اقوام متحدہ۔3اپریل (اے پی پی):فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لئے کوششوں کا از سر نو آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی ریاست کے لئے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے،اس کے لیے عرب لیگ ، آئی آئی سی اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک جیسی بڑی بین الاقوامی تنظیموں نے فلسطینی درخواست کی حمایت کی ہے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت عالمی برادری کی طر ف سے اس کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے لیکن کئی برسوں کی کوششوں کے باوجود ابھی تک فلسطینی ریاست کو یہ رکنیت نہیں دی گئی،تاہم اسے 2012 سے اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب ریاض منصور نے سیکرٹری جنرل انتونیو گو تریش کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ان کے ملک نے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے حصول کی جو درخواست 2011 میں دی تھی اس پر دوبارہ غور کیا جائے۔فلسطینی مندوب کا یہ خط سلامتی کونسل کو ارسال کر دیا گیا ہے اور کونسل سے اس کا جائزہ لینے کی درخواست کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری ، جس نے 1947 سے فلسطین میں دو ریاستیں بنانے کا فیصلہ کیا تھا،اس لئے عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ ریاست فلسطین کومکمل رکنیت دے کر اپنے اس اقدام کی تکمیل کرے۔ اقوام متحدہ میں مالٹا کے سفیر( جو رواں ماہ کے لئے سلامتی کونسل کے صدر ہیں )نے کہا کہ فلسطینی مندوب کا خط سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے مندوبین کو پہنچا دیا گیا ہے اور اس معاملے کو جلد زیر غور لایا جائے گا۔لیگ آف عرب سٹیٹس، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کولکھے گئے ایک خط میں فلسطین کے لئے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ اس خط میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ہم آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اب تک اقوام متحدہ کے 140 رکن ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، خط میں ان ممالک کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے ۔واضح رہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اپنے ملک کے لئے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی درخواست 2011 میں دی گئی تھی جس پر سلامتی کونسل میں ابھی تک ووٹنگ نہیں کرائی گئی ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012 میں ایک رائے شماری کے بعد فلسطینی کو اقوام متحدہ کے مبصر کا درجہ دیا۔ موجودہ قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لئے پہلے سلامتی کونسل کی طرف سے اس کی سفارش کی جاتی ہے اور پھر جنرل اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے اس کی توثیق کی جاتی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کی اس کوشش کو پہلے مرحلے پر ہی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اسرائیل کا قریبی اتحادی ملک امریکا سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرکے اس کوشش کو ناکامی سے دوچار کر سکتا ہے۔سلامتی کونسل سے یہ قرار داد اسی صورت منظور ہو سکتی ہے جب سلامتی کونسل کے 15 میں سے 9 ارکان اس کی حمایت کردیں اور پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی بھی اس کو ویٹو نہ کرے۔ حالیہ عرصے کے دوران کئی یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور سپین شامل ہیں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کا عندیہ دیا ہے تاہم اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے اس تنازعے کے دو ریاستی حل کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔