بی وائے ڈی: کیا ’ٹیسلا کِلر‘ پاکستان میں سستی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کروا سکے گی؟

بی بی سی اردو  |  Apr 09, 2024

Getty Images

چین کی سب سے بڑی الیکٹرک کار کمپنی بی وائے ڈی (بلڈ یور ڈریمز) نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دے کر ملک میں گاڑیوں، خاص طور پر الیکٹرک وہیکلز کے شوقین افراد کو نئے خواب دکھائے ہیں۔

پاکستان میں جہاں ایک طرف گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں وہیں دوسری طرف کار سیلز ریکارڈ گراوٹ کا شکار ہیں۔

گاڑیوں کی صنعت کو کن مشکلات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 24 کروڑ کی آبادی والے ملک میں گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران 50 ہزار سے بھی کم نئی گاڑیاں فروخت ہوئیں جس سے صارفین کی قوت خرید میں ایک بڑی کمی ظاہر ہوتی ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں بی وائے ڈی نے پاکستان میں ہی کیوں سرمایہ کاری کی بات کی اور کیا اس چینی کمپنی کے ملک میں آنے سے سستی الیکٹرک گاڑیوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی؟

’بی وائے ڈی کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی‘

پاکستان کے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے مطابق بی وائے ڈی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔

سرکاری سطح پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرنے اور ماحول دوست اقدامات کے لیے کوشاں ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اقدام گرین پراڈکٹس کو پاکستانی صارفین کے لیے مزید قابل رسائی بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔‘

’بی وائے ڈی اپنی الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں مقامی طور پر تیار کرے گا جس سے ملک رائٹ ہینڈ ڈرائیو گاڑیاں ایکسپورٹ کر سکے گا۔‘

دراصل گذشتہ ماہ کے اواخر کے دوران چین کے شہر شیان میں اس کمپنی کی ایشیا پیسیفک ڈیلر کانفرنس کے دوران بی وائے ڈی اور پاکستانی کمپنی میگا کانگلومیریٹ کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔

اس کی پریس ریلیز کے مطابق بی وائے ڈی پاکستان میں مقامی پارٹنر کے ساتھ مل کر بجلی سے چلنے والی کاریں متعارف کرائے گی۔

میگا کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر علی خان نے کہا ہے کہ 2024 کے دوران کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بی وائے ڈی کے شو روم کھولے جائیں گے جہاں صارفین براہ راست کمپنی کے پراڈکٹ خرید سکیں گے۔

اگرچہ ایک مشترکہ بیان میں دونوں کمپنیوں نے پاکستان میں پیسنجر گاڑیوں کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ بی وائے ڈی کی کون سی الیکٹرک کاریں متعارف کرائی جا رہی ہیں اور ملک میں اس حوالے سے کتنی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

جب بی بی سی نے میگا کانگلومیریٹ سے بذریعہ ای میل اس حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس معلومات کو رازداری میں رکھا گیا ہے اور آئندہ مراحل میں اسے عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

’پاکستان کے لیے اچھی ڈیل ہوسکتی ہے‘

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے پروفیسر نوید ارشد پاکستان میں گاڑیوں، خاص طور پر الیکٹرک وہیکلز کی صنعت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بی وائے ڈی چین اور دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی مارکیٹ میں ایک طرح کی اجارہ داری ہے، خاص طور پر الیکٹرک بسوں میں چاہے وہ امریکہ، جنوبی امریکہ یا یورپ میں ہوں۔

ان کی رائے میں ایک ایسی کمپنی کا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا خوش آئند ہوگا جس کے پاس جدید بیٹری ٹیکنالوجی ہے۔ ’بی وائے ڈی ان کم قیمتوں پر گاڑیاں بیچنے کے قابل ہوئی ہے جو دوسری کمپنیوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔‘

نوید ارشد بتاتے ہیں کہ بی وائے ڈی کی بعض الیکٹرک کاریں چین کے باہر بھی کافی مقبول ہیں۔ ’دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا بی وائے ڈی پاکستان میں ایک ڈیلر کے طور پر آتی ہے یا یہاں اسمبلی بھی شروع کریں گے جو زیادہ بڑی پیشرفت ہوگی۔‘

ادھر آٹو سیکٹر کے ماہر اور پارٹس مینوفیکچرر مشہود علی خان کہتے ہیں کہ بی وائے ڈی کا پاکستان آنا بظاہر ایک بہت اچھی ڈیل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بین الاقوامی کار کمپنی پاکستان میں سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کرتی ہے تو سب سے پہلے اس کی کاروں کی یہاں ابتدائی آزمائش کی جاتی ہیں۔

2023 کی آخری سہ ماہی کے دوران بی وائے ڈی نے دنیا بھر میں ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا سے بھی زیادہ الیکٹرک گاڑیاں فروخت کی تھیں جبکہ مجموعی سیلز میں ٹیسلا بی وائے ڈی سے آگے تھی تاہم بی وائے ڈی یقینی طور پر دنیا کی سب سے بڑی ای وی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

شہود بتاتے ہیں کہ اس ممکنہ سرمایہ کاری کے نتیجے میں ابتدائی طور پر کمپنی کی جانب سے سی بی یو (یعنی مکمل گاڑیاں) پاکستان میں امپورٹ کی جائیں گی اور آگے جا کر ہوسکتا ہے کہ اسمبلی کا منصوبہ بنایا جائے۔

ان کی رائے میں یہ منصوبہ اسی صورت کامیاب ہوسکتا ہے کہ اگر یہ طویل مدتی ہو، جس میں ملک میں گاڑیوں کی اسمبلی کا پلانٹ قائم کیا جائے کیونکہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ فی الحال اتنی بڑی نہیں۔

مشہود بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی الیکٹرک گاڑیاں آئی ہیں وہ سی بی یوز ہی ہیں اور مقامی سطح پر کوئی انفراسٹرکچر قائم نہیں ہوا کہ ہم بیٹری سسٹم یا چارجنگ یونٹ بنا سکیں۔ ’بی وائے ڈی کو انھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اس کا چین میں مضبوط انفراسٹرکچر موجود ہے جس میں وہ بیٹری، اسمبلی، پارٹس اور گاڑیاں سب خود ہی بنا رہا ہے۔ پاکستان میں اسے وہی وسائل لانے ہوں گے۔‘

یہ بھی پڑھیےالیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟پاکستان میں گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں اضافہ: ’اب 40 لاکھ روپے سے اوپر کی تمام کاریں ’لگژری‘ تصور ہوں گی‘Getty Imagesکیا بی وائے ڈی پاکستان میں سستی الیکٹرک کار لا سکے گی؟

تو کیا چین کی سب سے بڑی الیکٹرک کار کمپنی بی وائے ڈی کے آنے سے پاکستان میں سستی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی جاسکیں گی، پروفیسر نوید ارشد نے کہا کہ اچھی الیکٹرک کار کم از کم 25 ہزار ڈالر یعنی قریب 70 لاکھ پاکستانی روپے تک میں فروخت ہوتی ہے۔

اس وقت چین میں بی وائے ڈی کی چھوٹی الیکٹرک کار ’سیگل‘ کی قیمت 10 ہزار امریکی ڈالر یعنی قریب 30 لاکھ روپے ہے۔ یہ کمپنی پوری دنیا میں اپنی ایس یو وی کاروں کے لیے بھی جانی جاتی ہے جبکہ حال ہی میں اس کا برازیل میں پلانٹ زیرِ تعمیر ہے۔

تاہم نوید ارشد کے مطابق پاکستان میں ابتدائی طور پر بی وائے ڈی کی کاریں اتنی سستی تو نہیں ہوں گی لیکن ان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ضرور ہے کہ وہ چھوٹی بیٹریوں کے ساتھ چھوٹی گاڑیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ ’اگر ہم یہ کہیں کہ وہ (30 لاکھ روپے کی) آلٹو کو شکست دیں تو وہ فی الحال ممکن نہیں، اس کے لیے کئی برسوں کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ بی وائے ڈی فی الحال پاکستان میں درمیانے یا اونچے درجے کی مارکیٹ میں داخل ہو گی جس میں مارجن بہتر ہوتے ہیں۔

آٹو انڈسٹری کے ماہر مشہود کا بھی یہی خیال ہے کہ قوی امکان ہے کہ بی وائے ڈی بھی لگژری سیگمنٹ کو ٹارگٹ کرے اور اپنی سیڈان یا ایس یو وی کاریں پاکستان میں متعارف کرائے۔ ’پاکستان ترقی پذیر ملک ہے، الیکٹرک کاریں زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب ہوئی ہیں۔۔۔ یہاں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

ملک میں اب تک الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے ای وی خریدنے والے صارفین اکثر اسے روزمرہ استعمال کے دوران یا دوسرے شہر لے جانے سے کتراتے ہیں۔

نوید ارشد کے مطابق الیکٹرک کاروں کا آنا اور چارجنگ انفراسٹرکچر لگنا ’مرغی اور انڈے کے مسئلے کی طرح ہے۔ کسی کو تو کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس وقت 50 فیصد اضافی توانائی ہے لہذا توانائی کے شعبے کو چارجنگ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو مستقبل میں فائدہ دے سکتا ہے۔

نوید ارشد کہتے ہیں کہ اگر چینی الیکٹرک کار کمپنی بغیر منصوبہ بندی کے آتی ہے اور چارجنگ انفراسٹرکچر کی ذمہ داری نہیں لیتی تو ان کا صارف وہی لگژری سیگمنٹ ہوگا جن کے پاس اپنا گھر اور سولر چارجنگ کنیکشن اور بی وائے ڈی ان کی دوسری یا تیسری گاڑی ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں روایتی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد قدرے کم قیمت پر ملنے والی ایس یو ویز مقبول ہوئی ہیں اور کمپنیوں کے لیے بھی ان کاروں میں زیادہ مارجن ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بی وائے ڈی بھی اسی پرائس سیگمنٹ کو ٹارگٹ کر سکتی ہے۔

بی وائے ڈی سے قبل ملک میں مقامی سطح پر ایم جی، ہنڈائی اور سیرس کی الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی گئی ہیں اور امکان ہے کہ عالمی سطح پر اپنی کم قیمتوں کے لیے مشہور بی وائے ڈی کا مقابلہ انھی کمپنیوں سے ہوگا۔

دریں اثنا مشہود کہتے ہیں کہ کسی بھی نئی کمپنی کی طویل مدتی منصوبہ بندی اہم ہوتی ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا چینی کمپنی پاکستان کو لیفٹ ہینڈ ڈرائیو کی برآمدات کے لیے ایک مرکز کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ’اس سے بلیو کالر ورکرز کے لیے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں اس سے کاروں کی صنعت میں ملکی برآمدات کے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ یہاں تاحال کوئی بھی کار کمپنی گاڑیاں برآمد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

جب ہم نے نوید ارشد سے پوچھا کہ آیا بی وائے ڈی کی رائٹ ہینڈ گاڑیاں مستقبل میں پاکستان سے برآمد بھی ہوسکیں گی تو ان کا جواب تھا کہ یہ مارکیٹ صرف انڈیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال یا افریقی ممالک میں ہے تاہم یہ سوالیہ نشان ہوگا کہ اگر ہم وہاں ایکسپورٹ کر سکیں۔

’برآمد کی بجائے اگر ہم ان کاروں کو صرف یہاں بنا کر بیچیں تو یہ امپورٹ کے متبادل کے طور پر کارآمد ہو گا۔ الیکٹرک گاڑیاں کم توانائی استعمال کرتی ہیں اور اس سے فیول امپورٹ بل کم ہوسکے گا تاہم اس کے لیے باقی اجزا بھی درکار ہوں گے۔‘

پاکستان میں 24 لاکھ کی ’سستی‘ الیکٹرک کار کیا پیٹرول سے مکمل نجات دلا پائے گی؟شیاؤمی الیکٹرک کار: 24 گھنٹے میں 89 ہزار آرڈر، خریداروں کے لیے چھ مہینے کا انتظارالیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟’ایک چارج میں 1200 کلومیٹر‘: ٹویوٹا کا حیرت انگیز دعویٰ کیا الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دے گا؟پاکستان کی سڑکوں پر الیکٹرک کار چلانے کا تجربہ کیسا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More