پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود ڈور پھرنے سے اموات: موٹرسائیکل سوار خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 25, 2024

’وہ بہت ہی کم گو، تمیزدار اور بااخلاق بچہ تھا۔ اس کے مرنے کے بعد ایسے ایسے لوگ اس کے والدین کے پاس آ کر اس کو یاد کر کے رو رہے ہیں جن کو ہم بھی نہیں جانتے۔ اس کا اخلاق ہی اتنا اچھا تھا۔‘

یہ کہنا ہے فیصل آباد میں تیز دھار ڈور گلے پر پھرنے سے ہلاک ہونے والے 22 سالہ آصف اشفاق کے کزن فرید علی ایڈووکیٹ کا۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چند ہی روز میں عید کے بعد آصف اشفاق کی شادی ہونا تھی۔

فرید علی کے مطابق آصف اشفاق ایک دکان پر سیلزمین کا کام کرتے تھے اور ان کی روزمرہ کی سواری موٹر سائیکل تھی۔ اس روز وہ اپنی والدہ کے ساتھ روزہ افطار کرنے کے لیے گھر کی طرف جا رہے تھے جب افطار کے وقت سے چند منٹ قبل انھیں یہ حادثہ پیش آیا۔

انھوں نے بتایا کہ جس روز آصف اشفاق کو حادثہ پیش آیا وہ اپنی ایک ہمشیرہ کے گھر پر تھے، وہاں لوگوں نے ان سے اصرار کیا کہ وہ وہیں افطار کر لیں لیکن وہ بضد تھے کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ جا کر روزہ افطار کریں گے۔

’وہ اپنی والدہ سے بہت پیار کرتا تھا اور ہر افطار وہ والدہ کے ساتھ ہی گھر پر کرتا تھا۔‘

آصف اشفاق کی ہلاکت کا واقعہ چند روز قبل صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں پیش آیا تھا۔ مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والی اس واقعے کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار اپنے گلے پر ہاتھ رکھتا ہے اور سڑک پر گر جاتا ہے اور اس کی گردن سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔

فیصل آباد میں فیکٹری ایریا تھانہ کی پولیس کے مطابق اطلاع ملنے پر جب پولیس حادثے کے مقام پر پہنچی تو آصف اشفاق نامی 22 سالہ نوجوان کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔ پولیس کے مطابق ’انھیں علاج کی غرض سے ہسپتال منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ زیادہ زخمی ہونے کی وجہ سے دم توڑ گئے۔‘

آصف اشفاق فیصل آباد کے علاقے ریلوے کالونی سمن آباد کے رہائشی تھے۔ وہ تین بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

آصف اشفاق کی موت کی خبر سوشل میڈیا اور اس کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے کے بعد پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فیصل آباد انتظامیہ اور پولیس کو 48 گھنٹوں میں اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پتنگ کی ڈور سے ہلاکت کے واقعات میں پولیس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس شخص تک پہنچ پائے جو اس ڈور کا مالک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس پتنگ بازی پر مکمل پابندی پر زور دیتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق سکھیرا نے بتایا تھا کہ ’اس کے باوجود پولیس کے لیے صد فیصد یہ گارنٹی دینا کہ بسنت کے موسم میں پتنگ کی ڈور سے کوئی موت نہیں ہو گی بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

تو سوال یہ ہے کہ خاص طور پر صوبہ پنجاب میں ’بسنت‘ کے ان دنوں پتنگ کی ڈور سے پیش آنے والے ممکنہ حادثات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

پتنگ کی ڈور سے اموات کیسے ہوتی ہیں؟

پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی ڈور کئی اقسام کی ہوتی ہے۔ پتنگ اڑانے کے شوقین افراد پتنگ کٹنے سے بچانے کے لیے ڈور کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے اس پر ایک خاص قسم کا ’مانجھا‘ استعمال کرتے ہیں جو کانچ کے پاوڈر سے بنایا جاتا ہے۔

یہ مانجھا اگر زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو وہ پتنگ کی ڈور کو ایک تیز دھاری آلے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ جب کوئی پتنگ کٹنی ہے تو اس کے ساتھ جڑی کئی گز لمبی کانچ والی ڈور پتنگ کے وزن کے ساتھ تیزی کے فاصلہ طے کرتی ہوئی بے لگام نکل جاتی ہے۔

موٹر سائیکل سوار افراد کو خاص طور پر اس بے لگام کانچ کی ڈور کی زد میں آنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ ان کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے اور باریک ڈور کو دور سے دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

وہ ڈور کی لپیٹ میں آتے ہیں جو ان کے گلے کے گرد لپٹ جاتی ہے اور جب ایک طرف کھچتی ہے تو تیز دھاری آلے کا کام کرتے ہوئے ان کو زخمی کر دیتی ہے۔ پولیس کے مطابق زیادہ تر حادثات میں یہی کانچ کی ڈور نظر آتی ہے۔

گلا کٹ جانے کی وجہ سے یا زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ کانچ کی اس ڈور کے علاوہ بہت سے افراد اس ڈور کے آگے کچھ فٹ لمبی نائیلون کی تار یا پھر دھاتی تاریں بھی استعمال کرتے ہیں۔

یہ دھاتی تاریں جب بجلی کی تاروں سے ٹکراتی ہیں تو ’پتنگ لوٹنے والے‘ کئی افراد کرنٹ لگنے سے مر جاتے ہیں یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ پولیس کے مطابق ان میں زیادہ تر بچے شامل ہوتےہیں جو ’کٹی ہوئی پتنگ لوٹنے کی کوشش میں اس کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔‘

کیا پتنگ بازی کی اجازت ہے؟

پنجاب میں پتنگ بازی کی مکمل طور پر ممانعت ہے۔ سنہ 2001 کے قانون کے مطابق پتنگ اڑانے اور پتنگ بنانے وغیرہ پر مکمل پابندی ہے۔ فیصل آباد میں ہلاک ہونے والے نوجوان آصف اشفاق کی موت کا مقدمہ بھی اسی قانون کے تحت درج کیا گیا۔

پنجاب میں سنہ 2009 میں بھی پتنگ بازی کی ممانعت کا ایک قانون بنایا گیا تھا جس کے مطابق پنجاب میں پتنگ اڑانے کے ساتھ ساتھ پتنگ بنانے، اس کو اڑانے کے لیے استعمال ہونے والی ڈور بنانے یا اس ڈور کو بنانے میں استعمال ہونے والا مانجھا بنانے پر بھی مکمل پابندی ہے۔

پنجاب میں پولیس ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو پتنگ اڑانے، بنانے یا ڈور وغیرہ بنانے کے غیر قانونی کام میں ملوث ہوں۔

تو پولیس اس کی روک تھام کیوں نہیں کرتی؟

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تمام سال اور خاص طور پر بہار کے موسم سے کئی ماہ قبل اس حوالے سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس نے گزشتہ ایک ماہ سے جاری ’کریک ڈاون‘ کے دوران پتنگ بازی پر ممانعت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 2855 مقدمات درج کیے ہیں جن میں 2991 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ فیصل آباد کے حالیہ واقعے کے بعد ’پولیس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پتنگ بازی میں ملوث 512 افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے قبضے سے ساٹھ ہزار کے قریب پتنگیں، سات سو ڈوریں اور چرخیان وغیرہ برآمد کی گئی ہیں۔‘

پولیس کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ پتنگیں ضبط کر کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے سو فیصد پتنگ بازی کو روکنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ لاہور کے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ ’پولیس کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ ہر علاقے کے مقامی تھانے کے ایس ایچ او کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کے علاقے سے پتنگ بازی کا کوئی واقع سامنے نہیں آنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر ایک گھر کی چھت پر جا کر دیکھ سکیں یا تلاشی لے سکیں۔ ’اس لی اس کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ہر علاقے کا ایس ایچ او یہ یقینی بنائے کہ اس کے علاقے میں شخص کام میں ملوث نہ ہو۔ اس کے لیے متعلقہ پولیس حکام لوگوں میں آگاہی مہم بھی چلاتے ہیں جب میں لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے۔‘

پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ایک بیان میں شہریوں کو ’پتنگ بازی کے خونی کھیل‘ میں پولیس کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ سول سوسائٹی کے تعاون سے پتنگ بازی کے جان لیوا نقصانات کے بارے میں آگاہی کی جائے۔‘

پتنگ کی ڈور سے کیسے بچا جائے؟

پنجاب میں کئی حلقے ماضی میں حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ رواں موسم میں ’بسنت‘ منانے کی چند روز کی اجازت دے۔ ان کے خیال میں اگر چند حفاظتی اقدامات کر لیے جائیں تو پتنگ کی ڈور سے ہونے والے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔

لاہور میں پتنگ بازی فیڈریشن کے سابق سربراہ شیخ سلیم کہتے ہیں کہ پتنگ کی ڈور سے سب سے زیادہ خطرہ موٹر سائیکل سواروں کو ہوتا ہے۔

’ان دنوں میں ہر موٹر سائیکل سوار کو چاہیے کہ وہ اپنے موٹر سائیکل پر ’انٹینا‘ لگا کر رکھے۔ اس طرح وہ پتنگ کی ڈور سے محفوظ رہے گا۔‘ ان کا اشارہ لوہے کے ایک ایسے پائپ کی طرف ہے جو موٹر سائیکل پر آگے سے پیچھے کی طرف لگایا جاتا ہے۔

یا پھر موٹر سائیکل کے سامنے ایک اینٹینے کی شکل میں لگایا جاتا ہے جو سامنے سے آنے والی ڈور کو موٹر سائیکل سوار کے گرد گھومنے سے بچاتا ہے۔

شیخ سلیم کہتے ہیں کہ ’پولیس اور انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ موٹر سائیکلوں پر انٹینا لگانے کا یہ کام کئی ماہ پہلے سے شروع کر دیا جائے تا کہ پتنگ اڑانے کے موسم میں تمام موٹر سائیکلوں پر یہ انٹینے نصب ہو چکے ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پتنگ بازی سے ہونے والے حادثات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ’حکومت ان افراد کے خلاف کارروائی کرے جو دھاتی ڈوریں یا مانجھے والی کانچ کی ڈوریں بنانے میں ملوث ہیں۔ ان کو پکڑیں اور جیلوں میں ڈالیں تو یہ کام خود بخود بند ہو جائے گا۔‘

ان کے خیال میں یہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی حادثہ سامنے آتا ہے اور اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پولیس ایسے کارخانوں یا افراد کے خلاف کارروائی کرے تو دھاتی تاروں سے کرنٹ لگنے جیسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ اطلاع ملنے پر ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تاہم اس طرح کے کام زیادہ تر چھوٹے چھوٹے گھروں میں ہو رہے ہوتے ہیں جن تک ہر مرتبہ پہنچا مشکل ہوتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ لاہور اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہروں میں یہ بھی انسانی طور پر ممکن نہیں ہے کہ ہر ایک موٹر سائیکل پر انٹینا نصب کروا دیا جائے۔ ان شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پولیس کسی بھی صورت میں بسنت منانے یا پتنگ اڑانے کی قانوناً اجازت دینے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More