بلوچستان میں الیکشن سے ایک دن قبل دو دھماکے: ’وہ افراد ہلاک ہوئے جو کراچی سے یہاں صرف ووٹ ڈالنے آئے تھے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 07, 2024

EPA

’دھماکے میں مارے جانے والے میرے چار قریبی رشتے دار خوشی خوشی اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے کراچی سے طویل سفر طے کر کے خانوزئی آئے تھے۔‘

یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے خانوزئی سے تعلق رکھنے والے امین اللہ کاکڑ کا جو اپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کا ذکرکرتے ہوئے کئی مرتبہ گلو گیر ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات سے ایک روز قبل اس واقعے نے پورے علاقے کو سوگ میں مبتلا کر دیا ہے۔

اسی طرح ضلع کاریزات سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر عبدالحنان کاکڑ نے اس دھماکے میں اپنے بھائی اور چچا زاد بھائی کو کھو دیا۔

ان کا کہنا تھا کی دھماکے میں خاندان کے دو افراد سمیت دیگر کی ہلاکت سے ناصرف ان کا گھر اجڑ گیا بلکہ ’ظالموں نے پورے کاریزات کو اجاڑ کر رکھ دیا۔‘

خانوزئی میں یہ بم دھماکہ بدھ کی صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 47 سے آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کے دفتر کے باہر ہوا۔

اس واقعے کے کچھ دیر بعد ایک اور دھماکہ پشین سے متصل ضلع قلعہ سیف اللہ میں ہوا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ان دونوں واقعات میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور 43 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ تاحال کسی گروہ کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد بلوچستان میں اب تک امیدواروں کے گھروں اور دفاتر کے علاوہ انتخابی سرگرمیوں پر درجنوں حملے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر حملے بلوچ آبادی والے علاقوں میں ہوئے۔

تاہم خانوزئی اور قلعہ سیف اللہ کے بم دھماکے پُرتشدد واقعات میں جانی نقصان کے اعتبار سے سب سے بڑے حملے ہیں۔

EPA’ہمارے پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا‘

خانوزئی میں دھماکے کے بعد امین اللہ کاکڑ اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ تحصیل ہیڈکوارٹر خانوزئی ہسپتال پہنچے تھے۔

وہ اور ان کے دیگر رشتہ دارغم سے نڈھال تھے اور امین اللہ کاکڑ بم دھماکے میں مارے جانے والے اپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کا ذکرکرتے ہوئے گلو گیر ہوگئے۔

امین اللہ نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے چار رشتہ داروں میں ان کا بھائی، بھتیجا، بھانجا اور کزن شامل تھے جبکہ خاندان کے چند افراد زخمی بھی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ ہمارے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ۔۔۔ ووٹ ڈالنے کے لیے آج کراچی سے پہنچے تھے اور وہ یہاں پہنچنے پر بہت زیادہ خوش تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس المناک واقعے نے ناصرف ان کے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا بلکہ پورے علاقے کو سوگ میں مبتلا کر دیا ہے۔

کاریزات سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر عبدالحنان کاکڑ کے بھائی محمد عمر اور کزن نجیب اللہ خانوزئی کے بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

انھوں نے کہا کہ وہ ٹیچر ہیں اور ان کی ڈیوٹی الیکشن کے حوالے سے لگی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ آر او آفس پشین میں تھے کہ وہاں انھیں اس دھماکے کی اطلاع ملی۔

انھوں نے بتایا کہ دھماکے کی اطلاع ملنے کے بعد ’میں نے بھائی کے فون پر کال کی تو رنگ جا رہی تھی لیکن وہ فون اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔‘

’میں نے لیویز فورس میں ملازم اپنے کزن کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ میرا بھائی اور کزن دونوں اس واقعے میں مارے گئے۔‘

عبدالحنان کاکڑ نے کہا کہ ’ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا۔ میڈیا سے یہ درخواست ہے کہ ہمارے اس دکھ کو اوپر اداروں تک پہنچایا جائے کہ ہمیں اس طرح کیوں تباہ کیا جا رہا ہے۔‘

Reutersعینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

خانوزئی بازار میں جو دھماکہ ہوا وہ وہاں واقع انتخابی دفتر کے باہر ہوا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ سردی کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد دفتر کے باہر دھوپ میں بھیٹی ہوئی تھی۔

دھماکے سے چند گز کے فاصلے پر موجود رحیم الدین کاکڑ کے مطابق دفتر کے باہر 35 کے قریب لوگ بھیٹے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کل پولنگ ڈے کے حوالے سے کھانے وغیرہ کی تیاری کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے۔ ’میں 15 فٹ کے فاصلے پر تھا کہ دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد فوری طور پر میں لیٹ گیا اور جب دھماکے کی وجہ سے اٹھنے والا دھواں اور گرد وغبار بیٹھا تو میں اٹھا اور دھماکے کی زد میں آنے والے لوگوں کے پاس آگیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی حالت بہت خراب تھی اور بہت سارے لوگوں کے جسم پر کپڑے بھی نہیں تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے روڈ پر جانے والی گاڑیوں کو اشارہ کیا جن کے ذریعے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ ’دھماکے سے پہلے یہاں کوئی سکیورٹی نہیں تھی کیونکہ یہ علاقہ انتہائی پُرامن علاقہ ہے۔‘

عینی شاہدین کے مطابق جس موٹر سائیکل میں دھماکہ ہوا ہلاک اور زخمیوں میں سے بعض لوگ اس کے بالکل قریب کھڑے تھے جس کی وجہ سے ان کے جسم بہت زیادہ متاثر ہوئے۔

مچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہتے رہے‘’اپنی ساری سروس میں اتنی لائق طالبہ نہیں دیکھی تھی۔۔۔‘ رقیہ نجف جو کرم میں نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہوئیںدھماکے کی نوعیت کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

تحصیل کاریزات کے اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ وہ الیکشن ڈیوٹی کے سلسلے میں پشین میں موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی وہ پشین سے فوری طور پر واپس پہنچے۔ ’دھماکہ امیدوار کے دفتر کے باہر ہوا اور کرائم سین پر پہنچنے کے بعد سی ٹی ڈی والوں کے ساتھ مل کر شواہد اکٹھے کیے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ’ابتدائی شواہد کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ یہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ تھا اور دھماکہ خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب تھا۔‘

اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سکیورٹی تھی لیکن ’یہ ایک پُرامن علاقہ ہے اور اس طرح کا ناخوشگوار واقعہ پہلی مرتبہ ہوا۔‘

خانوزئی میں دھماکے میں کم از کم 18افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 14 کی موت جائے وقوعہ اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال خانوزئی میں ہوئی ۔

تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر حبیب کاکڑ نے بتایا کہ شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا جہاں مزید چار افراد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے ۔

دوسرا دھماکہ پشین سے متصل قلعہ سیف اللہ کے ہیڈکوارٹر میں جمعیت العلماء اسلام بلوچستان کے امیر اور سابق وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع کے انتخابی دفتر کے باہر ہوا۔

مولانا عبدالواسع نے فون پر بتایا کہ ان کے دفتر کے باہر لوگ پولنگ ڈے کے حوالے سے تیاریوں میں مصروف تھے کہ ان کو نشانہ بنایا گیا ۔

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ قلعہ سیف اللہ میں مجموعی طورپردس افراد ہلاک ہوئے ۔

حکام کے مطابق دونوں واقعات میں 43 سے زائد افراد زخمی ہوئے ۔

دونوں واقعات کی ذمہ داری تاحال کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں یہاں ایسے واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔

EPAبلوچستان میں الیکشن سے قبل پُرتشدد واقعات

انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں امیدواروں کے گھر اور دفاتر نشانہ بنے ہیں۔

اب تک امیدواروں کے گھروں، انتخابی دفاتر اور الیکشن کمیشن کے دفاتر کو نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن خانوزئی اور قلعہ سیف اللہ کے دھماکے جانی نقصان کے اعتبار سے سب سے بڑے واقعات ہیں۔

چند روز قبل سبیّ میں تحریک انصاف کی ایک انتخابی ریلی کے موقع پر دھماکہ ہوا تھا جس میں میں چار افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے جبکہ کوئٹہ شہر میں بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔

اس کے علاوہ کوئٹہ، مکران ڈویژن اور رخشاں ڈویژن کے بعض علاقوں کے علاوہ بلوچستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں میں جو دھماکے ہوئے ان میں کئی لوگ زخمی ہوئے لیکن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

کوئٹہ شہر، مکران ڈویژن اور رخشاں ڈویژن میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے گھروں اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بعض علاقوں میں نواز لیگ کے دفاتر بھی نشانہ بنے۔

تربت میں نواز لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار میر محمد اسلم بلیدی فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے تھے۔

مکران ڈویژن میں نیشنل پارٹی کے امیدواروں کے گھروں اور دفاٹر پر دستی بم سے حملے ہوئے جبکہ خضدار کے علاقے زہری میں جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک مشترکہ انتخابی دفتر کو بھی بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

’اپنی ساری سروس میں اتنی لائق طالبہ نہیں دیکھی تھی۔۔۔‘ رقیہ نجف جو کرم میں نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہوئیںمچھ آپریشن: ’تھانے کی چھت پر کھڑے حملہ آور پولیس کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہتے رہے‘ایران میں پاکستانی مزدوروں کی ہلاکت: ’حملہ آوروں نے کہا جو پاکستانی ہیں وہ کھڑے ہو جائیں‘’گھر پر پی ٹی آئی کا جھنڈا لگانے پر‘ تلخی: پشاور میں باپ نے قطر پلٹ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، پولیس
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More