Getty Images
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں ایک زیرِ حراست شخص کو احاطہِ عدالت میں غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے۔
مقتول کو اس وقت قتل کیا گیا جب انھیں کوہستان کے داسو سنٹرل جیل سے اغوا کے مقدمے میں عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا۔
زیر حراست ملزم کو پولیس نفری لے کر عدالت پہنچی تو صحن میں موجود ملزم تاک میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اٹھ کر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے فائرنگ کرنے والے ملزم کو قابو کرکے اس سے پستول اور گولیاں بر آمد کرلیں۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ قتل کے مقدمے کا ملزم مقتول کے خلاف اغوا کے مقدمے کا مدعی بھی ہے۔
اس مقدمے میں کہا گیا تھا کہ مقتول نے ملزم کی بیوی کو ناجائز شادی کی غرض سے اغوا کیا تھا۔
درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ قتل کے ملزم سے مزید تفتیش اور انکشافات جاری ہیں۔
واقعے کے ایک گواہ کے مطابق یہ صبح کا واقعہ ہے۔ اس وقت عدالت میں کافی لوگ موجود تھے۔
جب کوہستان سے کچھ ملزمان کو پولیس کی حراست میں لایا گیا اور وہ صحن سے گزر رہے تھے تو گھات لگائے شخص نے پولیس کی حراست میں موجود شخص پر فائرنگ کردی۔
عینی شاہد کے مطابق چند منٹوں کے لیے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہوا اور کیا ہورہا ہے۔
فائرنگ کی آواز سن کر ہر کوئی خوفزدہ ہو گیا تھا جبکہ فائرنگ کرنے والے ملزم نے موقعے سے فرار ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسے پولیس اہلکاروں نے دبوچ لیا۔
واقعے کا پس منظر کیا ہے؟
مقتول پر گذشتہ سال ناجائز شادی کی غرض سے خاتون کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ اس مقدمے کا مدعی خاتون کا خاوند تھا۔
درج مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ مقتول نے خاتون کو ناجائز شادی کی عرض سے اغوا کر لیا تھا۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد کوہستان پولیس نے دونوں کو کشمیر سے گرفتار کر لیا تھا۔
پولیس کے مطابق دوران تفتیش خاتون نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اس کو اغوا نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم پہلے سے شادی شدہ ہونے کی بنا پر خاتون کو بھی جیل بھیج دیا گیا تھا، اس مقدمے کا ٹرائل شروع ہوچکا تھا۔
مقتول اور جیل میں جوڈیشنل ریمانڈ پر موجود خاتون اس مقدمے میں جیل سے ضمانت نہیں کروانا چاہتے تھے۔
مقتول کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ دونوں کا خیال تھا کہ وہ جیل میں محفوظ ہیں۔ اگر وہ ضمانت پر باہر نکلے تو ان کو قتل کردیا جائے گا۔
مقتول کے ایک اور قریبی رشتہ دار نے بتایا کہدونوں کو چور قرار دے دیا گیا تھا۔ کوہستان کے رسم و رواج کے مطابق غیرت کے معاملے میں لوگوں کو چور قرار دیا جاتا ہے۔
کوہستان میں عموماً اس طرح کے واقعات میں مقدمات درج نہیں کروائے جاتے ہیں۔
کوہستان میں ’نام نہاد غیرت‘ کے نام پر ایک اور لڑکا لڑکی قتل: ’وقوعہ پر پہنچے تو لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں‘کوہستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر لڑکی کا قتل، تصاویر وائرل کرنے والے ملزم کی تلاش کے لیے ایف آئی اے سے مدد طلبکوہستان میں ’غیرت کے نام‘ پر دو خواتین سمیت چار افراد قتلGetty Images
مگر ان دونوں پر مقدمہ اس لیے درج کروایا گیا تھا تاکہ پولیس ان کو بر آمد کر کے کوہستان واپس لائے اور ان دونوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جائے۔
رشتہ دار کے مطابق یہ ہی وجہ تھی کہ مدعی مقدمہ دونوں کی گرفتاری کے بعد مقدمے کی پیروی فعال طریقے سے نہیں کررہا تھا، بلکہ وہ چاہتا تھا کہ دونوں کو ضمانت یا رہائی ملے اور وہ ان کو قتل کرسکے۔
مگر دوسری طرف مقتول اور جیل میں موجود خاتون بھی مقدمے میں اپنی رہائی اور ضمانت نہیں چاہتے تھے جس بنا پر جب ملزم کو موقع ملا تو اس نے عدالت میں حملہ کرکے قتل کردیا۔
جیل میں موجود خاتون کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔
بشام پولیس کے اہلکار عمران اللہ کا کہنا تھا کہ ملزم کو ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد تفتیش ہوگی کہ وہ کس طرح اسلحے کے ساتھ احاطہ عدالت میں داخل ہوا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس واقعے میں شریک کسی بھی ملزم کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
کوہستان خیبر پختونخوا کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے۔ جہاں پر اس وقت تین اضلاع قائم ہیں۔
سنہ 2012 میں بھی ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں مئی 2010 میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
تاہم گذشتہ برسوں کے دوران افصل کوہستانی سمیت ان کے چار بھائیوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد بھی کوہستان سے ایسے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کر کے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں
انسانی حقوق کے کارکن امان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کوہستان ویڈیو سکینڈل پہلا واقعہ تھا جس میں غیرت کے نام پر قتل پر کسی نے آواز بلند کی تھی۔
افضل کوہستانی پہلا شخص تھا جس نے یہ جرات کی تھی۔ پہلے تو یہ واقعات منظر عام پر نہیں آتے تھے اب اکا دکا واقعات میڈیا میں آجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے اعداد و شمار دینا تو ممکن نہیں مگر وہاں پر یہ عام بات ہے اور غیرت کے نام پر قتل کر کے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب کسی کو چور قرار دیا جائے تو پھر اس کا قتل فرض سمجھا جاتا ہے اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ چور قرار دیے جانے والے لڑکے اور لڑکی کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ چور قرار دیئے گے شخص کو تلاش کرکے بڑھاپے میں بھی قتل کیا گیا ہے۔
امان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جیل میں موجود خاتون کی زندگی خطرے میں ہے۔ اگر ایک ملزم گرفتار ہوا ہے تو خاتون کے کچھ قریبی عزیزرہا ہوں گے جو اس تاک میں ہوں گے کہ کب موقعہ ملے اور وہ اس خاتون کو بھی قتل کردیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی رسم و رواج کے مطابقکوہستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کو عدالتوں میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کوئی بھی گواہی کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی تفتیشی اداروں سے تعاون کیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اکثر اوقات غیرت پر قتل کرنے والے ملزماں بری بھی ہوجاتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل: ’آواز اٹھائی تو مار دیے جاؤ گے‘غیرت کے نام پر قتل کا خدشہ: کوہستان کی لڑکی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکمکوہستان: ’غیرت کے نام پر اگر لڑکی کا قتل ہو جائے تو پھر لڑکے کا قتل بھی لازمی ہو جاتا ہے‘