’اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 12 افراد بھی شامل ہیں۔ یہ سب لوگ ماضی کی طرح اس سال بھی شاہنورانی کی درگاہ جا رہے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کی ٹاؤن کمیٹی ’مکلی‘ کے وائس چیئرمین فدا حسین شاہ کا جو بی بی سی کو صوبہ بلوچستان کی حدود پیش آنے والے اس حادثے کی تفصیلات بتا رہے تھے جس میں اُن کے علاقے کے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ حادثہ بدھ (عید الفطر کی روز) کی شام اُس وقت پیش آیا جب بلوچستان کے ضلع حب کے علاقے ویرآب میں موڑ کاٹتے ہوئے زائرین سے بھرا ایک ٹرک گہری کھائی میں جا گِرا۔ ٹرک پر سوار تمام افراد کا تعلق سندھ کے سرحدی ضلع ٹھٹھہ سے تھا اور وہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے میں واقع معروف درگاہ شاہ نورانی جا رہے تھے۔
اس حادثے میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 40 زخمی ہیں۔
فدا حسین شاہ بتاتے ہیں کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے اور اُن میں سے بیشتر افراد کی آپس میں قریبی رشتہ داریاں تھیں۔
فدا حسین کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں غلام نبی کا خاندان بھی شامل ہیں۔ ’اس حادثے میں غلام نبی کے ساتھ ساتھ ان کا ایک بیٹا، بھانجا، بھائی، چچا اور بھانجے بھتیجے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔‘
فدا حسین کے مطابق متاثرہ خاندان پتھر توڑنے کے کام سے منسلک تھے اور یہی ان کا روزگار تھا۔ ’وہ پتھر توڑتے تھے جو عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوتا ہے۔ متاثرہ خاندانوں کی مالی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔‘
فدا حسین نے بتایا کہ بلوچستان میں واقع شاہ نورانی کی درگارہ پر ہر سال ماہ رمضان میں میلہ لگتا ہے جس کے بعد عید کے موقع پر ضلع ٹھٹہ اور اس سے منسلک علاقوں میں بسنے والے شاہ نورانی کے مریدین حاضری کے لیے درگارہ جاتے ہیں۔ ’اپنے ہر سال کے معمول کی طرح اس عید پر بھی یہ زائرین درگارہ پر حاضری کے لیے جا رہے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔‘
فدا حسین شاہ کا کہنا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں جو درگاہ تک جانے کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ بھی افورڈ نہیں کر پاتے چنانچہ وہ اسی ہاف باڈی ٹرک پر اپنے علاقے سے روانہ ہوئے تھے جسے وہ پتھر لوڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
Getty Imagesشاہ نورانی کے مزار تک جانے والا رستہ دشوار گزار ہے اور ملک بھر سے زائرین یہاں پہنچتے ہیں (فائل فوٹو)
بشیر احمد ’مکلی‘ کے سابق ناظم اور علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ غلام بنی کا ایک بیٹا اِس وقت بھی کراچی کے ہسپتال میں شدید زخمی حالت میں زیرعلاج ہیں۔ غلام نبی کا والد فالج کا شکار ہیں اور وہ جنازے میں بھی شرکت نہیں کر سکے۔
انھوں نے کہا کہ ایک ہی خاندان کے 12 افراد کی قبریں تیار کرنا اور پھر تدفین کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ’یہ اس علاقے میں پیش آنے والا ایک ایسا واقعہ ہے جسے بہت عرصے تک کوئی علاقہ مکین بھول نہیں جائے گا۔‘
اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں دو سگے بھائی اللہ پرایو اور امین بھی شامل ہیں۔ اللہ پرایو کے ایک رشتہ دار کا کہنا تھا کہ اُن کے عزیز اللہ پرایو تقریباً ہر سال ہی درگاہ حاضری کے لیے جاتے تھے۔
واقعہ میں صاحب نامی والد اور ان کے بیٹے سہراب بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے ایک قریبی عزیز مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان کے افراد ہر سال حاضری کے لیے شاہ نورانی کی درگارہ جاتے ہیں۔ چونکہ رمضان کے مہینے میں مزدوری کم ہوتی ہے تو تقریباً سب ہی لوگوں کو فرصت ہوتی ہے اس لیے درگاہ سلام کے لیے چلے جاتے ہیں۔‘
مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ’دونوں باپ بیٹا بھی میلے میں شریک ہوئے تھے اور اب سلام کرنے بھی درگارہ جا رہے تھے۔ صاحب کا ایک اور بیٹا بھی تیار تھا مگر پھر کسی وجہ سے رُک گیا تھا۔ ہمارا علاقہ سالوں سے سخی شاہ بلاول نورانی کا مرید ہے۔‘
ضلع حب کے اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ آف پولیس احمد طلحہ نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ حادثے کے بعد ابتدا میں تمام ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کو کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
حب سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اسماعیل ساسولی کے مطابق جس علاقے میں حادثہ پیش آیا وہ کافی دشوار گزار ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’شاہ نورانی کراس سے لے کر شاہ نورانی درگاہ تک کا علاقہ کافی دشوار گزار ہے جہاں باہر سے آنے والے ڈرائیوروں کو راستے کے بارے میں معلومات زیادہ نہ ہونے اور سڑک کے ٹوٹنے کے باعث حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ علاقے میں کمیونیکیشن کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ دشوار گزار علاقے میں حادثے کی صورت میں رابطے وغیرہ کے مسائل کے باعث ریسکیو میں بھی بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے جس کے باعث انسانی جانوں کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے۔‘
شاہ نورانی کا مزار کہاں واقع ہے؟Getty Imagesشاہ نورانی کے مزار کا اندرونی منظر
شاہ نورانی کا مزار بلوچستان کے تاریخی اور سیاسی حوالے سے اہمیت کے حامل ضلع خضدار میں واقع ہے۔
ضلع خضدار کے ساتھ جنوب مشرق میں بلوچستان کے دو اضلاع حب اور لسبیلہ واقع ہیں جن کی سرحدیں صوبہ سندھ سے متصل ہیں۔
شاہ نورانی کا مزار ضلع خضدار میں ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے جو کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر خضدار شہر سے اندازاً 270 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
درگاہ کے خلیفہ غلام حسین نے بتایا کہ اس مزار پر سندھ اور بلوچستان سمیت ملک بھر سے زائرین آتے ہیں۔ زائرین کی بڑی تعداد اس درگاہ تک پہنچنے کے لیے کوئٹہ کراچی شاہراہ استعمال کرتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی سے شاہ نورانی کا فاصلہ حب کے شمال مشرق میں اندازاً ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
خلیفہ غلام حسین کے مطابق حب سے شاہ نورانی تک روڈ بہتر ہے اور لوگ آسانی کے ساتھ گاڑیوں میں آتے اور جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حب کے راستے گاڑیوں میں شاہ نورانی کے مزار تک گاڑیاں آ سکتی ہیں تاہم اگر ٹریفک بہت زیادہ ہو تو گاڑیوں کے پھنس جانے کے خدشے کے پیش نظر مزار سے کچھ فاصلے پر بڑی گاڑیوں کو روک دیا جاتا ہے اور وہاں سے آگے دیسی ساختہ ’کیکڑے‘ نامی گاڑیوں میں زائرین کو مزار تک پہنچایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ نومبر 2013 میں شاہ نورانی کے مزار پر ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کا تعلق کراچی اور سندھ سے تھا۔
Getty Imagesبعض زائرین پیدل شاہ نورانی کے مزار تک آنے کی منت مانتے ہیں (فائل فوٹو)شاہ نوارانی کون تھے؟
بلوچستان میں جن معروف صوفی بزرگوں کے مزار اور درگاہیں موجود ہیں اُن میں شاہ نورانی کا درگاہ بھی شامل ہے۔
خلیفہ غلام حسین موجودہ وقت میں اس درگاہ کے متولی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شاہ نورانی کا مکمل نام شاہ بلاول نورانی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُن کی پیدائش اور اس علاقے میں آمد کے بارے میں تحریری طور پر زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم روایات کے مطابق وہ اس علاقے میں لگ بھگ سات سو برس قبل آئے تھے۔
شاہ نورانی کا سالانہ عرس ہر سال 9، 10 اور 11رمضان کو منعقد کیا جاتا ہے جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے تاہم درگاہ پر زائرین کی آمد کا سلسلہ پورا سال جاری رہتا ہے۔
خلیفہ غلام حسین نے بتایا کہ شاہ نورانی معروف بزرگ لال شہباز قلندر کے ہم عصر بزرگوں میں سے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ روایت ہے کہ لال شہباز قلندر بھی حضرت سخی شاہ بلاول نورانی کے پاس اس علاقے میں آتے رہے ہیں۔ ’چونکہ حضرت لال شہباز قلندر وہاں سے پیدل آتے رہے ہیں، اس لیے لوگ آج بھی سیہون شریف اور سندھ سے پیدل آتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ بعض لوگ شاہ نورانی کے مزار تک ننگے پائوں آنے کی منت مانگتے ہیں اور یہ لوگ ننگے پاؤں ہی اس طویل مسافت کو طے کر کے یہاں آتے ہیں۔
پاکستان کی ’خونی‘ ہائی وے: کراچی سے واپسی پر بیٹی کا رشتہ طے ہونا تھا لیکن اُس کی جلی ہوئی لاش واپس گھر پہنچی‘لسبیلہ کوچ حادثے میں 41 افراد ہلاک: ’بس پل کی ریلنگ کے ساتھ چند میٹر تک رگڑ کھاتی رہی‘شاہ نورانی مزار میں دھماکہ، ’بیرونی سازش‘ کا دعویٰ