چھ ججز کا خط منظر عام پر آتے ہی کہیں انقلاب کی نوید سنائی گئی تو کہیں سازش کی بو سونگھتے ہوئے مناسب بندوبست کیے جانے کا اعلان ہوا۔یہ پریم پتر اچانک منظر عام پر نہیں آیا۔ اس کا بیک گراؤنڈ ہے، دو بار یہ ججز اپنے چیف جسٹس سے شکایت لگا چکے ہیں۔ اس سے پہلے گزر ے برس اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الحسن اور پھر تب کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک بھی یہ چھ ججز اپنے مسائل لے کر پہنچتے رہے لیکن کسی در سے بھی ان کا مداوا نہ ہوسکا۔خط اس سیریز کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا، کہا گیا کہ جوڈیشل کنونشن بلایا جائے تا کہ اس فورم پر طے کیا جائے کہ مذکورہ شکایات کا ازالہ یا جائزہ کیسے لیا جاسکتا ہے کیونکہ یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی جج کے مس کنڈکٹ کو ایڈریس کرنے کا ادارہ ہے۔
البتہ اگرکسی جج کو ایسی شکایات ہوں جن کا ذکر چھ ججز کے خط میں ہے تو اس بابت آئین و قانون میں کوئی واضح گائیڈ لائن دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جج صاحبان بذریعہ خط سپریم جوڈیشل کونسل تک پہنچے کہ وہاں کنونشن کی صورت میں اس مدعے پر تفصیلی غور کیا جائے۔ لیکن پھر کیا ہو؟
سرکار چیف جسٹس سے ملی، وزیر قانون سامنے آئے، یک رکنی کمیشن تشکیل دے دیا۔ ٹی او آرز بھی طے کر دیے۔ ریٹائرڈ جج جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں قائم یک رکنی کمیشن پہلے دن سے ہی مسلسل ہدف تنقید تھا، وجہ اس کے ٹی او آرز اور چھ ججز کے خط میں لکھے انتہائی سنجیدے مدعے ہیں۔تین سو سے زائد وکلا نے ملک بھر سے خط لکھ کر کمیشن مسترد کیا، اس خط پر تصد ق جیلانی کے صاحبزادے بھی دستخط کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ خاکسار جمعرات کو ایک وی لاگ میں پیش گوئی کر چکا تھا کہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی شاید اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لیں۔ ان کے قریبی حلقوں سے گفتگو کا موقع ملا، جج صاحب اجلی شہرت کے حامل رہے ہیں، ٹوتھ لیس کمیشن کے ذریعے اس قدر اہم مدعے کی چھان بین یقیناً ان کے شایان شان نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ انکاری ہوئے۔جیلانی صاحب موجودہ سیاسی اور عدالتی منظر نامے کو بھی بہت انداز میں سمجھ چکے ہیں، لہذا ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر بنا کسی چھینٹ کے گزارنے کے خواہاں ہیں۔جیلانی صاحب کے انکار کے بعد از خود نوٹس اور لارجر بینچ کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ اس قدرسادہ نہیں (فوٹو: ایکس)واضح رہے کہ جسٹس جیلانی کا انکار چیف جسٹس کے سو موٹو ایکشن سے پہلے ہوا۔ پھر چند لمحوں بعد علم ہوا کہ چیف جسٹس نے سو موٹو لیتے ہوئے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو بدھ سے چھ ججز کے خط پر سماعت کرے گا۔ لطف کا پہلو خوب ہو اگر بدھ سے لارجر بینچ کی سماعت براہ راست نشر کی جائے اور اس مدعے پر تحفظات رکھنے والے تمام افراد کو بیانات قلمبند کرنے کے لیے دعوت دی جائے۔ (اس رائے کی آزادانہ طور پر تاحال تصدیق نہیں ہوسکی)۔جیلانی صاحب کے انکار کے بعد از خود نوٹس اور لارجر بینچ کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ اس قدرسادہ نہیں جو سرکار بیان کررہی تھی۔ساتھ ہی توشہ خانہ میں کپتان کی سزا معطلی ہوئی، فواد چوہدری کو ریلیف ملا، حماد اظہر بھی منظر عام پر آئے۔ اور تو اور ایک طویل عرصے بعد پنڈی کے شیخ رشید کا بیان بھی نظر سے گزرا جو اپنے مخصوص انداز میں فرما رہے تھے کہ ن میں سے ش نکل چکی۔ آثار بتلاتے ہیں کہ یہ اعشاریے نظام میں تقسیم کی نشاندہی کر رہے ہیں۔بندوبست تقسیم کا حل نہیں ڈھونڈ پا رہا۔ آثار یہ بھی بتلاتے ہیں کہ عید کے بعد اگلے راؤنڈ میں سزا جزا کا معاملہ تیز ہوگا اور اس کی تپش میڈیا تک بھی پہنچے گی۔واضح رہے کہ جسٹس جیلانی کا انکار چیف جسٹس کے سو موٹو ایکشن سے پہلے ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)نظام تلپٹ تھا، نظام ادھڑ رہا تھا، نظام بندوبست کے مرہون منت ہوچکا تھا، لیکن نظام اب تعفن زدہ بھی ہوچکا ہے۔ یہ تعفن جا بجا ہر شعبے ہر محکمے اور ہرجانب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ زبردستی کے بندوبست دیر پا حل نہیں ہوا کرتے، حل فطری ہوا کرتے ہیں، عوامی رائے پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ترکی میں عوامی رائے نے اردوگان کو زیر کیا۔ رہ گئی بات بڑے میاں کی تو وہ سسٹم سے آوٹ ہوچکے، توجہ پنجاب پر بیٹی کی صورت میں پارٹی کا احیا کرنے پر مرکوز کر چکے، لیکن اندرون خانہ وہ بھی خاصے بھرے پڑے معلوم ہوتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ مزید ملبے اٹھانے سے پہلے پکار اٹھیں کہ پھر وزیر اعظم بھی اپنا ہی لگا دیں، ہم ساتھ تھے ساتھ رہیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے اردو نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں