Getty Imagesشہباز شریف ماضی میں بھی 17 ماہ پاکستان کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں
شہباز شریف کا وزیراعظم کے طور پر پہلا دور صرف 16 ماہ تک محدود رہا۔ عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے وزارتِ عظمی کی کرسی سے ہٹا کر جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔
تین بار کے سابق وزیراعظم نواز شریف لندن میں تھے اور اس وقت ان کی حیثیت ایک سزا یافتہ مجرم کی تھی جو انتخابات میں حصہ لینے یا کوئی سرکاری عہدہ رکھنے کے اہل نہیں تھے۔
تاہم اتوار کے روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے لیے ہونے والے ووٹ کے دوران جب شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے بیٹھے تھے تو نواز شریف بھی پاس ہی ایوان میں موجود تھے۔
نواز شریف قومی اسمبلی کے صرف ایک رُکن کے طور پر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو دوسری مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم بنتے دیکھ رہے تھے۔ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ میں ایسا منظر پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا تھا۔
سنہ 1997 کے بعد جب بھی ن لیگ اقتدار میں آئی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نواز شریف ملک میں ہوں، اہل بھی ہوں، الیکشن بھی جیت جائیں مگر پھر بھی وزیراعظم نہ بنیں۔ وہ ہر مرتبہ وزیراعظم بنے اور شہباز شریف صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔
پنجاب میں انھوں نے لگ بھگ 13 برس تک وزیراعلیٰ کے طور پر حکومت کی۔ سنہ 2008 سے 2018 تک دس برس کے ان کے دورِ حکومت میں ان کے بارے میں ایک ’سخت ایڈمنیسٹریٹر‘ ہونے کا تاثر سامنے آیا۔
اس دوران انھوں نے کئی بڑے منصوبے مکمل کیے اور کچھ شروع کیے۔ ان میں سے اورنج لائن جیسے کئی منصوبوں پر ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم ساتھ ہی ان کے بارے میں یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ وہ ترقیاتی منصوبے کم وقت میں مکمل کرواتے ہیں۔
تاہم سنہ 2022 پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد اپنے دورِ حکومت میں وہ ’سخت ایڈمنسٹریٹر‘ یا ’شہباز سپیڈ‘ جیسا کوئی تاثر قائم نہیں کر سکے۔ ماہرین کے مطابق نہ ہی شہباز شریف ’ملکی معیشت کو سنبھالنے‘ کی اس بات پر پورے اترے جس پر انھوں نے حکومت سنبھالی تھی۔
تاہم اگست 2023 میں اپنی حکومت کی مدت پوری ہونے پر شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ ’انھوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ جن حالات میں ان کو معیشت ملی وہ 17 مہینوں میں جتنی بہتر کی جا سکتی تھی انھوں نے کی ہے۔‘
شہباز شریف کیسے صوبے کے اقتدار سے ملک کے اقتدار کے مالک بنے اور پھر ن لیگ کے قائد نواز شریف کی موجودگی میں دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے، ان کے سیاسی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
Getty Imagesجب شہباز شریف پہلی باروزیراعظم بنے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھےبزنس مین سے سیاستدان تک کا سفر
سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد خاندان کا کاروبار سنبھالا۔ صحافی سلمان غنی ایک طویل عرصے سے شریف خاندان اور ان کی جماعت کی سرگرمیوں پر رپورٹ کرتے رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سنہ 1985 میں شہباز شریف لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر بنے تھے۔
’اس دور میں مجھے یاد ہے کہ ان کے پاس ایک شیراڈ گاڑی ہوا کرتی تھی اور وہ خود اس میں سامان رکھ کر اپنی جماعت کے کارکنوں تک پہنچایا کرتے تھے۔‘
سلمان غنی کے خیال میں میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کی سیاست کو بڑھاوا دینے میں شہباز شریف کا مرکزی کردار رہا ہے۔
’وہ بہت محنت کرتے تھے۔ خاندان میں بھی شروع ہی سے ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ محنتی اور انتہائی اچھے منتظم ہیں۔‘
کاروبار کو بڑھاوا دینے کے بعد انھوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو پہلی بار شہباز شریف سنہ 1988 کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رُکن بنے۔
سنہ 1990 میں قومی اسمبلی اور سنہ 1993 میں دوبارہ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسی سال وہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی بنے۔
شہباز شریف: پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ملک کی وزارتِ عظمٰی تک کا سفروزیراعظم شہباز شریف کے دورِ حکومت میں کتنی مہنگائی ہوئی اور پاکستان کی معاشی کارکردگی کیسی رہی؟حمزہ شہباز: سیاست میں تایا کا شاگرد جو سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ماہر ہےمشرف نے کہا ’شہباز شریف وزیرِاعظم ہوتے تو بہتر ہوتا‘
سنہ 1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے کامیابی سمیٹی تو شہباز شریف پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے۔ صحافی اور سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی اس دور کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے بتایا کہ ’شہباز شریف طبعاً ایک محنت کرنے والے شخص تھے اور انھیں اپنا مقرر کیا گیا ہدف پورا کرنے کا جنون ہو جاتا تھا۔ اچھا منتظم ہونے کی وجہ سے انھوں نے پنجاب میں ایک اچھی ٹیم بنائی۔‘
شہباز شریف نے صوبے میں کئی منصوبے شروع کیے تاہم ان کی حکومت وقت سے پہلے اس وقت ختم ہو گئی جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے سنہ 1999 میں مارشل لا نافذ کر دیا اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
صحافی مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اس وقت جو بھی حالات بنے، ان میں شہباز شریف کا کوئی کردار ثابت نہیں ہوا تھا۔
’وہ بنیادی طور پر محاذ آرائی کے قائل نہیں تھے۔ ان کا ہمیشہ یہ مؤقف ہوتا تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘
مجیب الرحمان شامی بتاتے ہیں کہ ایک موقع پر پرویز مشرف نے بھی کہا تھا کہ ’اگر وہ (شہباز شریف) وزیراعظم ہوتے تو بہتر ہوتا۔‘ تاہم شریف خاندان کے دونوں بھائیوں کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ اور غداری کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
Getty Imagesسنہ 1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے کامیابی سمیٹی تو شہباز شریف پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلٰی منتخب ہوئےمشرف سے ڈیل اور جلا وطنی
سنہ 2000 میں شریف خاندان کی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل ہوئی جس کے بعد وہ جلا وطن ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔
صحافی مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس وقت بھی نواز شریف اور دیگر رہنماؤں کے خلاف جو مقدمات بنے، ان میں شہباز شریف کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہو پایا تھا۔
’وہ ملک سے جلا وطن نہیں ہونا چاہتے تھے اور انھوں نے بہت کوشش بھی کی کہ انھیں باہر نہ بھیجا جائے۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بتاتے ہیں کہ شہباز شریف نے جیل کے اندر سے بھی اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو کئی خط لکھے۔
’ان خطوط میں وہ نواز شریف کو یہی مشورہ دیتے رہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ نہیں کرنا چاہیے۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے چند ایسے خطوط ان کی نظر سے بھی گزرے۔
’اس کے بعد سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کی کوششوں سے نواز شریف اور شہباز شریف سعودی عرب سے لندن منتقل ہو گئے۔‘
وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کا کھیل
شریف خاندان سنہ 2007 میں پاکستان واپس آیا تو اگلے ہی برس ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ شہباز شریف ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ ان کے خلاف سنہ 1998 میں لاہور کے علاقے سبزہ زار میں ماورائے عدالت قتل کے ایک واقعے میں ایف آئی آر درج تھی۔
اس ایف آئی آر میں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے بطور وزیرِ اعلیٰ اس ’پولیس مقابلے‘ کا حکم دیا تھا جس میں چند افراد پولیس کے ہاتھوں مبینہ مقابلے میں مارے گئے تھے۔
شہباز شریف کی غیر موجودگی میں سنہ 2003 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان کو نوٹس جاری کیے تھے۔ سنہ 2004 میں شہباز شریف نے اس مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے پاکستان واپس آنے کی کوشش کی تھی تاہم انھیں ایئرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔
اسی برس عدالت میں پیش نہ ہونے کی بنا پر عدالت نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔ سنہ 2007 میں شہباز شریف پاکستان واپس آئے تو انھیں اس مقدمے میں عدالت سے ضمانت لینا پڑی تھی تاہم عام انتخابات تک وہ اس مقدمے سے بری نہ ہو سکے۔
Getty Imagesشریف خاندان سنہ 2007 میں پاکستان واپس آیا تو اگلے ہی برس ملک میں عام انتخابات ہوئے
اس لیے انھوں نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ وہ بھکر سے کامیاب ہو کر ایک مرتبہ پھر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے، تاہم اگلے ہی برس سپریم کورٹ نے ان کو نااہل قرار دے دیا۔
شہباز شریف نے اس فیصلے کے خلاف ایک لارجر بینچ میں درخواست دائر کی۔ دو ماہ بعد فیصلہ ان کے حق میں آیا اور وہ دوبارہ وزیرِاعلیٰ کی کرسی پر بحال ہو گئے۔
’چینی ان کو پسند کرتے ہیں اور وہ چینیوں کو‘
سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شہباز شریف مسلسل دوسری بار اور مجموعی طور پر تیسری بار پنجاب کے وزیرِاعلیٰ منتخب ہو گئے۔ ان ہی دس برسوں میں ان کے بارے میں ’سخت ایدمنسٹریٹر‘ ہونے کا تاثر سامنے آیا تھا۔
صحافی سلمان غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یاد ہے کہ ’جن دنوں لاہور میں ڈینگی کے خلاف آپریشن چل رہا تھا انھوں نے صبح چھ بجے ڈاکٹروں اور دیگر ٹیموں کو بلا رکھا ہوتا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی لیٹ یا غیر حاضر ہو۔‘
صحافی مجیب الرحمان شامی کے مطابق شہباز شریف نے پہلے پانچ برسوں میں اپنے لیے ہدف مقرر کیا تھا کہ انھوں نے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنا ہے اور اس کے بعد انھوں نے چین کے تعاون سے پاور پلانٹس لگانے کا کام شروع کیا جسے ریکارڈ مدت میں ختم کیا گیا۔
’اس زمانے میں اسی وجہ سے ’پنجاب سپیڈ‘ کی اصطلاح بھی مشہور ہوئی تھی۔‘ مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’خاص طور پر چینی ان سے بہت خوش تھے کہ وہ وقت سے پہلے منصوبے مکمل کر لیتے تھے۔‘
صحافی سلمان غنی بتاتے ہیں کہ شہباز شریف چین کے لوگوں کے کام کے طریقے سے بہت متاثر تھے۔ اسی لیے وہ چین کے بارہا دورے کر چکے ہیں۔ ’چینی ان کو پسند کرتے ہیں اور وہ چینیوں کو۔ چینی ان کے کام کرنے کی رفتار سے بہت متاثر تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے۔‘
Getty Imagesسنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد شہباز شریف مسلسل دوسری بار اور مجموعی طور پر تیسری بار پنجاب کے وزیرِاعلٰی منتخب ہو گئےمیٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین
شہباز شریف نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی کئی منصوبے مکمل کیے تاہم ان کے دور کے دو بڑے منصوبے ابتدائی طور پر بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنے۔
انھوں نے لاہور میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہر میں میٹرو بس چلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت عمران خان حزبِ اختلاف میں تھے اور انھوں نے اس کو ’جنگلہ بس‘ کا نام دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
صحافی سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف نے ’تمام تر تنقید اور مخالفت کے باوجود میٹرو بس کا منصوبہ مکمل کیا اور وہ کامیاب بھی ہوا۔‘ اس کے بعد یہی منصوبہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ ملتان میں بھی شروع کیا گیا۔
خود عمران خان کی حکومت نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں بھی ایسا ہی پراجیکٹ شروع کیا۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین چلانے کے منصوبے پر بھی شہباز شریف کو حزبِ اختلاف کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بارے میں اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ یہ پراجیکٹ اتنا مہنگا تھا کہ حکومت کے لیے اس کو سبسڈی پر چلانا ’ایک بہت بڑا بوجھ‘ تھا۔ تاہم بعد میں یہ پراجیکٹ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں چلنا شروع ہوا اور ابھی تک چل رہا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن
سنہ 2014 میں پنجاب میں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ میں لاہور شہر کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن کے دفتر اور جماعت کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور منہاج کے کارکنان میں جھڑپ ہوئی۔
اس جھڑپ کے دوران پولیس نے منہاج القرآن کے مرد اور خواتین کارکنان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا اور اس کے بعد پولیس کی طرف سے ان پر فائر بھی کھول دیا گیا۔ پولیس کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں منہاج القرآن کے 14 کارکنان ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
اس واقعے کو مقامی ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایا جاتا رہا اور اس پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ حکومت نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جس نے اپنی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو اس واقعہ کا ’ذمہ دار ہونے‘ کی طرف اشارہ کیا۔
منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیراعظم نواز شریف، وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔
عدالت کے حکم پر نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور دیگر کے خلاف سنہ 2014 میں فیصل ٹاون تھانے میں ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ تاہم بعد میں پولیس نے ’ملزمان کا واقعے سے تعلق نہ ثابت ہونے کی بنیاد پر‘ یہ ایف آئی آر ختم کر دی۔
ماڈل ٹاون سانحہ میں اعلیٰ پولیس افسران سمیت سو سے زیادہ جن ملزمان پر فردِ جرم عائد ہوئی ان میں زیادہ تر مقدمے سے بری ہو چکے ہیں۔
آزاد امیدوار اور نمبرز گیم: صوبہ پنجاب میں بننے والی نئی حکومت کتنی مستحکم ہو گی؟کیا الیکشن 2024 میں حصہ لینے والی مرکزی مسلم لیگ حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کا ’نیا چہرہ‘ ہے؟سردار ایاز صادق: پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہارنے سے لے کر تیسری مرتبہ سپیکر بننے کا سفرصوبے سے مرکز کا سفر
شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سامنے سیاست میں ہمیشہ ثانوی کردار ادا کرتے رہے۔ جب بھی نواز شریف وزیرِاعظم بنے تو شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف پبلک لیڈر نہیں، وہ اچھے منتظم ضرور ہیں۔ وہ غیر ضروری جھگڑوں میں پڑنے کے قائل نہیں اور دفاعی اداروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔‘
تاہم سنہ 2017 میں حالات اس وقت بدلے جب نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ پارٹی کی صدارت تو شہباز شریف کے پاس آ گئی لیکن وزارت عظمیٰ شاہد خاقان عباسی کے حصے میں گئی۔
ادھر عدالت سے سزا کے بعد کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد نواز شریف علاج کی اجازت لے کر لندن چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔
سنہ 2018 کے انتخابات میں شہباز شریف نے پنجاب چھوڑ کر مرکز میں آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور دوسری بڑی جماعت کے لیڈر ہونے کی وجہ سے قائدِ حزبِ اختلاف بھی منتخب ہو گئے۔
ان کے خلاف بھی مبینہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم ہوئے تاہم انھیں کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی۔
پہلی بار وزیراعظم
سنہ 2022 میں شہباز شریف نے حزبِ اختلاف کی باقی جماعتوں کو ساتھ ملا کر سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک چلائی جس کے دوران ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی۔
عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ ان کی جگہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا۔ اتحادی جماعتوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔
اس وقت ان کے سامنے یہ تجویز بھی تھی کہ وہ حکومت قبول نہ کریں اور انتخابات کی طرف جانا بہتر ہو گا۔ صحافی سلمان غنی کے مطابق ’شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس وقت ملک کو فوری طور پر استحکام کی ضرورت تھی۔‘
کیا 16ماہ پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا؟ سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’وہ درست ثابت نہیں ہوا۔‘
معاشی بحران اور ’مفاہمت کی سیاست‘
شہباز شریف کو اپنی پی ڈی ایم کی حکومت کے 17 ماہ کے دوران مسلسل معاشی بحران کا سامنا رہا۔ اس عرصے میں نہ تو وہ ڈالر کی اونچی اڑان روک پائے اور نہ ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پا سکے۔ سیاسی طور پر ان کی جماعت کو اس کا فوری نقصان ہوا۔
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ اس ہی کی وجہ سے ’ضمنی انتخابات میں ان کی جماعت پنجاب میں بری طرح ہاری اور اس کا اثر حالیہ انتخابات میں بھی عوام کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا۔‘
ماجد نظامی کے مطابق شہباز شریف کے لیے حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کے مفادات کو دیکھنا بھی ضروری تھا۔ ’اس لیے وہ اس طرح کام نہیں کر پائے جس طرح وہ کرنا چاہتے ہوں گے اور اس طرح ان کے بارے میں اچھے ایڈمنسٹریٹر کے تاثر کو بھی نقصان ہوا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے ہمیشہ ’مفاہمت کی سیاست‘ کو ترجیح دی ہے۔ ’وہ ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انھیں پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘
صحافی ماجد نظامی کے مطابق شہباز شریف سنہ 2017 میں پیدا ہونے والے حالات کے بعد اپنے بھائی نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور اپنی جماعت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کر کے گنجائش نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
تاہم اسی مفاہمت کی پالیسی کے تحت ’انھوں نے سنہ 2022 میں حکومت لینا قبول کیا جس کا ان کی جماعت کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا۔‘
Getty Imagesشہباز شریف کو اپنی پی ڈی ایم کی حکومت کے 17 ماہ کے دوران مسلسل معاشی بحران کا سامنا رہادوسری بار وزیراعظم اور ’اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات‘
حالیہ انتخابات میں ن لیگ اپنی توقعات کے برعکس قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائی۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نوے سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑا گروپ بن کر ابھرے۔
ن لیگ دوسرے نمبر پر رہی اور چند آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر ان کی نشستیں 80 کے لگ بھگ رہیں۔ کچھ ابتدائی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے بعد ان کی جماعت اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔
پی پی پی نے ان کے جماعت کے وزیراعظم کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی اور بدلے میں انھوں نے صدر سمیت چند آئینی عہدوں کی یقین دہانی لی۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ وہ شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’ماضی کے برعکس اس مرتبہ شہباز شریف کے لیے اچھی چیز یہ ہے کہ وہ پانچ سال کے لیے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں تاہم ان کے پاس اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حکومت زیادہ مضبوط نہیں ہو گی۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کسی موقع پر آگے جا کر شہباز شریف کے بھی نواز شریف اور عمران خان کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بگڑ جائیں۔
’شہباز شریف کے اندر ایک باغی سیاسی ورکر کبھی بھی نہیں رہا۔ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ وہ نظریاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں۔ ان کا بظاہر انا کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بھی اس تاثر کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی ابتدا ہی سے سیاست مفاہمت کی رہی ہے۔ ’وہ اور چوہدری نثار ہمیشہ ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کے حامی رہے اور ان کی جماعت کی سطح پر یہ طے شدہ ہوتا تھا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلے سے ہی طے شدہ تھا کہ اس مرتبہ نواز شریف وزیراعظم نہیں بنیں گے اور وزیراعظم شہباز شریف ہی ہوں گے۔
قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس’کون بچائے گا پاکستان، چور چور اور قیدی نمبر 804‘ کے نعروں کی نذرانڈیا میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے پر ایک بار پھر تنازع: انڈین سیاست میں آج بھی ’پاکستان کارڈ‘ کیوں چلتا ہے؟نواز شریف چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم کیوں نہیں بن پائے اور مستقبل کی سیاست میں اُن کا کیا کردار ہو گا؟