AFP
عظمت زاہد کوہستان کے شہر داسو کے رہائشی ہیں۔ اب انھیں اس عید سے قبل روزگار کی فکر ستا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’رمضان میں بے روزگار ہوجانا بہت بُرا لگ رہا ہے۔ عید کی آمد آمد ہے، ایسے میں اگر دیہاڑیاں نہیں لگیں گی تو عید روکھی اور پھیکی ہوجائے گی۔‘
اس پریشانی میں مبتلا عظمت زاہد صرف واحد مزدور نہیں ہیں بلکہ داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے تقریباً چھ سو مزدوروں کے سر پر بےروزگاری کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت مزدور کوہستان کے رہائشی ہیں۔
منگل کو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں اس منصوبے کی طرف جانے والی چینی انجینیئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئرز اور ان کا ایک پاکستان ڈرائیور ہلاک ہوا تھا۔ پاکستانی حکام کے علاوہ اس حملے کی تحقیقات خود ایک چینی ٹیم بھی کر رہی ہے۔
اس دوران منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں کی چینی کمپنی نے انھیں بتایا ہے کہ اب وہ عارضی طور پر کام روک رہی ہے اور جب دوبارہ ضرورت ہو گی تو ان کو بلا لیا جائے گا۔
ان مزدوروں میں مانسہرہ کے رہائشی ادریس خان بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا خیال ہے کہ ہم لوگ عید سے دو دن قبل واپس آئیں گے مگر اب بے روزگار ہو کر پہلے ہی واپس آچکے ہیں۔‘
’یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہوا۔ کئی لوگوں کا روزگار چھن چکا ہے۔ کئی لوگوں نے عید سے پہلے اپنے خاندان والوں کے لیے خریداری کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اب شاید ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا۔‘
ڈیموں کی تعمیر کا کام رُک گیا
بشام حملے کے بعد چین کی جانب سے فوری ردعمل میں پاکستانی حکام کے ساتھ سکیورٹی معاملات کو اٹھایا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ایسے حملے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔
تاہم تربیلہ ڈیم کے توسیعی منصوبے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیامیر بھاشا ڈیم پر جو چین کی مختلف کمپنیاں کام میں مصروف تھیں انھوں نے اپنا کام عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔
چین کی کمپنیوں نے اپنے مقامی عملے کو اگلے حکم تک کام پر نہ آنے کی ہدایت کر دی ہے۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ایک اہلکار کے مطابق داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر تقریباً پانچ سو پچاس چینی باشندے مختلف خدمات انجام دے رہے ہیں۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر عملاً تمام کام چینی کمپنی ہی کر رہی ہے۔
چین ہی کا عملہ مختلف تعمیراتی شعبوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اب ان چینی کمپنیوں نے کام بند کردیا ہے جس وجہ سے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کچھ دنوں سے کام بند ہے۔
خیال رہے کہ داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کی تکیمل سے پاکستان کو 4320 میگا واٹ بجلی حاصل ہونے کی توقع ہے۔
دیامیر بھاشا ڈیم کے ایک اہلکار کے مطابق چین اور پاکستان کی عسکری کمپنی ’ایف ڈبلیو او‘ مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
دیامیر بھاشا ڈیم پر کوئی چار سو چینی سٹاف خدمات انجام دیتا ہے، جنھوں نے اپنا کام بند کیا ہوا ہے۔
ان کے ساتھ کوئی تین ہزار مقامی لوگ کام کرتے ہیں اور اب ان کو بھی یہ کہا گیا ہے کہ کام عارضی طور پر بند ہے۔تاہم ایف ڈبیلو او اپنا کام کر رہی ہے۔
تربیلہ ڈیم کی توسیعی منصوبے پر بھی چین کی کمپنی نے کام بند کردیا ہے۔ یہاں پر تقریباً پندرہ سو مقامی لوگ کام کرتے ہیں جبکہ چین کا کوئی دو سو کا عملہ یہاں خدمات انجام دیتا ہے۔
تربیلہ ڈیم کے پانچویں توسیعی منصوبے سے پاکستان کو 1530میگا واٹ بجلی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ یہ توسیع ضلع صوابی والی طرف سے کی جارہی ہے۔
تربیلہ پراجیکٹ کی لیبر یونین کے رہنما اسلم عادل کا کہنا ہے کہ چین کی کمپنی نے توسیعی منصوبے پر کام روکنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم ان کا خیال تھا کہ ان کے اس فیصلے سے مقامی سٹاف کی نوکریوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جتنا عرصہ کام نہیں ہوگا ان کو قوانین کے مطابق کمپنی آدھی اجرت دینے کی پابند ہوگی۔
اسلم عادل کو امید ہے کہ یہ معاملہ جلد ہی طے ہوجائے گا اور کام دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سکیورٹی کو مزید بہتر کیا جائے۔
مہمند ڈیم کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہاں پر چین کی کمپنی اور ان کے دو سو پچاس سٹاف اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ انھیں سکیورٹی انتظامات پر اعتماد ہے۔
شانگلہ حملے کے بعد چین کی تحقیقاتی ٹیم کی اسلام آباد آمد: پاکستان سے ’سکیورٹی خطرات کے مکمل خاتمے‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہپاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینیکیوں نشانہ بن رہے ہیں اور یہ حملے کون کر رہا ہے؟’پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی‘
پاکستان میں چینی کارکنوں پر سنہ 2021 کے بعد تین بڑے حملے ہوچکے ہیں۔
جس میں سنہ 2021 میں چین کے کارکنان کی گاڑی پر ایک حملے میں مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والوں میں نو چینی شہری شامل تھے۔
جبکہ سنہ 2022 میں کراچی میں ایک حملے میں ایک چینی استاد سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اب حالیہ واقعے میں چھ لوگ ہلاک ہوئے ہیں، جس میں پانچ چینی شہری شامل ہیں۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2022 سے اگست 2023 تک دہشت گردی کے 1560 واقعات ہوئے۔
ان واقعات میں سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے 593 اور 263 عامشہری ہلاکہوئے جبکہ ان میں سکیورٹی فورسز کے 1365 اہلکار اور 773 عام شہری زخمی ہوئے۔
واضح رہے کہ سنہ 2022 کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سکیورٹی امور کے ماہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق آئی جی سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس حملے سے دہشت گردوں نے کئی مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
ان کے مطابق ’انھوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔‘
اختر علی کے مطابق ’پاکستان اور چین کے درمیان اب دوبارہ سی پیک کو آگے بڑھانے پر بات چیت ہو رہی ہے۔‘
سنگھوا یونیورسٹی کے شعبہ ریسرچ اور نیشنل سٹریٹجی کے ڈائریکٹر کیو ایان فینگ نے چین کے میڈیا گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ حملہ سنہ 2021 کے حملے کی طرز پر کیا گیا۔ ’پراجیکٹ (داسو ڈیم) دور دراز اور پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جہاں پر مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظمیں بہت فعال ہیں۔ اور ان کے حملہ کرنے کے انداز میں یکسانیت نظر آتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس حملے کے بعد پاکستان اپنی سکیورٹی کو بہتر کرے جو کہ ایک طویل اور مشکل کام ہے، جس کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ حملے کے اصل ملزمان کو بے نقاب کرنا باقی ہے۔
کیو ایان فینگ کا کہنا تھا کہ اس حملے سے اشارہ ملتا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی دہشت گرد تنظیمیں ’نہیں چاہتیں کہ سی پیک کامیاب ہو اور وہ اس کو تخریب کاری کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔‘
پشاور سے سکیورٹی اور گورنس کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ چین کی کمپنیوں نے کام احتجاجاً روکا ہے۔
ان کے مطابق ’اب پاکستان کو چین کی حکومت اور ان کمپنیوں سے مذاکرات کرنا ہوں گے، جس کے بعد امید یہی ہے کہ چین کی کمپنیاں دوبارہ کام شروع کردیں گیں کیونکہ انھوں نے بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
’مگر پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘
’چار لاشیں مکمل جل چکی تھیں‘: بشام میں چینی انجینیئرز پر خودکش حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھاپاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینیکیوں نشانہ بن رہے ہیں اور یہ حملے کون کر رہا ہے؟شانگلہ حملے کے بعد چین کی تحقیقاتی ٹیم کی اسلام آباد آمد: پاکستان سے ’سکیورٹی خطرات کے مکمل خاتمے‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہپاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟