عام انتخابات کے بعد ضمنی الیکشن، سیاسی جماعتیں اِتنی خاموش کیوں؟

اردو نیوز  |  Apr 20, 2024

پاکستان میں عام انتخابات کے عمل کو مکمل ہوئے اڑھائی ماہ ہونے کو ہیں اور بلوچستان کابینہ کی تکمیل کے بعد ملک میں حکومتی سازی کا مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں جو امیدوار ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے اُن کی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر پہلی بار ملک بھر میں ضمنی الیکشن ایک ہی دن یعنی اتوار 21 اپریل کو ہو رہے ہیں۔

اتوار کو ہونے والے ان ضمنی انتخابات پر خاموشی کی چھاپ ویسی ہی دکھائی دے رہی ہے جیسی فروری میں ہونے والے عام اتنخابات سے پہلے تھی۔ اگرچہ عام انتخابات سے دو ہفتے قبل ن لیگ کی جانب سے جلسوں کے آغاز کے بعد کچھ ہلچل شروع ہو گئی تھی، تاہم ان ضمنی انتخابات میں تو حکمران جماعت بھی مکمل طور پر خاموش دکھائی دی۔سیاسی مبصرین کے مطابق عام انتخابات کے بعد جس طرح دھاندلی کا شور مچا اس تناظر میں یہ ضمنی الیکشن سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے بیانئے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے۔تاہم نہ تو حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور نہ ہی اپوزیشن میں بیٹھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گراؤنڈ یا سوشل میڈیا پر کسی قسم کی انتخابی مہم نظر آئی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جمعے کی رات 12 بجے انتخابی مہم کا وقت بھی ختم ہوگیا۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی کل 23 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے قومی اسمبلی کی 6، پنجاب اسمبلی کی 12، خیبر پختونخوا اسمبلی کی دو، سندھ اسمبلی کی ایک اور بلوچستان اسمبلی کی دو نشستوں پر معرکہ ہو گا۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمہ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہماری مرکزی قیادت ضمنی انتخابات میں اس لیے نظر نہیں آئی کیونکہ ہم حکومت میں ہیں اور الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق حکومتی عہدیدار انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا۔‘ 

مسلم لیگ ن کا کوئی بھی مرکزی رہنما پارٹی کی ضمنی الیکشن کی مہم میں شریک نہیں ہوا (فائل فوٹو: روئٹرز)

’جہاں تک ڈور ٹُو ڈور انتخابی مہم کا تعلق ہے تو جہاں جہاں ہمارے امیدوار کھڑے ہیں انہوں نے اپنی مہم چلائی، ضمنی الیکشن میں عوام ترقی کو ووٹ دیں گے اور بتائیں گے کہ مسلم لیگ ن کا مینڈیٹ پہلے کی طرح ہی موجود ہے۔ ‘وزیر اطلاعات پنجاب عظمہ بخاری کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن مسلم لیگ ن کی وہ قیادت جو حکومت میں نہیں ہے وہ بھی انتخابی مہم کے دوران کہیں نظر نہیں آئی۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق سمیت کوئی بھی مرکزی رہنما نہ تو خود ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے اور نہ ہی پارٹی کی ضمنی الیکشن کی مہم میں شریک ہوا۔ہمارے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں الیکشن مہم کیسے چلاتے؟‘ احمد خان بھچردوسری طرف پنجاب میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے ضمنی انتخابات میں پارٹی کی جانب سے مہم نہ چلائے جانے کا سارا ملبہ حکومت اور الیکشن کمیشن پر ڈال دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے اوپر اتنی پابندیاں ہیں جو اس وقت بھی کم نہیں ہو رہیں، ہمیں نہ تو الیکشن مہم چلانے کی اجازت دی گئی اور نہ ہمارے خلاف مقدمات میں کوئی کمی آئی ہے۔‘

ضمنی الیکشن کے لیے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر بھی کوئی انتخابی مہم دکھائی نہیں دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ہمارے خلاف بات بات پر مقدمات بنانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ دھاندلی کے خلاف شروع کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد سے یہ سلسلہ رُک نہیں پا رہا۔‘خیال رہے کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی الیکشن مہم زیادہ تر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے چلائی تھی اور انتخابی نشان نہ ہونے کے باوجود اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے میں کامیاب رہی، تاہم اب سوشل میڈیا پر بھی کوئی مہم دکھائی نہیں دی۔پاکستان میں انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم ’پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’ضمنی انتخابات میں اتنی خاموشی عام انتخابات کا تسلسل ہی ہے۔‘’حالیہ تاریخ میں یہ خاموش ترین الیکشنز تھے۔ ایک ہی وقت میں یہ بات غیر معمولی بھی ہے اور عام بھی۔ غیر معمولی اس لیے کہ پاکستان میں جمہوری عمل متاثر ہوا ہے اور تحریک انصاف کو سیاسی مہم چلانے نہیں دی گئی جو کہ خطرناک بات ہے۔‘ان کے مطابق ’یہ عمومی بات اس لیے ہے کہ عوام کو پتا ہے کہ ان  ضمنی انتخابات کے نتائج سے نہ تو موجودہ حکومت کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی کسی دوسری جماعت کو۔‘

موجودہ ضمنی الیکشنز کے نتائج مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیے کی تائید یا تردید ضرور کریں گے (فائل فوٹو: ڈی ایف آئی ڈی)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ گہما گہمی نہیں ہے۔ ویسے تو ضمنی انتخابات میں ویسے ہی کم سرگرمیاں ہوتی ہیں اور ان الیکشنز میں اور زیادہ کم اس لیے بھی ہیں کہ عام انتخابات کون سے بارونق ہوئے تھے؟‘یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد ضمنی الیکشنز ایک بڑے معرکے کے طور پر سامنے آئے تھے جب مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں زیادہ تر سیٹیں جیت لی تھیں۔ تاہم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 15 سیٹیں جیت کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسے آج بھی ضمنی انتخابات کو ایک بڑا معرکہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ ضمنی الیکشنز میں اگرچہ خاموشی ضرور ہے، تاہم ان کے نتائج مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانیے کی تائید یا تردید ضرور کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More