اپنے جنسی عدم اطمینان کے بارے میں کُھل کر بات کرنے کا میرا تجربہ کیسا رہا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 16, 2024

Getty Images

میں ایک مرد ہوں اور ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں، میں بات کرنا پسند نہیں کروں گا۔ 35 سال کی عمر میں، میں ایسی باتو کو چھپانے کو ترجیح دوں گا اور امید کروں گا کہ وہ وقت کے ساتھ غائب ہو جائیں۔

جیسا کہ بعض اوقات ذہنی دباؤ کے زیر اثر میں صرف یہ ثابت کرنے کے لیے سیکس کرتا ہوں کہ میں ’مرد ہوں‘ اور میں اکثر اوقات اپنے پارٹنر کے ساتھ صرف اس لیے رومانوی تعلق قائم کرتا ہوں تاکہ شرمندگی سے بچ پاؤں اور میرے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔

ایسے بہت سے عوامل ہیں جنھوں نے میری جنسی زندگی کو اُس وقت سے متاثر کیا جب میں نوعمر تھا۔ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میں برسوں خاموش رہا اور اس ضمن میں لی جانے والی تھراپی کے دوران ہی اُن پر بات کی۔

ایسی صورتحال میں چند دن پہلے کچھ ایسا ہوا جس پر میں حیران رہ گیا۔ میں نے ایک ورچوئل (آن لائن) میٹنگ میں اجنبی مردوں کے سامنے اپنے جنسی خوف اور مایوسیوں کے بارے میں بات کی۔

اس میٹنگ میں وہ مرد بھی شامل تھے جو غیرشادی شدہ تھے یا بچوں کے باپ تھے۔

اس قسم کی ویڈیو کال یا میٹنگ خاصی عجیب ہو سکتی تھی لیکن مجھے اب بھی اس بات پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ یہ ورچوئل میٹنگ میرے لیے کتنی اچھی ثابت ہوئی۔

’مرد‘ ہونا

یہ ورچوئل گفتگو اکتوبر 2023 میں ایک اخبار میں ’میرا اداس عضو تناسل‘ کے نام سے شائع ہونے والے میرے مضمون کے بعد شروع ہوئی۔

میں نے اس آرٹیکل میں بیان کیا کہ کیسے معاشرے میں جنسیت سے متعلق رائج چند دقیانوسی خیالات نے میری جنسی زندگی کو متاثر کیا۔

مجھے اپنے پارٹنر سے پیار ہے، میرے دو بچے ہیں، میں مالی اور پیشہ ورانہ طور پر ٹھیک جا رہا ہوں۔ ظاہری طور پر میں دنیا کی ہر اس امید پر پورا اُترتا ہے جس کی وہ ایک مرد سے توقع کرتی ہے۔

مگر ایسا نہیں ہے۔

میں اکثر بُرے سیکس کی جانب لوٹ جاتا ہوں۔ وہ سیکس جس میں میں محسوس کرنے سے زیادہ اظہار کرنے کی کوشش میں پریشان رہتا ہوں، ایسا سیکس جس میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی بلکہ ایک ضرورت ہوتی ہے جس میں آپ کے مقابل شخص ایک جیتے جاگتے انسان کے بجائے ایک شے کی حیثیت رکھتا ہے۔

سنہ 2023 میں شائع ہونے والا میرا آرٹیکل میرے 15 سالہ صحافتی کریئر کی سب سے مشکل تحریر تھا۔ اسے لکھنے میں مجھے دس ماہ لگے اور اس دوران میں نے کئی بار اسے ادھورا چھوڑ دینے کے بارے میں بھی سوچا، اس لیے نہیں کہ میں اس آرٹیکل میں شامل تفصیلات کو لے کر شرم محسوس کرتا تھا بلکہ اس لیے بھی کہ مجھے اپنے آرٹیکل کے دوسروں کے لیے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے شک تھا۔

لیکن اس آرٹیکل کو لکھنے کے دوران میں نے کچھ ایسا کرنا شروع کیا جو میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا: میں نے اپنے دوستوں سے اُن کی جنسی زندگی کی وہ تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں جن کی وجہ سے وہ بے سکون محسوس کرتے ہیں۔

مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بہت سے لوگوں نے صرف میرے پوچھنے پر ہی اپنی جنسی زندگی میں درپیش مسائل پر بات کرنا شروع کر دی اور مجھے بتایا کہ اس سے ان کی زندگی کیسے متاثر ہوئی۔

پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی جنسی زندگی کی پیچیدگیوں کی کہانی سے فائدہ اٹھا کر زیادہ گہری گفتگو شروع کروں۔

اور اس طرح مجھے یہ خیال آیا جس کے ساتھ میں نے اپنے آرٹیکل کو ختم کیا: ’مجھے اس بارے میں بات کرنے میں شرم آتی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ صرف میرا مسئلہ ہے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں کُھل کر اظہار کرنا ایک ایسی بات چیت شروع کرنے میں مدد دے سکتا ہے جہاں ہم یہ محسوس کر سکیں کہ ہمیں سُنا، دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ مجھے اس بارے میں مزید مردوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اچھا لگے گا اگر کچھ مرد مجھ سے بات کرنے کی ہمت کریں۔‘

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنی ای میل کی لسٹ میں لوگوں کو یہ پیغام بھیجا تو مجھے ایسا ہی محسوس ہوا جیسا اس خواب کے بعد ہوتا ہے جس میں، میں گلی میں بغیر کپڑوں کے چلا جاتا ہوں۔ میں بے نقاب ہو چکا تھا اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

سات ہزار سے زیادہ افراد نے اس پیغام کو پڑھا اور اس پر تبصرے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ابتدائی طور پر یہ تبصرے خواتین کی جانب سے تھے، جو مردوں کو اس بارے میں بات کرنے کی دعوت دے رہی تھیں۔

لیکن بعد میں بہت سے مرد جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، انھوں نے مجھے جواب دیا اور سٹوری پر میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ بات کرنے پر تیار ہیں۔

بہت شاندار۔۔۔ ابتدائی طور پر میں یہ ہی تو چاہ رہا تھا۔

لیکن جب میں نے اس پر زیادہ کام کرنے کی کوشش کی تو میں تھوڑا جذباتی ہو گیا: دوسروں کی کہانیاں جاننے والا میں کون ہوتا ہوں جب میں اپنی کہانی کو بیان نہیں کر سکتا۔

اجتماعی طور پر جنسی عدم اطمینان کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک جگہ بنانے کی ذمہ داری لینے کے خیال نے مجھے جذباتی کر دیا، ایک ایسا موضوع جو بہت سے معاشروں میں مردوں میں ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے یہ بھی سوچا کہ میں ان لوگوں سے بات نہیں کروں گا، جنھوں نے مجھے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔

اپنی تحریر کے شائع ہونے کے تین ماہ بعد میں نے زوم پر بات چیت کا اہتمام کیا، جس کے لیے 12 مردوں نے خود کو رجسٹر کرایا۔

اور یہاں سے ہی ’اداس عضو تناسل کلب‘ کا آغاز ہوا۔

’آپ اپنے بارے میں ہمیں کیا بتا کر خوف محسوس کریں گے؟‘

بہت سے لوگوں نے آخری وقت میں اس میٹنگ میں شمولیت کا فیصلہ ترک کر دیا۔ آخر میں سات مردوں نے مجھ سے رابطہ کیا جن کی عمریں 20 سے 40 برس کے درمیان تھیں۔

بات چیت کی ذمہ داری خود پر لینے کا خوف جلد ہی ختم ہو گیا۔ میں نے رازداری قائم رکھنے کے لیے کچھ تجاویز دیں تاکہ سب بات کرتے ہوئے محفوظ محسوس کریں۔

میں نے پہلا سوال پوچھا تاکہ سب ایک دوسرے کو جان سکیں: آپ کی جنسی زندگی کے بارے میں ایسا کیا ہے، جو آپ ہمیں بتاتے ہوئے خوف محسوس کریں گے؟

میں نے جواب دینا شروع کیا: ’میں 13 سال سے تھراپی میں ہوں اور اب بھی ایسے وقت آتے ہیں جن میں مسائل میری جنسی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔‘

پھر دوسروں نے جواب دینا شروع کیا: ’اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ سیکس کیے ہوئے مجھے مہینوں گزر جاتے ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا باقی کا تعلق ٹھیک ہے یا نہیں۔‘

ایک اور شخص نے جواب دیا: ’دوران سیکس میرا دماغ بھٹک جاتا ہے، میرا دماغ پورن تصاویر کی طرف چلا جاتا ہے۔‘

ایک اور نے کہا: ’میں ہم جنس پرست ہوں اور جذباتی وابستگی کے بغیر مجھے سیکس میں مزہ نہیں آتا لیکن بہت سے لوگ اس سے برعکس مجھ سے توقع رکھتے ہیں۔‘

کسی نے بھی من گھڑت جواب نہیں دیا۔ سب نے کُھل کر اس بارے میں بات کی جو ہم عام طور پر چھپاتے ہیں۔ ایسا کرنا بہت پرسکون تھا۔

کیوں کہ ہماری تعداد بہت زیادہ نہیں تھی اس لیے ہم تفصیل سے بات کر سکتے تھے اور ہم سب نے اس گفتگو میں بھرپور شرکت کی۔

ابتدا میں ہی ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوئی کہ ہم میں سے اکثریت کے جنسی تعلقات ایک قسم کی لاتعلقی میں قائم ہوتے ہیں جہاں جسم ایک جانب جا رہا ہوتا ہے جبکہ ذہن دوسری جانب جا رہا ہوتا ہے۔

ہمارے لیے توقعات کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے اور ہمارے اندر ایک محتسب ہوتا ہے جو جنسی تعلقات کے دوران اس کے جائزے کا انچارج ہوتا ہے اور وہ ’کیا ہو رہا ہے‘ اور ’کیا ہونا چاہیے‘ کے درمیان موازنہ کر رہا ہوتا ہے۔

ہم میں سے متعدد لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ہمارے ذہنوں میں ہونے والی گفتگو رومانی تعلق قائم کرنے کے خلاف ایک دفاعی نظام ہے۔ ہم بستر میں مرد ہونے کے غیر متزلزل معیار کو پورا کرنے کے متعلق اتنا سوچتے ہیں کہ ہمیں سامنے موجود انسان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

اور یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ جنسیت ایک اور صورتحال ہے جس میں ہم تنہا محسوس کرتے ہیں۔

ہم نے یہ سوچا کہ یہ خیال کہاں سے آیا ہے کہ سیکس کو ہمیشہ ایک ہی سکرپٹ پر چلنا ہوتا ہے، اگر ایستادگی (ایریکشن)، دخول (پینیٹریشن) اور انزال (ایجیکیولیشن) کے سکرپٹ کے مطابق تعلقات نہ جائیں تو ہم کیوں مایوس اور پریشان محسوس کرتے ہیں۔

متعدد لوگوں نے کہا کہ اگر اس سکرپٹ کے مطابق چلا جائے تو کچھ عرصے بعد سیکس حیران کن اور خوشگوار نہیں رہتا بلکہ بس تناؤ کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔

اس میٹنگ میں حصہ لینے والے ایک شخص نے بتایا کہ اپنے طویل مدتی تعلقات میں بار بار ایک ہی چیز کو دہرانے کی روایت کو توڑنے کے لیے انھوں نے اور ان کے ساتھی نے اتفاق کیا کہ وہ اس گھسے پٹے سکرپٹ سے باہر نکل کر کچھ اور کریں گے۔

کبھی کبھار وہ صرف برہنہ ہو کر ایک دوسرے کی مالش کرتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں یا پھر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے وقت گزارتے ہیں جس میں وہ ایک دوسرے کو ہیجانِ شہوت کے قریب لا کر رک جاتے ہیں اور دوسرے کو پوری طرح مطمئن نہیں ہونے دیتے۔

گفتگو میں حصہ لینے والے ایک اور شخص نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اپنے جنسی اعضا کے علاوہ کہاں سے انھیں راحت اور لذت مل سکتی ہے اس کے بارے میں انھیں علم نہیں ہے۔ اور باقی افراد بھی اس بات سے متفق نظر آئے۔

اور یہ مثال کے طور پر ہماری مشت زنی کے طریقے سے واضح ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو راحت دینا چاہتے ہیں تو ہم زیادہ نہیں سوچتے سیدھا ایستادگی، رگڑ اور ہیجانِ شہوت کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

جب کسی نے یہ صلاح دی کہ ہمیں جنسی اعضا کو اکسائے بغیر جسمانی راحت حاصل کرنے کے طریقوں کو ڈھونڈنا چاہیے تو ہم سب اس بات پر مسکرائے۔ انھوں نے کہا ہم یہ بالوں کی مساج یا جسم کو وائبریٹ (ہلا) کر حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔

کسی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اپنے آپ کو شہوت حاصل کرنے کے دیگر طریقوں کو تلاش کرنا، ایک دوسرے کو اچھی طرح جاننا اور پھر اس راحت کو بڑھانے کے لیے ساتھی کو مدعو کرنا ہے تو شاید اس سکرپٹ سے باہر نکلنے کی مشکلات میں شامل ہیں۔

BBCکون زیادہ بہتر مرد ہے؟

یہ جاننا دلچسپ بات تھی کہ ہم کس طرح دوسری عوتوں اور مردوں کو مقابلے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

شاید جزوی طور پر اسی وجہ سے ہم جنسی کارکردگی کے جنون میں مبتلا ہیں: میں کتنی دفعہ ہیجان شہوت کا باعث بنا، کتنی دیر انزال روک کر رکھا، میرے عضو تناسل میں کتنی ایستادگی آتی ہے، اور میں کتنی دفعہ سیکس کرتا ہوں؟

اس طرح اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے سے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

میں منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں اورریاست کے خانہ جنگی کے بدترین سالوں کے دوران میڈلین شہر میں پیدا ہوا اور پرورش پائی۔ میں نے بچپن میں منشیات بیچنے والوں کو سڑکوں پر دیکھا، وہ اپنے بڑے ٹرکوں سے یا موٹرسائیکلوں سے اُترتے اور ان کے ساتھ ہمیشہ ایک خاتون ہوتی تھیں جو ان کی اپنی جنسی خواہشات کا خاکہ ہوتی تھیں۔

ایسے لوگوں کو اعلیٰ درجے کا مرد (ایلفا میل) اور کامیاب مرد کا معیار سمجھا جاتا تھا: جو کچھ بھی وہ چاہتے تھے وہ ان کے پاس تھا، بغیر پچھتاوے کے خالص طاقت ان کے پاس تھی۔

مجھے اور میرے دوستوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ ہم نے اس ماڈل کو اپنا معیار بنا لیا۔ ان سے کم ہونا کمزوری تھی۔

سیکس وہ میدان تھا جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے۔

مجھے یاد ہے 90 کی دہائی کے اواخر میں جب میں چھوٹا بچہ ہی تھا تو مرکزی شاہراہ پر برہنہ خواتین کے بل بورڈز آویزاں ہوتے تھے اور جب میں سکول پہنچا تو وہاں ہماری نوٹ بک کے کور پر نیم برہنہ خواتین ماڈلوں کی تصویریں ہوتی تھیں۔

عورت کا جسم معاشرے میں مقام حاصل کرنے کی کرنسی تھی۔

ہمیں دوسرے مردوں سے اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کے بارے میں بات کرنا زیادہ مشکل محسوس ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم ایسا برتاؤ کریں جیسے سب ٹھیک ہے یا کم از کم یہ کہ حالات قابو میں ہیں اور مردانگی کے تصور پر سوال نہیں اٹھاتے کیونکہ یہ ہماری شناخت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔

لیکن یہ 90 منٹ کی گفتگو اس بات کا ثبوت تھا کہ زیادہ آزاد اور بہتر محسوس کرنے کے دیگر طریقوں کو ڈھونڈنے کا عمل ضروری نہیں تنہائی میں ہی ہو۔

ہم نے اپنے آپ کو خود سے پہنچائے گئے نقصان کا اقرار کیا، ہم ہنسے بھی اور کُھل کر اپنی بات بھی کہی۔

مجموعی طور پر یہ امید پیدا کرنے والی ورچوئل ملاقات تھی: ’ہاں ہم ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن ہم نے اپنے پرزوں کو دوبارہ جوڑنے کا انتخاب کیا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ہر مہینے ایسے ہی ملیں گے کیونکہ ہم چار مختلف شہروں سے ہیں۔‘

میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ رات مردانگی کے تصور کے دیگر امکانات کے بارے میں سیکھنے کے میرے عمل میں سب سے زیادہ پرجوش اور شدید رہی ہے۔

اس میٹنگ کے بعد جو چیلنج میں محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیسے اس گفتگو کو اپنی زندگی کے دیگر شعبوں تک لے کر جانا ہے تاکہ مردوں کے درمیان یہ اہم اور تبدیل کرنے والا تعلق صرف جنسی عدم اطمینان والے معاملات پر بات کرنے تک محدود نہ رہے۔

میں اپنے والد، اپنے بھائیوں، اپنے دوستوں، ساتھیوں اور اجنبیوںکے ساتھ کیسے قریبی تعلقات قائم کر سکتا ہوں؟ ہم کیسے طاقت کے روایتی نظریے سے دور ہو سکتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو کیسے ڈھونڈ سکتے ہیں اور اپنے زخموں پر کیسے مرہم رکھ سکتے ہیں؟

مجھے لگتا ہے کہ ہم زخمی مردانگی کے صدیوں سے ٹوٹے ہوئے تصور کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

اب میں آپ کو مزید بات چیت کرنے کے لیے دعوت دیتا ہوں۔

کچھ خواتین سیکس کے اختتامی مرحلے میں ہیجان شہوت حاصل کیوں نہیں کر پاتیں اور اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟میسٹربیشن یا خود لذتی کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟آپ کی جنسی زندگی کو بہتر بنانے کا وعدہ کرنے والی چند ایپس
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More