’سرپرائز‘ یا ’ہنگامی‘ دوروں کا مقصد محض سیاسی تشہیر ہوتی ہے یا اس سے عوام کو فائدہ بھی ہوتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 04, 2024

وزير اعلی پنجاب مريم نواز نے اپنے عہدے کا منصب سنبھالتے ہی صوبائی دارالحکومت لاہور میں مختلف مقامات کے دوروں کا آغاز کیا ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے کچھ دیر بعد ہی وہ لاہور میں واقع ایک پولیس سٹیشن پہنچیں، دوسرے دن انھوں نے میو ہسپتال اور اس کے بعد سیف سٹی کے آفسز کا دورہ بھی کیا۔

سرکاری سطح پر میو ہسپتال کے دورے کی تشہیر کچھ اس انداز میں کی گئی ’وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف ویٹنگ روم میں دو خواتین کوپریشان دیکھ کر رُک گئیں، ہسپتال انتظامیہ کو ان کے بیمار والد کی بہترین کیئر کا حکم۔۔۔‘ ’مریضوں اور لواحقین کا وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کو دیکھ کرخوشی کا اظہار۔۔۔‘ وغیرہ

وہ صوبہ پنجاب کی پہلی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں جنھوں نے حلف اٹھانے کے فوری بعد اِس نوعیتکے دورے کیے ہیں۔ ایسے دورے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبے میں سابقہ ادوار میں بھی ہوتے رہے ہیں۔

ان دوروں کو لے کر جہاں ایک طرف حکمران پارٹی سے منسلک افراد نئی وزیراعلیٰ کی تعریفوں میں پُل باندھتے نظر آئے تو وہاں بہت سے لوگوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس نوعیت کے دوروں سے رائج نظام پر یا عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف نے سوال کیا کہ ’ماضی کے ادوار میں بھی اس نوعیت کے ہنگامی اور سرپرائز دورے بکثرت ہوا کرتے تھے، تو کیا دہائیوں سے چلے آنے والے اس رواج کی بدولت آج پنجاب کا تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے؟ کیا سرکاری ہسپتالوں میں لواحقین کو علاج کی بہتر سہولیات میسر آ چکی ہیں، کیا سرکاری اداروں سے عوام کو باآسانی ریلیف مل رہا ہے؟‘

بہت سے صارفین ایسے بھی ہیں جو اس نوعیت کے دوروں کو محض ’پی آر سٹنٹ‘ (یعنی تشہیری مہم) قرار دے رہے ہیں جبکہ چند کا خیال ہے کہ یہ دورے اتنے بھی غیرفائدہ مند نہیں کیونکہ یہ سرکاری مشینری اور افسران کو متحرک رکھتے ہیں چنانچہ کسی نہ کسی حد تک ان کا فائدہ عوام کو پہنچتا ہے۔

یہی وہ سوالات ہیں جن کے جواب شاید ہم اور آپ بھی جاننا چاہیں گے مگر اس سے پہلے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں سرپرائز وزٹ یا ہنگامی دوروں جیسے اقدامات کا آغاز کب ہوا؟

یہ روایات کیسے اور کہاں سے شروع ہوئی؟

ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو شہباز شریف سے لے کر عثمان بزادر تک بیشتر عوامی عہدیدار اس نوعیت کے دوروں کی باعث خبروں میں اپنی جگہ بناتے رہے ہیں مگر یہ سلسلہ اس سے کافی پرانا ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے دورے پُرانے دور سے ماخوذ ہیں جب حکمران اور مسلمان خلیفہ بھیس بدل کر بازاروں میں پہنچ جاتے تھے اور وہاں صورتحال کا جائزہ لیتے تھے۔ ان کے مطابق اس نوعیت کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’سرپرائز وزٹس‘ جیسا عمل پاکستان کے قیام کے بعد روایتی سیاست کا حصہ نہیں تھا اور اس کی ابتدا پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں ہوئی اور نواز شریف کے اسی کی دہائی میں پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد تواتر کے بعد ایسے دورے سامنے آتے رہے۔

صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’اس کی مثالیں جنرل ایوب خان کے دور میں نواب آف کالا باغ اور اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے بھی ملتی ہیں مگر اس دور میں ایسے دورے چیدہ چیدہ ہی ہوتے تھے۔‘

’نوے کی دہائی میں ایسے دوروں میں خاصہ اضافہ ہوا اور پنجاب کی حد تک نوے کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعلیٰ نے اس طریقے کو اپنایا۔ جس کا بڑا مقصد ایسے دوروں کی میڈیا کے ذریعے کوریج سے عوام میں اپنے مثبت تاثر میں اضافہ کرنا تھا۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’پنجاب گورنس کے لحاظ سے مشکل صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں کے وزرائے اعلیٰ کو اس نوعیت کے اقدامات اور دورے زیادہ کرنے پڑتے ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ صوبے میں بہت کام ہو رہا ہے۔‘

سلمان غنی کے مطابق ’نواز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے بھی اس نوعیت کے دورے کیے مگر یہ زیادہ نہیں تھے۔ اس کے بعد منظور وٹو نے اپنی سیاسی ساکھ اور عوام میں اپنی قبولیت پیدا کرنے کے لیے ایسے اچانک اور ہنگامی دورے کیے اور اس کی وجہ یہ تھی کیونکہ وہ 18 سیٹوں کی مدد سے آئے ہوئے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کے بعد شہباز شریف کے ادوار میں یہ کام سب سے زیادہ ہوا جبکہ عثمان بزدار نے بھی یہ کام کیا۔ اور اب بظاہر عہدے کا حلف لیتے ہی مریم نواز نے بھی چند دورے کیے کیونکہ شاید وہ سمجھتی ہیں کہ گورننس کے معاملے میں انھوں نے اپنے چچا کی سیاسی میراث کو ہی آگے بڑھانا ہے۔‘

ایسے دورے واقعی فائدہ مند ہوتے ہیں یا نہیں؟

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہی ایسے دوروں سے کوئی فرق پڑتا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 'ان سرپرائز وزٹس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ جو سسٹم نہیں چل پا رہا ہوتا وہ وقتی طور پر تھوڑا فعال ہو جاتا ہے اور کچھ وقت کے لیے لوگوں کو اس سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ مگر منفی پہلو یہ ہے کہ اس نوعیت کے دورے ظاہر کرتے ہیں کہ سسٹم خود سے چل نہیں پا رہا اور اس کے لیے صوبے کے سب سے بڑے عہدیدار کو دھکا لگانا پڑ رہا ہے جو سسٹم کی خرابی کی دلیل ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ’سرپرائز وزٹس‘ سے گورننس کے نظام کو دھکا لگانے کے بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’ایسے دورے سسٹم کی خرابیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سسٹم میں کس قدر خرابی ہے کہ ایک اعلیٰ ترین عہدیدار کو ہر جگہ جا کر معاملات کو خود چیک کرنا پڑ رہا ہے۔ وزير اعلیٰ کا اصل کام یہ نہیں کہ وہ اس نوعیت کے دوروں میں وقت گزارے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے جس سے انتظامی امور خود سے اور اچھے انداز میں چل سکیں اور سرکاری افسران اور ادارے خود سے کام کریں۔‘

’یہ دورے محض ایک ڈرامہ ہوتے ہیں جو پنجاب میں ہر وزیر اعلیٰ کرتا رہا ہے‘

وزير اعلیٰ ہاؤس پنجاب میں کام والے ایک اعلی افسر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے تین وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کام کیا ہے۔ سب کو ہی یہ کام (سرپرائز وزٹ) کرنا پسند تھا۔ اس کام کے لیے خصوصی میڈیا کی ٹیم اور فوٹوگرافر موقع پر موجود ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر ہم نے کسی جگہ دورے کے لیے جاتا ہوتا تھا تو پہلے سے ہی زیادہ تر چیزیں سیٹج کر لی جاتی تھیں۔ میرے خیال میں یہ محض ایک ڈرامہ ہوتا تھا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اتنا ضرور ہوتا ہے کہ بیوروکریٹس اور سرکاری عملہ الرٹ ضرور ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کسی بھی وقت چھاپہ مار سکتا ہے۔ اس سے زیادہ ان دوروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘

اس بارے میں مزيد بات کرتے ہوتے پی ٹی وی سے منسلک سینیئر صحافی شاہین فاروق نے کہا کہ ’ہمارے ادارے کی ایک ٹیم ہر وقت وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہر وقت موجود ہوتی تھی، انھیں پہلے ہی بتا دیا جاتا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے ہنگامی دورہ کرنا ہے، تیار ہو جائیں۔‘

صحافی ماجد نظامی کے مطابق ’ایسے طوفانی، اچانک یا ہنگامی دوروں کا مقصد صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ فوری توجہ اور شہرت حاصل کی جائے تاکہ عوام میں یہ تاثر پیدا کیا جا سکے کہ حکمران عوامی اور فلاحی منصوبوں کے لیے فکر مند ہیں اور وہ عوامی مفاد کے منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

سلمان غنی کے مطابق ’اچھا حکمران وہ ہے جو لاہور میں بیٹھ کر انتظامی اُمور اچھے طریقے سے چلا سکے، نہ کہ سیاسی محرکات کے پیچھے لگ کر سارا زرو دورے کرنے پر رکھے۔‘

شہباز شریف: ٹکراؤ کے مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے حامی، نئے پاکستانی وزیرِاعظممریم نواز: ’پارٹ ٹائم سیاست دان‘ سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ تک کا سفر
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More