Getty Images(فائل فوٹو)
ہندوستان میں 300 سال تک حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کے دور میں رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان 11 توپوں سے گولے داغنے سے ہوتا تھا۔
مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی ڈائری ’تزک بابری‘ میں تحریر ہے کہ ’بابر روزے بھی رکھتے تھے اور نمازیں بھی قضا نہیں کرتے تھے لیکن شراب اور معجون کے رسیا تھے۔‘
ایک جگہ بابر لکھتے ہیں کہ ’شام کو پیزادی مقام پر پہنچا، وہاں کے قاضی کے یہاں روزہ افطار کیا اور شراب کی محفل منعقد کرنے کی ٹھانی، لیکن قاضی نے تنبیہ کی۔ قاضی کے احترام میں، میں نے شراب کی محفل ملتوی کر دی۔‘
اِسی کتاب سے بابر کے نفلی روزے رکھنے کا بھی پتا چلتا ہے۔
’تزک بابری‘ کا تصویری ایڈیشن سنہ 1589 میں فرخ بیگ نے تیار کیا۔ اس میں ایک تصویر میں شہنشاہ بابر 1519 میں رمضان کے اختتام کی خوشی میں بوٹنگ پارٹی کے بعد حالتِ نشہ میں کیمپ میں گھوڑے پر دیر سے لوٹ رہے ہیں۔ خدام پیدل اُن کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں، ایک لالٹین لے کر جبکہ دوسرے کے پاس شراب کی بوتل ہے۔
بابر نے ہندوستان آنے کے بعد شراب پینے سے توبہ کر لی تھی مگر معجون کا نشہ ترک نہیں کیا۔
ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’مغل دربار‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں مغل حکمرانوں میں بابر نے سب سے پہلے ’دین‘ پر ختم ہونے والا خطاب اختیار کیا یعنی ظہیرالدین محمد بابر پادشاہ غازی۔
’ان کے بعد ان کے جانشینوں نے اس روایت کو جاری رکھا۔ ناصرالدین محمد ہمایوں پادشاہ غازی، جلال الدین محمد اکبر پادشاہ غازی، نور الدین محمد جہانگیر پادشاہ غازی، شہاب الدین شاہ جہاں پادشاہ غازی، محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر۔‘
ہمایوں بھی روزے تو رکھتے ہوں گے، گل بدن بیگم کی کتاب ’ہمایوں نامہ‘ سے البتہ اُن کے افیم استعمال کرنے کا بارہا تذکرہ ہوتا ہے۔
مؤرخ عبد القادر بدایونی نے لکھا ہے کہ ہمایوں ’سخی ایسے تھے کہ محکمہ مالیات کے کارکن اُن کے سامنے نقد روپیہ نہیں لاتے تھے اور شریف ایسے کہ ان کی زبان پر کبھی گالی نہیں آئی۔‘
ثروت صولت ’ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ شروع میں اکبر نماز باجماعت پابندی سے پڑھتے تھے، خود اذان دیتے تھے، امامت کرتے تھے اور مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتے تھے لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ سے بے اعتنائی برتی جاتی۔
بدایونی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اکبر نے نماز، روزہ اور حج پر پابندی لگا دی تھی لیکن سری رام شرما نے اپنی کتاب ’دی رلیجس پالیسی آف مغلز‘ میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اکبر نے خود یہ عمل موقوف کر دیے ہوں لیکن پابندی نہیں لگائی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’کم از کمسنہ 1582 کا تو ثبوت موجود ہے کہ روزے رکھے جا رہے تھے اور اسی سال گل بدن بیگم حج سے لوٹی تھیں اور اُن کا شاہی استقبال ہوا تھا۔‘
جان ایف رچرڈز اپنی کتاب ’دی مغل ایمپائر‘ میں بتاتے ہیں کہ اکبر اپنی مَنت نبھاتے ہوئے خواجہ معین الدین چشتی کے مزار تک پیدل گئے۔ ’رمضان کے مہینے میں وہاں مزار کا طواف کیا، غربا میں تحفے تقسیم کیے اور دس روز بعد آگرہ آ گئے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ اکبر کا یہ دستور تھا کہ ہمیشہ اپنے ساتھ نقدی رکھا کرتے تھے اور مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔
تزک جہانگیری سے پتا چلتا ہے کہ ’اپنے (اپنی حکومت کے) تیرھویں سال میں جہانگیر نے رمضان کے روزے رکھے اور مقامی علما اور سیدوں کے ساتھ افطار کیا۔‘
ڈاکٹر مبارک کے مطابق جہانگیر علما کے ذریعے غریبوں میں خیرات تقسیم کرتے تھے۔ ’ذاتی طور پر ایک مرتبہ انھوں نے پچپن ہزار روپے، ایک لاکھ نوے ہزار بیگہ زمین، 14 گاؤں اور 11 ہزار چاول سے لدے خچر درویشوں میں تقسیم کیے۔‘
امرا بھی افطار کا اہتمام کرتے تھے۔ مبارز خان شہنشاہ جہانگیر کے دور میں مغل سلطنت کے ایک کمانڈر تھے۔ ان کی ایک مہم رمضان میں آن پڑی۔
مغلوں کی روایت تھی کہ رمضان میں ہر روز ایک دوسرے کے کیمپ میں ضیافت کی جاتی تھی۔ رمضان کے آخری دن (30 رمضان 1020 ہجری یا 5 دسمبر 1611) ضیافت مبارز کے کیمپ میں ہونا تھی۔ ایک بڑا جشن منایا گیا جب امرا نے اپنا روزہ کھولا اور چاند دیکھا۔ توپیں چلائی گئیں۔
’بہارستان غیبی‘ کے مصنف مرزا نتھن نے اس موقع پر ہونے والے جلوسوں کا موازنہ زلزلے سے کیا۔
محمد صالح کمبوہ لاہوری کی کتاب ’عمل ِصالح‘ کے مطابق سنہ 1621 میں شراب چھوڑنے کے بعد شہزادہ خرم نے بنگال اور بہار میں اپنے عہدے کے دوران رمضان کے سارے روزے رکھے۔ ان کے فیصلے پر مرزا نتھن حیران ہوئے اور کہا کہ ’گرمی اتنی تھی کہ انسان اور جانور بڑی مشکل میں تھے اور کم ہی لوگ روزہ رکھ پائے۔ شدید گرمی کےباوجود شہزادے نے روزے رکھے۔‘
مونس ڈی فاروقی ’دی پرنسز آف دی مغل ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ مرزا نتھن ہی شہزادہ خرم سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ ’اسی وجہ سے بنگال کے صوفیوں اور علما کی بڑی تعداد نے جہانگیر کے خلاف بغاوت میں ان کا ساتھ دیا۔‘
خرم ، شاہ جہاں بنے تو مسلمانوں کے تمام تہوار باقاعدگی سے شاہی شان و شوکت کے ساتھ منائے جانے لگے۔
لاہوری کے مطابق ’خیراتی اداروں میں تقسیم کے لیے سالانہ 70 ہزار روپے مقرر کیے گئے، ماہ رمضان میں 30 ہزار روپے، محرم، رجب، شعبان اور ربیع الاول کے مہینوں میں 5 ہزار روپے تقسیم کیے گئے۔‘
مغل تہذیب شاہ جہاں کے عہد میں عروج پر تھی۔ سلمیٰ یوسف حسین کی تحقیق ہے کہ ’کھانا رنگا رنگ، پرُ ذائقہ اور آباؤ اجداد کے کھانوںسے مختلف تھا۔ یہ رواج تھا کہ شہنشاہ کھانے سے پہلے غریبوں کے لیے کھانے کا ایک حصہ الگ کر دیتے تھے۔ شہنشاہ دعا کے ساتھ کھانا شروع اور ختم کرتے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ اکبر سے لے کر شاہجہاں کے زمانے تک سب سے زیادہ شان و شوکت سے منایا جانے والا تہوار نوروز تھا۔
اورنگزیب عالمگیر نے عیدین کو نوروز سے زیادہ شوکت و اہتمام سے منانا شروع کیا۔
Getty Images(فائل فوٹو)
’عالمگیر نے اپنی تخت نشینی کے کچھ عرصہ بعد نوروز کے تہوار کو ختم کر دیا اور اس کی بجائے عید الفطر اور عید الاضحیٰ اور رمضان کے دنوں میں افطار کی تقاریب کو ترجیح دی گئی۔‘
عید الفطر کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہو گئی کہ اُن کی تخت نشینی اس کے قریب قریب ہوئی تھی یعنی رمضان میں۔ اورنگزیب نے اپنی تخت نشینی کے جشن کو عید تک بڑھا کر دونوں کو ملا دیا۔
عالمگیر نماز روزےپر سختی سے کاربند رہتے۔ ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتے اور رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے۔ اسی طرح ہفتہ میں تین دن پیر، جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھتے۔ وہ دن رات میں صرف تین گھنٹے سوتے۔
سیاح برنیئر نے لکھا کہ جب اورنگزیب دلی پہنچے تو جون کا مہینا تھا اور سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اورنگزیب نے اس گرمی میں رمضان کے پورے روزے رکھے۔ وہ روزے کے باوجود حکومت کے سارے کام کرتے۔ شام ہوتی تو روزہ افطار کرتے۔ افطار میں وہ جوار اور مکئی کی روٹی کھاتے، پھر تراویح پڑھتے اور رات کا زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے۔
عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔ آخری مغل بادشاہ تو انگریزوں کے وظیفے پر چلتے تھے لیکن پھر بھی رمضان کا اہتمام خوب خوب ہوتا۔
چاند نظر آنے پرجو عالم ہوتا اس کا احوال اپنی کتاب ’بزمِ آخر‘ میں منشی فیض الدین دہلوی یوں لکھتے ہیں کہ ’سب بیگماتیں (بیگمات)، حرمیں (کنیزیں، بیویاں)، سُرتیں (ہشیار عورتیں)، ناموسیں (زنان خانہ)، چپی والیاں (پاؤں دبانے والیاں)، گائنیں (گانے والی عورتیں)، شاہ زادے، شاہ زادیاں مبارک باد کو آئیں۔ تاشے باجے، روشن چوکی (بادشاہ کی سواری کے ساتھ چلتے باجے والے)، نوبت (نقارہ) خانے والیاں مبارکباد بجانے لگیں۔‘
یہ مبارک یکطرفہ نہ ہوتی۔ بادشاہ کے ہاں سے پنیر کی چکتیاں، مصری کے کوزے سب کو تقسیم ہوئے۔
اس جشن کے بعد تراویح کا اہتمام یوں ہوتا کہ’عشا کی اذان ہوئی، دیوان خاص میں نماز کی تیاری ہوئی۔ باریدار نے عرض کیا کرامات! جماعت تیار ہے۔ بادشاہ برآمد ہوئے، جماعت سے نماز پڑھی، ڈیڑھ سپارہ قرآن شریف کا تراویحوں (تراویح) میں سنا؛ پھر بیٹھک میں آئے، کچھ بات چیت کی، بھنڈا (حقہ) نوش کر پلنگ پر آرام کیا۔‘
سادہ زبان میں کہیں تو روزے میں فجر کی اذان سے مغرب کی اذان تک کھانا پینا منع ہوتا ہے۔ کیمبرج اکنامک ہسٹری کے مطابق غریب لوگ ویسے بھی دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھانے کی سکت رکھتے تھے۔ تھوڑے بہت خوشحال لوگ البتہ دن میں دو مرتبہ کھا لیتے تھے۔
’غریب آدمی کی غذا میں گیہوں شامل نہیں تھا بلکہ چاول، جوار، باجرہ اور دالیں کھاتا تھا اور ترکاریوں کا استعمال زیادہ کرتا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیےریشم اور سونے کے شامیانے،عالیشان دعوتیں، کھیل تماشے: مغل اور عثمانی حکمران عید کیسے مناتے تھے؟مغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہوااکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھی
ادھر مغل دربار میں سحری کی تیاری کا احوال فیض الدین یوں لکھتے ہیں کہ ’ڈیڑھ پہر رات باقی رہی، اندر محل، باہر نقارخانے اور جامع مسجد میں پہلا ڈنکا سحری کا شروع ہوا، سحری کے خاصے کی تیاری ہونے لگی۔ دوسرے ڈنکے پر دستر خوان چننا شروع ہوا۔ تیسرے ڈنکے پر بادشاہ نے سحری کا خاصہ (بادشاہ کے لیے مخصوص کھانا) کھایا۔‘
عام دنوں کے خاصے کی تفصیل جان لیں۔ شاید سحری کے خاصے میں ان میں سے کچھ کھانے نہ بنائے اور کھائے جاتے ہوں۔
’چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، بِری روٹی، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیر مال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، باقر خانی، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ، نان گلزار، نان قماش، نان تُنکی، بادام کی نان خطائی، پستے کی نان خطائی، چھوارے کی نان خطائی۔‘
یہ تو تھیں روٹی کی مختلف شکلیں۔ اب پلاؤ اور چاول کی دوسری ڈشیں دیکھیں۔
’یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نُکتی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، چُلاؤ، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، شولہ، کھچڑی، قبولی، طاہری، متنجن۔‘
اس کے علاوہ زردہ مزعفر، سویاں، من و سلویٰ، فرنی، کھیر، بادام کی کھیر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نَمِش، دودھ کا دلمہ، بادام کا دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، شاخیں، کھجلے، قتلمے۔
سالن میں قورمہ، قلیہ، دو پیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بورانی، رائتا، کھیرے کی دوغ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، سمنی، آش، دہی بڑے، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، آلو کا دُلمہ، بینگن کا دُلمہ، کریلوں کا دُلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال۔
کبابوں میں سیخ کے کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب۔ حلووں میں روٹی کا حلوا، گاجر کا حلوا، کدو کا حلوا، ملائی کا حلوا، بادام کا حلوا، پستے کا حلوا، رنگترے کا حلوا۔
مربوں میںآم کا مربّا، سیب کا مربّا، بہی کا مربّا، ترنج کا مربّا، کریلے کا مربّا، رنگترے کا مربّا، لیموں کا مربّا، انناس کا مربّا، گڑہل کا مربّا، بادام کا مربّا، ککروندے کا مربّا، بانس کا مربّا، ان سب قسموں کے اچار اور کپڑے کا اچار بھی۔
بادام کے نُقل، پستے کے نقل، خشخاش کے نقل، سونف کے نقل، مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ اپنے اپنے موسم میں۔
اور گیہوں کی بالیں مٹھائی کی بنی ہوئی، حلوا سوہن گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، حبشی لڈو موتی چور کے، مونگ کے، بادام کے، پستے کے، ملائی کے۔ لوزات مونگ کی، دودھ کی، پستے کی، بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، در بہشت، بالو شاہی، اندرسے کی گولیاں، اندرسے وغیرہ۔
خاصے کے بعد بادشاہ بھنڈا یعنی حقہ پیتے اور پھر صبح کی توپ چلی، کُلّی کی، آب حیات پیا۔ اب کھانا پینا موقوف ہوا، روزے کی نیت کی۔‘
دن بھر یوں گزرتا کہ ’صبح ہوئی، نماز پڑھی، درگاہ میں جا کر سلام کر، باہر ہوا خوری کو سوار ہوئے۔ سواری پھر کر آئی، محل میں لوگوں کی کچھ عرض و معروض سنی، دوپہر کو سکھ (آرام) کیا۔‘
سہ پہر میں افطار کا اہتمام شروع ہو جاتا۔
’تیسرا پہر ہوا، محل میں تندور گرم ہوا۔ بادشاہ کے لیے ایک سنہری کرسی شیر کے سے پایوں کی، پشت پر سنہری پھول پتے کٹے ہوئے، مخمل کا گدا نرم نرم اس پر بچھا ہوا، تندور کے سامنے لگی ہوئی ہے۔ بیگماتیں، حرمیں، شاہ زادیاں اپنے ہاتھ سے بیسنی، روغنی، میٹھی روٹیاں، کلچے تندور میں لگا رہی ہیں، بادشاہ بیٹھے سیر دیکھ رہے ہیں۔‘
’بیسیوں لوہے کے چولھے گرم ہیں، پتیلیاں ٹھنٹھنا رہی ہیں، اپنی اپنی بھاوَن کی چیزیں آپ پکا رہی ہیں۔ دیکھو تپتّی، نوینے، میتھی کا ساگ ہے، کہیں ہری مرچیں، موتیا کے پھولوں کے نیچے کی سبز سبز ڈنڈیاں، بینگن کا دُلمہ (بھرنے کے لیا تیار کیا گیا سالن)،گھئے کی تلاجی، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال ہے۔ کہیں بڑے، پھلکیاں، پوریاں، شامی کباب تلے جاتے ہیں۔ کہیں سیخوں کے کباب، حسینی کباب، تکّوں کے کباب، نان پاؤ کے ٹکڑے، گاجر کا لچھا اور طرح طرح کی چیزیں پک رہی ہیں۔‘
’عصر کا وقت ہوا، نمازیں پڑھ پڑھ کے روزے کشائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔‘
’ایک طرف گلاس، طشتریاں، رکابیاں، پیالے، پیالیاں، رنگ برنگ کی چینی کی اور چمچے سینیوں میں لگے ہوئے رکھے ہیں۔ ایک طرف کوری کوری جھجریاں اور صراحیاں، کاغذی آبخورے، اور پیالے چھوٹے چھوٹے لٹکنوں پر رکھے ہیں، اوپر صافیاں پڑی ہوئی ہیں۔‘
'سب ترکاریاں میوے وغیرہ آ کر رکھے گئے۔ سب کو چھیل بنا، کوئی سادی، کسی میں نون مرچیں لگا، مونگ کی دال دھو دھلا، کچھ کچی، کچھ اُبلی، کچھ لال مرچوں کی، کچھ کالی مرچوں کی بنا بنو کر طشتریوں اور رکابیوں میں لگائیں۔ رنگتروں کو چھیل، کھانڈ ملا، راحت جان بنا اور کیلے کے قتلے، پھوٹوں کا قیمہ کر کے کھانڈ ملا کر پیالوں میں رکھا۔‘
’تلی ہوئی مونگ، چنے کی دال، بیسن کی سویاں، نکتیاں، بھنے ہوئے پستے بادام نون مرچ لگے ہوئے، بادام پستوں کے نُقل، چھوارے، کشمش وغیرہ طشتریوں میں رکھے، انگور، انار، فالسے، تخم ریحاں، فالودے، میوے کا شربت، لیموں کا آبشورہ ملا کر گلاسوں میں رکھا۔‘
’روزے کا وقت ہوا، بادشاہ نے توپ کا حکم دیا، ہرکاروں نے جھنڈیاں ہلائیں، وہ روزے کی توپ چلی، دھائیں۔ اذانیں ہونے لگیں۔ اس وقت کی خوشی دیکھو، کیسی توپ کی آواز سے چونچال ہو گئیں۔ پہلے ذرا سے آب زم زم یا مکّے کی کھجور یا چھوارے سے روزہ کھولا، پھر شربت کے گلاس ہاتھ میں لے چمچوں سے شربت پیا۔ کسی نے پیاس کی بے تابی میں گلاس ہی منہ سے لگا غٹ غٹ پی لیا۔ ذرا ذرا سی دال ترکاری میوہ وغیرہ چکھا، پھر نماز پڑھ پڑھ کے گلوریاں کھائیں۔‘
رمضان کے آخری جمعے کو الوداع کی نماز کی تیاری ہوتی۔
فیض الدین لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ جلوس سے سوار ہوئے، جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پاس کہاروں نے ہوادار ہاتھی کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہوا دار میں سوار ہو جامع مسجد میں آئے، حوض کے پاس آ کر ہوا دار میں سے اترے۔ آگے خاص بردار، نقیب، چوبدار ہٹو بڑھو کرتے، پیچھے شاہ زادے، امیر امرا ادب قاعدے سے اندر آئے۔‘
’امام کے پیچھے بادشاہ کا مصلی، بائیں طرف ولی عہد کا، دائیں طرف اور شاہزادوں کے مصلے لگے ہوئے ہیں۔ بادشاہ، ولی عہد اور شاہ زادے اپنے اپنے مصلوں پر آکر بیٹھے۔ امام جی کو خطبے کا حکم ہوا، امام جی منبر پر کھڑے ہوئے، قور خانے کے داروغہ نے تلوار امام جی کے گلے میں ڈال دی۔ قبضے پر ہاتھ رکھ کر امام جی نے خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ جب خطبہ پڑھ چکے اور اَور بادشاہوں کے نام لے چکے، جس وقت بادشاہ وقت کا نام آیا، توشے خانے کے داروغہ کو حکم ہوا، اس نے امام جی کو خلعت پہنایا۔‘
’مکبّر پر تکبیر ہوئی، امام نے نیت باندھی، سب نے امام کے ساتھ نیت باندھ لی۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، دعا مانگی۔ سنتیں پڑھ کر بادشاہ آثار شریف میں آئے، زیارت کی۔ پھر سوار ہو کر قلعے میں آئے۔‘
’اُنتیسویں تاریخ ہوئی۔ سب کی آنکھیں آسمان پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر چاند دیکھ لیا یا کہیں سے گواہی شاہدی آ گئی تو بڑی ہی خوشی ہوئی۔ نہیں تو پھر تیسویں کو یہ رسمیں ہوئیں۔‘
’نقار خانے کے دروازے کے سامنے حوض پر پچیس توپیں عید کے چاند کی دھنادھن چلیں۔ مبارک سلامت ہونے لگی، شادیانے بجنے لگے۔‘
ہمایوں: جب ایک ’شکست خوردہ‘ مغل شہنشاہ کی موت سیڑھیوں پر پاؤں پھسلنے سے ہوئیجب شہنشاہ جہانگیر کو اغوا اور قید کا سامنا کرنا پڑااورنگزیب: تین سو سال پہلے مر جانے والا مغل بادشاہ انڈیا میں زیر بحث کیوں؟