں کہ کونسل کے مطابق یہ میلہ ’اخلاقی طور پر نقصان دہ ہے۔‘

اس خط کے باوجود اس مخصوص زیرزمین بار کے مالک نے لی ہی کا ساتھ دیا۔ لیکن اس بار جاپانی پورن سٹارز پیچھے ہٹ گئیں، جن کی ایجنسی نے کہا کہ فیسٹیول کے خلاف حکام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور خواتین سٹارز کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اُن پر فیسٹول کے دوران حملہ کیا جا سکتا ہے۔

گینگنم میں اپنے دفتر سے لی ہی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس ’ناقابل یقین صورتحال پر پریشان‘ ہیں اور ان کو ’قتل کرنے کی دھمکیاں تک مل رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کوئی غیر قانونی کام کیے بغیر میرے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کا فیسٹیول قانونی حدود کے اندر ہی ہونا تھا کیوں کہ اس کے دوران کوئی جنسی عمل یا برہنہ پن کا مظاہرہ نہیں ہونا تھا۔ اُن کے مطابق گذشتہ سال وہ ایک ایسی ہی تقریب کا انعقاد کر چکے ہیں جس کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی تھی۔

پلے جوکر کمپنی نے ماضی میں شہ سرخیوں کی تلاش میں اس نوعیت کے کئی کام کیے ہیں۔ گذشتہ سال سیئول کی گلیوں میں ایک خاتون کو صرف ایک کارڈ بورڈ باکس پہنا کر پریڈ کروائی گئی جس کے دوران لوگوں کو ڈبے میں ہاتھ ڈال کر چھاتی کو چھونے کی دعوت دی گئی۔

لی ہی کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی کوریا میں سیکس اور پورنوگرافی سے جڑے روایتی رویوں اور سوچ کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حکام دوغلے ہیں۔ اگر آپ آن لائن جائیں تو سب پورن شیئر کرتے ہیں، پھر لوگ سکرین بند کر دیتے ہیں اور ظاہر کرتے جیسے وہ معصوم ہیں۔ ہم اس دکھاوے کو کتنا عرصہ چلائیں گے؟‘

اگرچہ بین الاقوامی پورن سائٹس تک جنوبی کوریا سے رسائی ممکن نہیں تاہم عوام کی اکثریت وی پی این کے ذریعے سرکاری انٹرنیٹ پر عائد قدغنوں کا توڑ نکالنا جانتی ہے۔

سوون میں جس خواتین گروہ نے سیکس فیسٹیول کے خلاف احتجاج کیا اُن کی جانب سے اس کی منسوخی کو ’فتح‘ قرار دیا گیا۔

گو ین چائی ایک ایسی ہاٹ لائن کی ڈائریکٹر ہیں جو گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو مدد فراہم کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فیسٹیول کے منتظمین جو مرضی کہیں، یہ سیکس کا جشن نہیں تھا بلکہ خواتین کا استحصال اور ان کی نمائش تھی اور سیکس انڈسٹری خواتین کے خلاف تشدد کو فروغ دیتی ہے۔‘

گو ین چائی اور دیگر خواتین کے حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ جنوبی کوریا میں جنسی تشدد اور استحصال کا مسئلہ موجود ہے جس پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ہماری ثقافت میں داخل ہو چکا ہے اور مردوں کے پاس جنسی خواہشات کے اظہار کے لیے نہ ختم ہونے والے مواقع ہیں جس کے لیے کسی میلے کی ضرورت نہیں۔‘

بیئی جیونگ ویون سیجونگ یونیورسٹی میں جنسیات اور ثقافت کی استاد ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’فیسٹیول کے ساتھ منسلک ایک مسئلہ یہ تھا کہ یہ مردانہ شائقین کے لیے تیار ہوا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں خواتین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی کافی مثالیں موجود ہیں اور اسی لیے خواتین استحصال کے معاملے کو لے کر حساس ہیں۔‘ سنہ 2022 میں حکومتی وزارت صنف کے ایک سروے کے مطابق ایک تہائی خواتین کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی زندگی میں جارحانہ جنسی رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بیئی جیونگ ویون کا کہنا ہے کہ ’جنوبی کوریا میں سیکس کے بارے میں منفی طریقے سے بات کرنے کی ایک تاریخ موجود ہے یعنی تشدد اور استحصال کی شکل میں نہ کہ مثبت طریقے سے۔‘

گینگنیم، جہاں یہ فیسٹیول ہونا تھا، کی اکثریتی نوجوان آبادی اپنی اپنی صنف کے حساب سے تقسیم نظر آئی۔ مون جانگ وون نے کہا کہ ’یہ پورنوگرافک نہیں ہے اور نہ ہی کچھ غیر قانونی ہو رہا تھا۔ تو میرے خیال میں اس کا راستہ نہیں روکنا چاہیے تھا۔‘

35 سالہ لی جی ییونگ نے کہا کہ وہ مقامی کونسلز سے ہمدردی رکھتی ہیں اور ان کے لیے ’سیکس کی تجارت کرنے والا فیسٹیول گھناؤنا فعل ہے۔‘ تاہم اکثریت کا اس بات پر اتفاق تھا کہ فیسٹیول پر پابندی لگا کر حکام اپنی حد سے کچھ آگے بڑھ گئے۔

34 سالہ یوو جو نے کہا کہ ’پابندی قدیم اور قدامت پسند سیاست دانوں کا فیصلہ تھا جو زیادہ عمر کے ووٹر کو راغب کرنا چاہتے ہیں اور جن کی نسل اب بھی سمجھتی ہے کہ سیکس کو چھپا کر رکھنا چاہیے۔ لیکن نئی نسل کے رویے بدل رہے ہیں۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے دوست کھل کر سیکس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

جنوبی کوریا کی سیاست میں قدامت پسندانہ روایتی اقدار اب بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ گذشتہ سال سیئول سٹی کونسل نے ایل جی بی ٹی کی پریڈ کو مسیحی گروہوں کی مخالفت کے بعد روک دیا تھا۔

فیسٹیول منتظمین کا کہنا ہے کہ حکام نے لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار سے روکا جبکہ خواتین کا ماننا ہے کہ ان کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ پلے جوکر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ جون میں پھر سے فیسٹیول کے انعقاد کی کوشش کریں گے جو پہلے سے بڑا ہو گا۔

لی ہی کا دعویٰ ہے کہ اس بار بہت سے سیاستدان ان کے ساتھ ہیں۔ سیئول کے میئر نے حال ہی میں اپنے یو ٹیوب چینل پر یہ بیان دیا کہ ان کا شہر مستقبل میں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہے گا۔ ایسے میں ملک کے حکام کو شاید اس پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ سوچنا ہو گا۔

جیک کوون اور ہوسو لی کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔

عریانیت کے لیے مشہور ویب سائٹ کا جنسی مواد پر پابندی کا اعلان'ہمارے والدین خفیہ طور پر پورن کی سلطنت چلارہے تھے'نو عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے تیار کرنے والی گیلین میکسویل کون ہیں؟’کیا آپ کی فلم اس لیے تو نہیں بنائی گئی کیونکہ آپ کو یہ پسند ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More