پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بحال کرنے میں کیا رکاوٹیں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 26, 2024

Getty Images

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ دنوں برطانیہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا جسے انڈیا اور پاکستان دونوں کے کاروباری طبقے نے مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔

انھوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ساڑھے چار سال سے زیادہ عرصہ سے منقطع ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے کہ جب پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کو ایک مہینہ بھی نہیں ہوا۔ دوسری طرف انڈیا میں اگلے مہینے کے آخر میں انتخابات کا پہلا مرحلہ منعقد ہونے جا رہا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی مودی حکومت نے اپنے زیرِ اتنظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور خود مختاری ختم کر دی تھی۔

کشمیر کے تنازع کے باعث دونوں ملکوں کے سفارتی و تجارتی تعلقات متاثر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ فروری 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے لیے موسٹ فیورٹ نیشن کا سٹیٹس بھی واپس لے لیا تھا۔

Getty Imagesپاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت کیوں بار بار تعطل کا شکار ہوئی؟

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ وہ واحد واقعہ نہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت معطل ہوئی ہو۔

ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت سیاسی و سفارتی تنازعات کا شکار ہوئی۔ انھوں نے ماضی قریب میں 2009 کے ممبئی حملے اور 1999 میں کارگل جنگ کا حوالہ دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی مختلف ادوار میں تجارت بحال ہوتی رہی۔

2019 سے قبل پاکستان انڈیا سے کاٹن، نامیاتی کیمیکلز، پلاسٹک، مشینری اور آلات منگوا رہا تھا۔ جبکہ دوسری جانب انڈیا نے پاکستان سے پھل، معدینات، سوڈا ایش، نمک سمیت دیگر اشیا منگوا رہا تھا۔

پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معیشت کی سینیئر ریسرچر ڈاکٹر عظمیٰ ضیا کی رائے ہے کہ سیاسی تنازعات سے پیدا ہونے والے تجارتی بحران سے نمٹنے میں دونوں ملکوں نے کم ہی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ’اس وقت بھی یہی صورتحال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ختم ہیں۔‘

پاکستان نے انڈیا کو افغانستان سے حاصل ہونے والی مصنوعات کے لیے راہداری کی سہولت دے رکھی ہے لیکن انڈیا سے افغانستان کے لیے یہ سہولت نہیں ہے۔

تجارتی امور کے ماہر اقبال تابش نے بتایا کہ دنیا میں پڑوسی ممالک کے درمیان سب سے زیادہ تجارت کے امکانات ہوتے ہیں کیونکہ یہ تجارت سستی ہوتی ہے اور اس سے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات نے ایسا ہونے نہیں دیا جبکہ چین کے ساتھ تنازعات کے باوجود انڈیا اور چین کے درمیان سو ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہوتی ہے اور یہی صورتحال چین اور ویتنام کے درمیان ہے۔

Reutersپاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے انڈیا کے ساتھ تجارت کی بحالی کا عندیہ دیا ہے باہمی تجارت کی بحالی کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

اگرچہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستانی تاجر انڈیا کے ساتھ تجارت کے خواہاں ہیں تاہم اس کے باوجود اس میں کئی چیلنجز موجود ہیں۔

بیرونی تجارتی امور کے ماہر ڈاکر ایوب مہر نے اس سلسلے میں بتایا کہ اس تجارت کو سب سے بڑا سیاسی چیلنج درپیش ہے کیونکہ اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے جو ’فی الحال دونوں ملکوں میں کم ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق تجارت کی بحالی میں رکاوٹیں دونوں ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے صنعتی شعبوں کو بہت سارا ’پروٹیکشنزم‘ یعنی ریاستی تحفظ حاصل ہے جس میں کسی دوسری ملکوں میں مصنوعات بیچنا مشکل ہوتا ہے۔ ’پاکستان کی انڈسٹری سمجھتی ہے کہ اسے انڈین مصنوعات سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس لیے ان کی درآمد پر بہت زیادہ ٹیرف یعنی ٹیکس اور ڈیوٹی لگی ہوتی ہیں۔‘

پاکستان میں صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) کے سینیئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر بہت زیادہ نان ٹیرف بیریئرز لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کو بھی انڈین منڈیوں تک رسائی نہیں مل پاتی، اور انھیں وہاں فروخت کرنا پڑا چیلنج ہے۔

نان ٹیرف بیریئرز میں غیر ضروری لائنسنگ، کسٹم کلیئرنس کی ضروریات، سخت ویزا پالیسیاں، سرحد پر کلیئرنس کے لیے طویل وقت وغیرہ شامل ہیں۔

اقبال تابش نے اس سلسلے میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو سیاسی تناظر میں دیکھنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی مثال موسٹ فیورٹ نیشن یعنی سب سے پسندیدہ قوم کی حیثیت کو غلط طریقے سے سمجھنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے یہ حیثیت پاکستان کو دی گئی تھی (جو بعد میں واپس لے لی گئی) لیکن پاکستان نے یہ حیثیت انڈیا کو نہیں دی۔ ’ہمارے ہاں اسے سیاسی نظر سے دیکھا گیا ہے جبکہ یہ مکمل طور پر ایک معاشی تصور ہے کہ جس میں دو ملک ایک دوسرے کے ہاں اپنی مصنوعات کی رسائی کے لیے ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو دور کر کے سہولت دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں سوچا جاتا۔‘

کیا آموں کی تجارت پاکستان چین دوستی کی مٹھاس بڑھانے کے ساتھ ساتھ تجارتی مسائل کی کڑواہٹ کم کر سکے گی؟کیا انڈین پیاز اور ٹماٹر ہی پاکستان میں سیلاب کے بعد قیمتیں کم کرنے کا واحد حل ہے؟Getty Imagesکیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات بحال ہو پائیں گے؟

اس معاملے پر معیشت اور سفارتکاری کے ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔

ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق نے مطابق اگر وزیر خارجہ کی جانب سے یہ بیان دیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اس بارے میں سوچا جا رہا ہے کیونکہ وزیر خارجہ کی جانب سے سوچ سمجھ کر ہی ایسا بیان دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اس پر ملک میں اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت کی نمائندگی والے فورم ایس آئی ایف سی سے بھی بات چیت کی ہوگی۔ ’ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ سمجھ موجود ہے کہ انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کیا جائے۔‘

تاہم دلی میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار نے غلط وقت پر یہ بیان دیا جس سے مستقبل میں پاکستان کی ’بار گینگ پوزیشن کمزور ہوئی۔‘

انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت کی بحالی کے امکان کو بھی مسترد کیا ہے اور کہا کہ انڈیا ان امور میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس کا سارا فوکس انتخابات پر ہے۔

عبد الباسط کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا نہ پارلیمان میں اور نہ ہی قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی کمیٹی ابھی تشکیل بھی نہیں ہوئی۔

ان کی رائے ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ تجارت سے ’کوئی خاص فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا کیونکہ تجارت کا توازن ہمیشہ انڈیا کے حق میں رہا ہے۔‘

ڈاکٹر ایوب مہر سابق پاکستانی ہائی کمشنر کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بیان دینے کا صحیح وقت نہیں تھا جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

Getty Imagesانڈیا میں پاکستان کے ساتھ تجارت پر کیا رائے پائی جاتی ہے؟

تاحال انڈیا کی وزارت خارجہ نے اس موضوع پر تبصرہ کرنے کی بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

لیکن سنیچر کو سنگاپور کے ایک پروگرام میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انڈیا کے وزیز خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ انڈیا کا موقف دہشت گردی کے معاملے کو ’نظر انداز کرنے کا نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا اب اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ ہم یہ نہیں کہنے والے ہیں کہ (دہشت گردی) جاری ہے (لیکن) آئیے بات چیت جاری رکھتے ہیں کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس مسئلے کا کافی ایمانداری سے سامنا کرنا چاہیے، چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔‘

ادھر امرستر میں قائم ’کنفیڈریشن آف انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ کے صدر نے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اشوک سیٹھی نے اسے ’مثبت‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ہم بڑی دیر سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے پاکستان کی اس پیشکش سے کچھ مثبت نکل کر آئے گا۔‘

امرتسر کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے اور پڑوسی ملک کے ساتھ تجارت کے لیے وہاں ایک تجارتی مرکز بھی ہے۔ لیکن اس تجارت نے جموں اور کشمیر کے لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے جس کی پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے۔

2021 میں بی بی سی نے امرتسر کا سفر کیا تھا جہاں مقامی لوگ اور تاجروں کی نمائندگی کرنے والے یونین کے اراکین کی متفقہ رائے تھی کہ تجارتی پابندی کی وجہ سے ان کے ذریعہ معاش پر کافی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسے جلد از جلد بحال کیا جائے۔

اٹاری بارڈر پر ٹرک یونین کے سربراہ کلوندر سنگھ سندھو نے کہا تھا کہ یہ پابندی وہاں ایک ’بم گرنے جیسے تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس قدم سے تقریباً 80 سرحدی گاؤں اور ہر گاؤں میں اوسطاً 50 سے 60 افراد متاثر ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ تجارت بند ہونے کی خبر سے یہاں ’سبھی سُن ہو گئے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ خبر اتنی تباہ کن تھی کہ تجارت پر انحصار کرنے والے بہت سے لوگوں نے کئی دنوں تک کھانا نہیں کھایا۔

حالانکہ سرکاری طور پر کئی بار تجارت بحال کرنے کی کوششوں کے بارے میں خبریں آئی ہیں لیکن کوئی ٹھوس نتینجہ نہیں آیا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ تجارتی پابندی کے وجہ سے سرحدی علاقوں میں لوگوں پر زبردست اثر ہوا ہے، چاہے وہ پورٹر ہوں، ڈھابوں پر کام کرنے والے ہوں یا کروڑوں کا کاروبار کرنے والے بڑے تاجر۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کے حالیہ تبصرے پر بات کرتے ہوئے سندھو نے بی بی سی کو بتایا کہ 2021 سے اب تک پنجاب کے سرحدی گاؤں میں حالات بہتر نہیں بلکہ بدتر ہوئے ہیں۔

انھیں ’امید نہیں ہے کہ اس کوشش کا فی الحال کوئی نتیجہ نکلے گیا‘ خاص طور پر جب تک انڈیا کے پارلیمانی انتخابات جاری ہیں۔

سیٹھی کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے درمیان 8000 کروڑ کا سالانہ کاروبار ہوتا تھا لیکن جس دن تجارت بند ہوئی 10,000 سے زیادہ لوگ فوری طور پر بے روزگار ہو گئے تھے اور اب بھی تقریباً 4000 سے زیادہ ٹرکوں کا کاروبار متاثر ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’امید ہے کہ چیزیں جلد ہی معمول پر آ جائیں گی۔‘

چار یورپی ممالک کا انڈیا سے تجارتی معاہدہ اور 100 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کتنی اہم ہے؟انڈیا کی جانب سے پیاز کی برآمد پر پابندی نے پاکستان میں اس کی قیمتوں میں کیسے اضافہ کیا؟کیا انڈین پیاز اور ٹماٹر ہی پاکستان میں سیلاب کے بعد قیمتیں کم کرنے کا واحد حل ہے؟پیاز ہمارے پکوانوں میں کب اور کیسے شامل ہوا؟محمد بن سلمان اور نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی قربت: ’سعودی عرب انڈیا کو قابل اعتماد دوست کے طور پر دیکھتا ہے‘کیا آموں کی تجارت پاکستان چین دوستی کی مٹھاس بڑھانے کے ساتھ ساتھ تجارتی مسائل کی کڑواہٹ کم کر سکے گی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More