پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سازی کے معاملے پر کہاں کھڑی ہے اور مسلم لیگ ن کا کس حد تک ساتھ دے گی؟

بی بی سی اردو  |  Feb 14, 2024

Getty Images

گذشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سازی میں مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں ہو گی۔

منگل کی شام کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک میں حکومت کی تشکیل یقینی بنانے کے لیے وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔

تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی جماعت وفاقی کابینہ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بلاول بھٹو نے اس پریس کانفرنس میں ملک کی صدارت کے منصب سمیت اہم آئینی عہدوں کو حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 92، مسلم لیگ ن 79، پیپلز پارٹی 54 اور متحدہ قومی موومنٹ کی 17 نشستیں ہیں۔

ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتحال جاننے کے لیے بی بی سی اُردو کے لائیو پیج پر کلک کریں

ادھر بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس پر مریم اورنگزیب نے اپنے ردعمل میں کہا کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ حکومت میں ہمارا ساتھ دیں۔

ان کے مطابق ’انھوں نے ہماری حمایت کا اعلان کیا ہے، اس پر مسلم لیگ ن ان کی شکرگزار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی آئینی عہدوں سے متعلق بھی مشاورت ہو گی اور جو فیصلے ہوں گے، ان کا اعلان کیا جائے گا۔‘

رات گئے اس بات کی توثیق کرتے ہوئے آصف علی زرداری، شہباز شریف اور چوہدری شجاعت حسین سمیت دیگر اتحادیوں کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی اور مستقبل میں ’مل کر ساتھ چلنے‘ کا اعادہ کیا گیا۔

بڑے سیاسی رہنماؤں کی اس پریس کانفرنس کے بعد متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے جوابات جاننے کے لیے بی بی سی نے سیاسی مبصرین سے بات کی ہے۔

Getty Images’پیپلز پارٹی کا موجودہ فارمولا قابل عمل نظر نہیں آ رہا‘

سیاسی اور انتخابی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’ابھی ابتدا ہے، ابھی حکومت سازی میں کافی دن ہیں، اس وجہ سے عہدوں کی لے دے جاری رہے گی۔‘

ان کے خیال میں اہم بات تو حمایت ہی ہوتی ہے جس کا پی پی پی نے اعلان بھی کر دیا ہے اور یوں وہ اتحادی بن گئے ہیں۔ احمد بلال کے مطابق ’آگے چل کر پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔‘

پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اس وجہ سے حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہتے کیوںکہ پھر ہم عوامی مسائل پر کُھل کر اظہار خیال نہیں کر سکیں گے اور بجٹ جیسے اہم موقع پر اپنی آزادانہ تجاویز نہیں دے سکیں گے۔‘

ان کے مطابق ’یہ درست ہے کہ حمایت کا اعلان ہی اہم ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ اہمبات یہ ہے کہ ہماری جماعت ملک کا سوچتی ہے اور کوئی بھی ملک بغیر حکومت کے نہیں چل سکتا۔‘

ان کے مطابق ہم پانچ برس تک کسی بھی سیاسی حکومت کے چلنے کے قائل ہیں۔واضح رہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے پاس وفاقی حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں ہے، اس لیے میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’ایشو ٹو ایشو‘ اور اہم مواقع پر (حکومت کو) ووٹ دے گی۔

اب اہم سوال تو یہی ہے کہ اب پیپلز پارٹی کا حکومت سازی میں کیا کردار ہے اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہو گی یا حکومتی بینچز پر بیٹھے گی؟

تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ’وزیر اعظم کو ووٹ دینے کے بعد ہم قومی اسمبلی میں دائیں جانب والے (یعنی حکومتی) بینچز پر ہی بیٹھیں گے۔‘

لاہور میں مقیم صحافی سلمان غنی ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پیپلز پارٹی کا فارمولا مجھے قابل عمل نظر نہیں آ رہا ہے۔‘

ان کی رائے میں ’22 فروری کو الیکشن میں کامیاب امیدواروں کا حتمی نوٹیفکیشن ہونا ہے۔ اس سے قبل بہت کچھ بدلے گا۔ یہ طے ہے کہ ن اور پی پی پی کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔‘

سلمان غنی کے مطابق پی پی پی کی ابھی کی حکمت کو دیکھیں تو وہ کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں مگر چاروں صوبوں کے گورنرز سمیت اہم آئینی عہدے مانگ رہے ہیں، یوں وہ ’دودھ میں سے ملائی اتارنا چاہ رہے ہیں۔‘

Getty Imagesتحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں سمیت متعدد سیاسی جماعتوں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں’پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے مانگے نہیں، ان پر اپنے امیدوار سامنے لانے کا اعلان کیا‘

تاج حیدر کے مطابق ’پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے مانگے نہیں ہیں بلکہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان آئینی عہدوں پر اپنے امیدوار سامنے لائے گی۔‘

ان کے مطابق ’اب یہ تو ہمارا حق ہے کہ جب سینیٹ میں ہمیں اکثریت حاصل ہو جائے گی تو پھر چیئرمین سینیٹ بھی ہمارا ہی ہو۔‘

تاج حیدر کے مطابق ’جہاں تک بات صدر مملکت کی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت آصف زرداری ہی ملک میں وہ واحد شخصیت ہیں جو ادراک رکھتے ہیں اور ملک کو اُن مسائل سے باہر نکال سکتے ہیں جن کا پاکستان فی الوقت شکار ہے۔‘

ان کے مطابق اس عہدے پر ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے متعلق تاج حیدرکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی دیگر جماعتوں سے روابط بڑھا کر کوشش کرے گی کہ یہ عہدہ بھی پی پی پی کے پاس رہے تاکہ اختلاف رائے کو کچلا نہ جا سکے۔

ادھر سلمان غنی کے مطابق ’بلاول بھٹو کا زیادہ انحصار ن لیگ پر ہی ہو گا کیونکہ ایم کیو ایم کے خلاف انھوں نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ کراچی میں اس جماعت کو 17 نشستیں دی گئی ہیں یعنی انھوں نے جیتی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ملک کی سیاست گھمبیر ہو چکی ہے۔‘

تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی انتخابی دھاندلی کے خلاف متعلقہ فورمز پر اپنی آواز بلند کرتی رہے گی۔‘ ان کے مطابق ’کراچی کی کچرا کنڈی سے ہمیں فارم 45 ملے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے پاس تمام شواہد ہیں کہ کیسے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے امیدواران کو کم ووٹوں کے باوجود کامیاب قرار دیا گیا۔

ان کے مطابق ’ہم نجکاری کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے اور حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جانے کی راہ دکھائیں گے۔‘

صحافی سلمان غنی کے مطابق پیپلز پارٹی سیاسی استحکام کی بات تو کرتی ہے ’مگر جب تک تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتی تو پھر کیسے ملک میں استحکام آئے گا؟‘

ان کی رائے میں جہاں تحریک انصاف سے کپتان اور انتخابی نشان چھینے گئے ہیں وہیں ’انتخابات میں بھی اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں۔‘

تاج حیدر کے مطابق ’تحریک انصاف میں انتہا پسند عناصر غالب ہو گئے اور اب انھوں نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’چور‘ ہے اور ان سے بات نہیں ہو سکتی۔‘

ان کے مطابق پیپلز پارٹی بات چیت پر یقین رکھتی ہے تاہم دوسری طرف سے اچھا جواب نہیں ملا۔

ان کے مطابق ایسی صورتحال میں ہمارے پیش نظر صرف ملکی مفاد ہے۔ ’اب اگر ہم نیوٹرل بھی رہیں تو حکومت نہیں چل سکتی۔‘

اب کرنا کیا ہے؟ عاصمہ شیرازی کا کالمآزاد امیدواروں کی ’سرپرائز انٹری‘ اور جوڑ توڑ: ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ذاتی شناخت، خاندانی اثرورسوخ یا پارٹی ووٹ بینک: بڑے مقابلوں میں جیتنے والی خواتین کی کامیابی کا سہرا کس کے سر؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More