ثریا بی بی ڈپٹی سپیکر منتخب: چترال سے جنرل نشست پر کامیاب ہونے والی امیدوار جن کی جیت میں خواتین ووٹرز نے اہم کردار ادا کیا

بی بی سی اردو  |  Feb 29, 2024

سنی اتحاد کونسل کی ثریا بی بی 87 ووٹ لے کر خیبرپختونخوا اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر منتخب ہو گئی ہیں۔ ثریا بی بی کے مدمقابل پی ٹی آئی (پارلیمینٹیرینز) کے ارباب وسیم کو صرف 19 ووٹ ملے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار ثریا بی بی صوبہ خیبر پختونخوا کے حلقہ پی کے 1 اپرچترال سےجنرل نشست پر کامیاب ہوئیں اور بعد میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئیں۔

سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے جب ثریا بی بی کی کامیابی کا اعلان کیا تو انھوں نے ہاتھوں میں عمران خان کی تصویر اٹھائی ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ حالیہ عام انتخابات میں پی کے 1 اپرچترال کے دور افتادہ حلقہ میں بھی پولنگ کا عمل انتہائی پُر جوش انداز میں ہوا تھا، جہاں ثریا بی بی کی انتخابی مہم میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس حلقے میں ثریا بی بی کو مرد ووٹروں سے زیادہ خواتین نے ووٹ دیے۔

ثریا بی بی نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں مکانات ایک دوسرے سے بہت دور دور ہیں اور ان تک پہنچنے کے لیے راستے بھی پُر خطر اور مُشکل ہیں، ہم نے اپنے لوگوں تک پہنچنے کے لیے ان مُشکل راستوں پر پیدل سفر کیا اور گھر گھر اپنا پیغام پہنچایا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ کام اور سفر تھا تو بہت مُشکل مگر اپنی کامیابی کو دیکھنے کے بعد مُجھے یوں لگا کہ ہم سب نے مل کر نہ صرف یہ مُشکل کام اچھے طریقے سے کیا بلکہ ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے۔‘

مشکلات کے بعد جیت

چترال میں ان حالیہ عام انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر چار خواتین میدان میں تھیں۔

ان میں این اے 1 پر عوامی نیشنل پارٹی سے خدیجہ بی بی اور آزاد اُمیدوار سیدہ میمونہ شاہ جبکہ پی کے 1 چترال سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار ثریا بی بی اور آزاد امیدوار بی بی لطیفہ اس مقابلے میں شامل تھیں۔

یہ ایک مثبت عمل تھا کہ چار خواتین چترال میں انتخابات میں شامل تھیں لیکن ثریا بی بی کے علاوہ دیگر خواتین کو زیادہ ووٹ نہیں ملے لیکن انھوں نے سیاسی عمل میں انتخابی مہم بہتر انداز میں چلائی۔

ثریا بی بی نے بتایا کہ ’ایک جانب تو علاقے کے مجموعی حالات خراب تھے اور دوسرا ایک سے دوسرے گھر کا زمینی راستہ ناہموار ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل آڑے آئے مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں لوگ بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ تو ہیں مگر غربت بھی بہت زیادہ ہے۔ ساتھ ہی اس علاقے میں لوگوں کے پاس وسائل اور زندگی گُزارنے کے لیے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔‘

’مجھے خوشی ہے کہ لوگوں نے ہماری بات کو سمجھا اور اس پر عمل کیا، اس لیے ہماری مہم کے دوران جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے خواتین ہمارے ساتھ شامل ہوتی گئیں اور حیران کن بات یہ تھی کہ الیکشن والے دن پولنگ سے لے کر نتائج آنے تک لوگ میرے ساتھ کھڑے رہے۔‘

ثریا بی بی نے بتایا کہ ’میری کامیابی یہ تھی کہ میں نے اپنے قائد عمران خان کے لیے کامیابی حاصل کی اور میری خوشی اس بات میں ہے کہ میری اس کامیابی سے عمران خان، میری جماعت پی ٹی آئی اور میرے ملک کو فائدہ ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب میری کوشش ہو گی کہ صرف میں یا میرے ساتھی نہیں بلکہ اپنے علاقے چترال اور ملاکنڈ ڈویژن میں دیگر خواتین کو بھی سیاست کی طرف لاؤں تاکہ وہ اس ملک اور اپنے علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔‘

ثریا بی بی نے مزید کہا کہ ’میں 2007 سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہوں اور اس دوران اچھے برے وقت دیکھے، ہم نے دھرنوں میں شرکت کی اور لاہور میں جب ضرورت تھی ہم ادھر بھی موجود تھے اور مجھے ٹکٹ ملنا بھی شاید میری جماعت کے لیے جدوجہد اور میری کارکردگی کی بنیاد پر ملا۔‘

ایک خاتون اُمیدوار کے لیے خواتین کی مہم

اپر چترال میں پی ٹی آئی خواتین ونگ کی صدر راشدہ بی بی نے بتایا کہ ’ہم نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا تھا، ہمیں کہا گیا تھا کہ حالات ٹھیک نہیں، مشکلات بہت ہیں تو ٹکٹ کسی مرد کو دے دیتے ہیں لیکن ہم چترال کی خواتین نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے اور یہ سیٹ جیت کر دکھائیں گے۔‘

اپر چترال میں پی ٹی آئی کی ضلع صدر راشدہ بی بی نے ایک ہی سانس میں یہ باتیں کیں اور کہا کہ علاقے میں تمام خواتین نے محنت کی، جس کا پھل ثریا بی بی کی کامیابی کی شکل میں ہمیں مل گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی کارکنوں سے رابطے کرتی تھی، ان کے ساتھ منصوبہ بندی کرتی تھی اور پھر ہم کچھ خواتین ان علاقوں کا دورہ کرتے تھے، خواتین سے بات کرتے کہ آپ ووٹ ڈالنے ضرور آئیں اور اس میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔‘

چترال سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی سابق رکن صوبائی اسمبلی فوزیہ بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ آسان کام نہیں تھا کہ چترال جیسے مشکل علاقے جہاں موسم کی شدت کی وجہ سے کہیں نکلنا مشکل تھا، کہیں برفباری تو کہیں بارشیں تھیں لیکن خواتین نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بہترین انتخابی مہم چلانی ہے اور کامیابی کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔

بی بی فوزیہ نے بتایا کہ ’ہم نے دو ٹیمیں بنائی تھیں اور دو مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ راستے میں بارش اور برفباری بھی تھی لیکن جماعت کی مقامی قیادت اور کارکن متحرک رہے اور یہی وجہ ہے کہ ریکارڈ ووٹ پڑے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس وقت کم تھا اور علاقے بہت دشوار تھے ہماری ٹیمیں چترال کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک سفر کرتیں تھیں اور اس میں بہت وقت لگتا تھا اور لوگوں تک پہنچنا ایک مشکل کام تھا۔‘

راشدہ بی بینے بتایا کہ ’چترال میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں خواتین پردے کی بہت پابند ہیں اور انھیں گھروں سے بعض اوقات علاج کے لیے بھی نکلنے نہیں دیا جاتا، ہم نے ان کے گھروں میں ان کے مردوں کے سامنے انھیں اس بات پر راغب کیا کہ اگر خواتین مردوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے نہیں جا سکتیں تو اب خاتون رکن ہیں اور ان کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لیے جانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی جس پر وہ راضی ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری اس کوشش کے بعد ان علاقوں میں خواتین نے اپنے مردوں کو راضی کیا اور ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن پہنچیں۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے دو بچے ہیں اور اس انتخابی مہم میں مجھے انھیں بھی سنبھالنا ہوتا تھا اور بعض اوقات میں بچوں کو ساتھ لے جاتی تھی۔‘

راشدہ بی بی نے بتایا کہ ’انھیں اُمید تھی کہ وہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشن تک لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔‘

کتنے مرد کتنی خواتین ووٹرز؟

چترال کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا جائزہ لیں تو ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے حلقے اپر چترال اور لوئر چترال میں تقسیم تھے۔

لوئر چترال زیادہ تر شہری علاقہ ہے جہاں لوگ عام طور پر بھی سیاسی سرگرمیوں میں کسی حد تک متحرک رہتے ہیں۔ یہاں خواتین بھی تعلیم، روزگار اور زندگی کے دیگر کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔

تاہم اپر چترال زیادہ تر علاقے دیہی ہے جہاں اس ضلع کی پسماندگی زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ ثریا بی بی نے اپر چترال سے انتخاب میں حصہ لیا اور حیران کن طور پر ان کو مرد ووٹرز سے زیادہ خواتین نے ووٹ دیے۔

اس حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد 130189 ہے جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 69544 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 60645 ہے۔

اس حلقے میں ووٹوں کی تعداد 65722 رہی جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 30345 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 35377 رہی۔

چترال میں خواتین

واضح رہے کہ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو نے بھی چترال سے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور کامیاب ہوئی تھیں۔

چترال سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی سیف الرحمان عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ نصرت بھٹو نے یہاں 1988کے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور منتخب ہونے کے بعد یہ سیٹ پھر چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ صوبہ سندھ میں بھی کامیاب ہوئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہثریا بی بی پی ٹی آئی کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے منسلک ہیں ان کا خاندان کوئی سیاسی خاندان نہیں بلکہ اپنے خاندان کی یہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور حالیہ عام انتخابات میں حصہ لیا۔

اس حلقے میں انتخاب میں حصہ لینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو متعدد مقامی رہنماؤں اور کارکنوں نے درخواستیں دی تھیں جن میں بہت اہم شخصیات شامل تھیں لیکن جماعت نے ثریا بی بی پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں ٹکٹ دیا تھا۔

الیکشن 2024: پاکستان کے عام انتخابات اور ان کے نتائج سے جڑے اہم حقائق و سوالاتالیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس اس جیت کے بعد کیا آپشنز ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More