گلگت سے ’اغوا‘ ہونے والی کم عمر بچی کی مانسہرہ میں شادی: ’میری بیٹی نے صرف چھ جماعتیں پاس کی ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 25, 2024

Getty Images

گلگت سے تعلق رکھنے والی ایک کم عمر بچی اپنے گھر سے جماعت خانے قرآن پڑھنے گئی مگر واپس نہیں آئی۔اس بچی کے والد نے مقامی تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا۔

پھر دو دن بعد اہلخانہ کو خبر ملی کہ اس بچی کا خیبر پختونخوا میں کسی ’16 سالہ‘ لڑکے سے نکاح ہو گیا ہے۔

قانونی دستاویزات اور خاندان کے مطابق اس بچی کی عمر 13 برس اور دو ماہ ہے مگر نکاح نامے کے ساتھ بچی سے تحریری حلف نامہ بنوایا گیا جس میں وہ کہتی ہیں کہ ’میری عمر 16 سال ہے۔ آج میں نے اپنی مرضی و رضا سے، بغیر کسی بیرونی دباؤ کے نکاح کر لیا ہے۔‘

یہ خبر بچی کے اہلخانہ پر قیامت بن کر ٹوٹی اور اب وہ کئی روز سے اس کی بازیابی کے لیے گلگت کے بعد اسلام آباد میں بھی احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔

گلگت کی پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ لڑکے سمیت دیگر ملزمان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

’میری بیٹی نے صرف چھ جماعتیں پاس کی ہیں، دباؤ میں نکاح کرایا گیا‘

پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کے بعد 15 مارچ کو بچی کے والد نے گلگت پریس کلب میں چند صحافیوں کو اپنی پریشانی سے آگاہ کیا اور دو ماہ تک اپنی عزت کی خاطر اختیار کی گئی خاموشی توڑ دی۔

مقامی صحافی کرن قاسم یہ خبر ملنے کے بعد اس محلے میں گئیں جہاں سے بچی غائب ہوئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’علاقے کے لوگوں نے کہا کہ انھوں نے بچی کو ہمسائے میں موجود ایک خاندان کے افراد کے ساتھ گاڑی میں جاتے ہوئے دیکھا۔‘

کرن کہتی ہیں کہ اس پہاڑی علاقے میں یہ ایک کچی بستی جیسا رہائشی علاقہ ہے اور گاڑی میں یہاں سے آنے جانے والے مقامی لوگوں کی نظروں میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔

نکاح کے دو ماہ بعد 21 مارچ کو پہلے نامعلوم مقام سے بچی کا ویڈیو بیان جاری ہوا اور پھر اگلے ہی روز صحافیوں کے ساتھ ان کا تحریری حلف نامہ شیئر کیا گیا۔

ہاتھوں پر مہندی کے ساتھ ایک کمرے میں رکھی کرسی پر بیٹھی اس بچی نے 33 سیکنڈ بات کی اور کہا کہ ’میں اپنی خوشی سے گئی ہوں۔۔۔ کسی نے مجھ پر پریشر نہیں ڈالا۔ میں اس سے پیار کرتی تھی، پہلے اور ابھی بھی کرتی ہوں۔ میں نے اس سے شادی کی، میں اپنی خوشی سے بھاگ گئی ہوں کیونکہ مجھے یہ پسند تھا اور ہم لوگوں نے نکاح بھی کیا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میرے ابو سوشل میڈیا پر شور کر رہے ہیں کہ میری بیٹی کو اغوا کیا گیا اور یہ 13 سال کی ہے۔ کسی نے مجھے اغوا کیا اور نہ میں تیرہ سال کی ہوں میں 16 سال کی ہوں اور میں شوہرکے ساتھ خوش ہوں۔‘

مگر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بچی کے والد کہتے ہیں کہ اغوا کرنے والے افراد نے ورغلا کر اس بچی سے عمر سے متعلق ایک غلط بیان لیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی نے چھ جماعتیں پاس کی تھیں اور ابھی اس کا ساتویں میں داخلہ کرانا تھا۔ میری بچی تو ابھی بہت چھوٹی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سے دباؤ میں نکاح کیا گیا، جس کی قانونی حیثیت نہیں۔‘

بچی کے اہلخانہ کی طرف سے دیے گئے برتھ سرٹیفیکیٹ کے مطابق اس کی عمر 13 سال ہے۔ پاکستان میں چائلڈ میرج کے خلاف قانون چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (1929) کے تحت شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر 16 سال ہونا ضروری ہے۔

بچی کے والد اس کی بازیابی کے لیے قانونی چارہ جوئی جاری رکھنا چاہتے ہیں اور عدالت سے انصاف کے منتظر ہیں۔

گلگت میں چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے کی سربراہ دلشاد بانو کے بقول اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کی جانب سے پولیس اور انتظامیہ کو خط لکھے گئے مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود کوششیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بچی کی ویڈیو دیکھو تو یہی لگتا ہے کہ جیسے استاد بچے کو سبق یاد کرواتا ہے اور وہ سناتا ہے۔ ہم نے اس کیس کو چھوڑنا نہیں، چاہے ہمیں سڑکوں پر آنا پڑے۔‘

وہ رپورٹ جس میں بچی کی عمر 16 سال بتائی گئی

ویسے تو نادرا کے ریکارڈ میں بچی کی عمر 13 سال ہے لیکن بچی کے لاپتہ ہونے کے بعد جنوری کے دوران اس سے ایک حلف نامہ بنوایا گیا جس میں وہ اپنی عمر 16 سال بتاتی ہیں۔

اسی روز خیبر پختونخوا کے علاقے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر نے بچی کی عمر کے حوالے سے ایک سرٹیفیکیٹ تیار کیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے بچی کا معائنہ کیا اور اس کے بنیادی اور ثانوی جنسی کریکٹرز مکمل طور پر نشوونما پا چکے ہیں۔ ان کی عمر 16 برس ہے اور طبی لحاظ سے وہ بالغ لگتی ہیں۔‘

مگر جب بی بی سی نے یہ رپورٹ پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر سمیعہ طارق سے شیئر کی تو انھوں نے کہا کہ کسی کی عمر کا تعین کرنے کا یہ درست طبی طریقہ نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمر کے تعین کے دوران پہلے جسمانی معائنہ کیا جاتا ہے، اس میں ثانوی جنسی خصوصیات ہوتی ہیں وہ دیکھی جاتی ہیں۔

اس کے بعد ’(بون اوسیفیکیشن ٹیسٹ کے لیے) ہڈیوں کے ایکسرے لیے جاتے ہیں، جن سے ہڈیوں کی عمر کا تعین ہوتا ہے۔ کچھ کیسز میں عمر کے تعین میں شک رہ جائے تو پھر دانتوں کے ذریعے عمر کا پتا لگایا جاتا ہے۔‘

دریں اثنا اس کیس کے حوالے سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ رابطہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کوشش ہے کہ جنھوں نے اغوا کیا، انھیں جلد گرفتار کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر کیس ایف آئی اے کو دیا جائے گا تاہم ان کے بقول پولیس لگی ہوئی ہے اور امید ہے کہ وہ کامیاب ہو گی۔

یہ بھی پڑھیےکم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی کا انوکھا اندازدعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟’شرعی شادی‘: ’تم نکاح پڑھاؤ ہم زیادہ پیسے دے دیں گے اور ویڈیو بھی نہیں بنے گی‘پولیس نے اب تک کیا کیا؟

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس مقدمے میں مدعی کے وکیل وزیر شفیع کہتے ہیں اس کیس میں تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے بچی کے اہلخانہ خود پولیس کو شواہد فراہم کر رہے ہیں تاہم پولیس اور اعلیٰ حکام اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس کو شناختی کارڈ کے ذریعے لڑکے کے والد اور چچا کے جو بھی فون نمبر تھے وہ فراہم کیے گئے۔ کون کون سی گاڑیاں اس خاندان نے مانسہرہ، اوگی جانے اور پھر گلگت تک واپس آنے کے لیے استعمال کیں، اس کا بھی پتا لگایا اور پولیس کو بتایا۔ پولیس تین دن مانسہرہ میں رہی اور واپس آ گئی۔

’ہمیں اطلاع ملی کہ لڑکا اور لڑکی گلگت آئے لیکن پولیس نے جب تک چھاپہ مارا تب تک وہ علاقے سے نکل چکے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لڑکے کے والد کو گرفتار کیا گیا، انھوں نے تمام مالی مدد کی تھی لیکن پولیس نے ان سے نہ کسی کا نمبر نکلوایا نہ رینٹ پر لی گئی گاڑی اور بچوں کا پتا چلا۔ انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔‘

ادھر ایس ایس پی گلگت ایاز کریم نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کا دباؤ ہی تھا جس کی وجہ سے ملزمان کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور چھ تاریخ کو لڑکا گلگت میں عدالت کے سامنے پیش ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ لڑکے نے بیان دیا کہ اس کی اور لڑکی کی ’جان کو خطرہ‘ ہے۔

’لڑکے نے کہا کہ میں نے شادی کی، ہمیں پولیس اور والدین سے خطرہ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے چھاپے مارے۔ نشاندہی پر دو بار ٹیم مانسہرہ کے دو گھروں میں بھجوائی۔ کوہستان، اوگی اور مانسہر ہ گئے لیکن وہ بازیاب نہیں ہوئے۔‘

تاہم مدعی کے وکیل کا کہنا ہے کہ مقدمے میں نامزد دونوں خواتین علاقے میں موجود ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔

ملزمان کے وکیل ایڈوکیٹ عارف نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ملزمان نے عدالت سے ضمانت قبل از وقت گرفتاری لے لی ہے، کورٹ میرج بھی کی ہے۔ ’اب عمر کے تعین کے لیے طبی بورڈ کا معاملہ ہوگا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر تو ان کی عمر 16 سال سے اوپر ہے تو پھر تو یہ میاں بیوی کی حیثیت سے رہیں گے لیکن اگر کم ہے تو پھر دیکھیے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔‘

تاہم پولیس اور مدعی کے وکیل دونوں جانب یہ اتفاق رائے نظر آتا ہے کہ یہ ایک مضبوط کیس ہے کیونکہ بچی کم عمر ہے اور اس نکاح کی حیثیت اور کیس کا فیصلہ اب عدالت کرے گی۔ اگر عدالت مدعی کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو نکاح خواں، گواہ سبھی کو سزا ہو سکتی ہے۔

لیکن پھر کم عمری کے اس نکاح کی کیا حیثیت ہو گی، قانونی ماہرین کے بقول اس پر قانون خاموش ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو عارضی طور پر والدین کے حوالے کرنے کا حکمدعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟دعا زہرہ کیس سے متعلق پانچ باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More