پاکستان میں اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے اور جہاں ایک جانب ملک بھر کی سیاسی جماعتیں مبینہ دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں وہیں سوشل میڈیا پر میمز اور ریلز کی بھرمار ہے۔
پاکستانیوں کی حسِ مزاح مشکل سے مشکل وقت میں بھی نظر آتی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ سوشل میڈیا پر ایک نظر دوڑا کر کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اسی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی کریم کو مہنگی پڑ گئی۔
کریم کی جانب سے گذشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے ساتھ ساتھ کریم ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے والے صارفین کے موبائل فونز پر نوٹیفیکیشن بھیجا گیا اور لکھا ’پروگرام ۔۔۔ ؟‘
ٹوٹیفیکشن میں ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ ’اگلے پلان کو پکا بناؤ، پہلے سے کریم بک کرواؤ۔‘
اس جملے کے ماضی کے بارے میں تو یقیناً آپ کو بھی علم ہو گا۔ جنھیں معلوم نہیں ان کے لیے ہم واضح کرتے چلے جائیں کہ یہ جملہ دراصل پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے والے شیر افضل مروت کی جانب سے اس وقت استمعال کیا گیا تھا جب ان سے ایک صحافی نے ان کی گذشتہ برس ستمبر میں ن لیگی سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کے ساتھ ایک ٹاک شو میں ہونے والی ہاتھا پائی کے بارے میں بات کی تھی۔
جہاں ایک جانب سوشل میڈیا پر طنز و مزاح چل رہا تھا وہیں دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایتی افسردہ تھے۔ اس کی وجہ ایک تو ان کی جماعت کا الیکشن میں سادہ اکثریت نہ حاصل کرنا تھا اور اہم رہنماؤں کا الیکشن ہارنا تھا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر نواز شریف کا وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر اپنی بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو نامزد کرنے کا فیصلہ تھا۔
ن لیگ کے کارکن، رہنما اور ووٹر افسردہ تھے اور نواز شریف کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے، ایسے میں کریم کی اس پوسٹ نے ان کے زخموں پر نمک چھڑک دیا اور اس پوسٹ کا مقصد کریم کی طرف سے پی ٹی آئی کی حمایت اور مسلم لیگ ن کا مذاق اڑانا سمجھا گیا۔
اس پوسٹ کے نیچے ہی اکثر افراد نے لکھا کہ ’کیا ایک رائیڈ شیئرنگ ایپ کو سیاسی نکتہ بازی کرنا زیب دیتا ہے؟‘ اس کے ساتھ ہی بائیکاٹ کریم بھی ٹرینڈ کرنے لگا۔
کریم کی جانب سے اپنی پوسٹس اب ڈیلیٹ کی جا چکی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے ایکس پر کہا گیا کہ ’کریم سیاسی ایجنڈا آگے کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہے‘ اور کریم کی اس پوسٹ کو شرمناک بھی کہا۔
دوسری جانب، مسلم لیگ ن کے ٹوئٹر پر بیان سامنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد کریم کے لیے کام کرنے والے ملازموں کے لنکڈ اِن پروفائل اور دیگر معلومات ایکس اور دیگر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگ گئیں۔
اسلام آباد میں کریم کے ایک ملازم نے بتایا کہ ’یہ غلط ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری بات کا غلط مطلب نکالا گیا ہو لیکن ہم سب کی انفارمیشن انٹرنیٹ پر لیک کرنا اس سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے۔‘
اس اشتہاری مہم پر خود کریم نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد ’کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا اور نہ ہی اس کا ملک کے سیاسی ماحول سے کچھ لینا دینا ہے۔‘
اس وضاحت کے باوجود یہ مہم اب بھی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ صارفین اب بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’ایسی بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’کریم کا اپنی سروس کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘ جبکہ ایک اور نے کہا کہ ’اس سے بہتر تھا کہ الیکشن والے دن لوگوں کو پولنگ سٹیشن تک پہنچانے کا کام کرتے تو شاید اتنی گالیاں نہ پڑتیں۔‘
اسی طرح کی ایک کوشش مِیک ڈونلڈز نے بھی کی جہاں لفاظی کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’پروگرام بن گیا۔‘
’ایسی زبان استعمال کر کے آپ مزید تقسیم کا حصہ بن رہے ہیں‘
خیال رہے کہ اس سے قبل کریم نے نواز شریف کے نااہل ہونے پر بھی ایک پوسٹ لگائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’یوئر کیپٹن از ریڈی ٹو ٹیک یو ہوم‘ یعنی آپ کا کیپٹن آپ کو گھر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اس جملے کا بھی ذومعنی مطلب لیا گیا تھا۔
کریم ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ٹیکنالوجی کمپنیاں سیاسی تنازعات کے دوران یا تو کوئی پوزیشن لے رہی ہیں اور یا اسے اپنی تشہیر کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ایسی ایپ انڈیا کی زوماٹو بھی ہے جو فوڈ ڈیلیوری ایپ ہے اور یہ بھی مختلف سیاسی اور سماجی تنازعات پر مختلف تشہیری پوسٹس کر چکی ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس سے منسلک نگہت داد نے کہا کہ ’دنیا بھر میں ٹیکنالوجی ایپس اب اپنے سیاسی جھکاؤ کا کھل کر اظہار کر رہی ہیں، جس کا مقصد اپنے کسٹمرز بڑھانے سے جڑا ہے لیکن اگر پاکستان کی بات کریں، جہاں پہلے سے ہی اتنی تقسیم ہے، تو اس میں یہ بات اور بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ آپ کا میسج کیسے اور کس کو پہنچ رہا ہے۔
’مثال کے طور پر اس ایپ کا استعمال ہر سیاسی جماعت کا کارکن اور حمایت کرنے والا کرتا ہے۔ تو ایسی زبان استعمال کر کے آپ مزید اس تقسیم کا حصہ بن رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ رائیڈ شیئرنگ ایپ کو نیوٹرل ہونا چاہیے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ اب اس پوسٹ کو ہٹا دیا گیا، جس کے بعد سے اب اس پوسٹ کی جگہ صرف اس کے نیچے لوگوں کی اس مہم پر ناراضی سے متعلق جواب رہ گئے ہیں۔
انتخابات کے نتائج سے مزید تقسیم کا خدشہ: ’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا‘شیر افضل مروت: سابق سول جج مشکل وقت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا چہرہ کیسے بنےجاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی: اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار کون اور شو میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟