Getty Images
پاکستان میں ہر عام انتخابات سے قبل اگر میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلمشنٹ کی مخالف سمت کھڑے سیاستدانوں کو یا تو کوریج ہی نہیں ملتی یا پھر یہ غیرمتوازن ہوتی ہے۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پاکستانی میڈیا کے ایک بڑے حصے کی ناپسندیدہ شخصیت نظر آتے تھے۔ نیوز چینلز پر پروگراموں اور اخبارات کی سُرخیاں میں ان کی مبینہ کرپشن کی کہانیاں نظر آتی تھیں۔
اس بار 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کی سُرخیوں میں ایسے ہی الزامات پر چرچہ نظر آیا لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ نواز شریف کی جگہ ایک اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے لے لی ہے۔
نواز شریف کو پانامہ پیپرز لیک کے بعد کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ 2017 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انھیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا اور انھیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ کرپشن ریفرنسز میں قید کی سزا بھی سنائی گئی۔
نواز شریف اپنے زوال کی وجہ متعدد بار سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور سپریم کورٹ کے کچھ ججز کو قرار دے چکے ہیں۔
نواز شریف سنہ 2019 میں ضمانت ملنے کے بعد علاج کی غرض سے لندن چلے گئے اور ان کی واپسی گذشتہ برس اکتوبر میں ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے نواز شریف اب الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہیں اور اپیلوں کے نتیجے میں تمام مقدمات سے بھی بری ہو چکے ہیں۔
نواز شریف رواں ہفتے ہونے والے انتخابات میں لاہور سے الیکشن کے میدان میں اُترے ہیں جبکہ ان کے حریف عمران خان سائفر، توشہ خانہ اور مبینہ دورانِ عدت نکاح مقدمے میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
نواز شریف کی طرح عمران خان بھی اپنے سیاسی زوال کے لیے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ عموماً پاکستان کی طاقتور فوج کے لیے استعمال ہوتا ہے جو متعدد مرتبہ سیاست میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کر چکی ہے۔
Getty Images’سٹیٹ سپانسرڈ پروپیگنڈا‘ کا ذمہ دار کون؟
پاکستان میں دہائیوں سے صحافت سے منسلک شخصیات اس تاثر سے متفق نظر آتی ہیں کہ ملک میں جو بھی سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت میں کھڑا ہوتا ہے اسے میڈیا میں بھی ’سٹیٹ سپانسرڈ پروپیگنڈا‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حامد میر پاکستانی نیوز چینل ’جیو نیوز‘ کے ساتھ بحیثیت اینکر پرسن برسوں سے منسلک ہیں۔ انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ملک میں سیاستدانوں کی کردار کشی ہونے کا ٹرینڈ کوئی نیا نہیں۔‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے 1988 کے انتخابات سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد بنی تھی، اس وقت بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی کچھ ایسی تصاویر تقسیم کی گئیں تھیں جس میں چہرے اُن کے تھے اور نیچے دھڑ کسی اور کا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تصاویر کچھ اخبارات نے بھی چھاپی تھیں، تو یہ سٹیٹ سپانسرڈ پروپیگنڈا تو ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔‘
حالیہ دور میں بھی حامد میر کے مطابق سیاستدانوں کو ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ’آپ کو یاد ہو گا کہ 2018 میں نواز شریف جب گرفتار ہوئے تھے تو اس وقت بھی پابندیاں لگائی گئی تھیں اور انھیں کس جیل میں لے جایا جائے گا جیسے معاملات بھی اسٹیبلشمنٹ دیکھ رہی تھی۔‘
’اخبارات میں نواز شریف کی تصاویر چھاپنے پر بھی پابندی تھی۔‘
پاکستانی میڈیا کی جانب سے عمران خان کو ملنے والی کوریج کے بارے میں حامد میر کہتے ہیں کہ ’وہ صحافی جو عمران خان کی شادی پر بات کر رہے ہیں وہ یہ بات کیوں نہیں کرتے کہ عمران خان کی شادی تو ان کے وزیرِ اعظم بننے سے پہلے ہوئی تھی۔ اگر وہ اتنی ہی غلط تھی تو جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے انھیں وزیرِ اعظم کیوں بنوایا؟‘
حامد میر کے مطابق میڈیا پر ہونے والی کردار کشی کے ذمہ دار نہ تو سیاستدان ہیں اور نہ میڈیا۔
’اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو یہ کردار کشی کرواتے ہیں۔‘
جیو نیوز سے منسلک اینکرپرسن حامد میر کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا کو کبھی بھی آزاد نہیں سمجھتے۔
’میں پچھلے 35 برسوں سے صحافت کر رہا ہوں اور میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میڈیا آزاد ہے۔ نہ میڈیا عمران خان کے دور میں آزاد تھا اور نہ آج ہے۔‘
پاکستان میں سیاستدانوں کو دباؤ میں لانے کے لیے میڈیا کا استعمال؟
پاکستانی چینل ڈان ٹی وی سے منسلک صحافی و اینکرپرسن ضرار کھوڑو سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر سیاستدانوں کی کردار کشی صرف اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے نتیجے میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔
ضرار کھوڑو نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ عناصر کو ان سیاستدانوں کو دباؤ میں لانے یا ان کی کردار کشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ طاقتور حلقوں کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔‘
’2018 میں الیکشن سے قبل نواز شریف کی باری تھی اور آج بندوقوں کا رُخ دوسری سمت میں ہے۔‘
میڈیا میں سیاستدانوں کے خلاف چلنے والی خبروں کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہری بات ہے کہ سب ایک دباؤ کے نتیجے میں ہوتا ہے لیکن ایسا بھی ہے کہ پاکستان میں کچھ ٹی وی چینلز کی ہمدردیاں کچھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں۔‘
انھوں نے 2018 کے انتخابات سے قبل میڈیا کوریج کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل ایسا بھی ہوا تھا کہ چینلز کو لگا کہ ایک پارٹی کے حق میں تجزیے اور خبریں چلانے سے ویورشپ میں اضافہ ہو گا۔‘
ضرار کھوڑو کہتے ہیں کہ ’میڈیا کے سیاستدانوں کے خلاف ہونے کی وجہ دباؤ بھی ہے لیکن کچھ لوگوں کی خواہشات یہ بھی ہیں کہ وہ اس کوریج کے ذریعے سویلین یا غیر سویلین طاقتوں کی گُڈ بُکس میں آ جائیں۔‘
رواں ہفتے ہونے والے الیکشن سے قبل سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ملنے والی کوریج سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ضرّار کھوڑو نے کہا کہ ’منصفانہ کوریج ملنے کا سوال تو دور کی بات ہے اب تو ان کو بالکل ہی کوریج نہیں مل رہی۔‘
پاکستانی میڈیا سے منسلک شخصیات پر دباؤ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سی معروف شخصیات بھی ایسے موضوعات پر بات کرنے سے گھبراتی ہیں جن میں طاقتور حلقوں کا ذکر ہو۔
ایک بڑے پاکستانی نیوز چینل کے اینکرپرسن سے جب سوالات کیے گئے تو انھوں نے جواب دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’آپ کو تو معلوم ہے اب اگر ہم کچھ بھی کہتے ہیں تو ہماری شکایت چینل کی انتظامیہ سے کر دی جاتی ہے۔‘
Getty Imagesمیڈیا حکومتیں بنانے یا گرانے کی طاقت رکھتا ہے؟
پاکستان میں ہیرالڈ میگزین کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی تاہم کئی دہائیاں صحافت کرنے کے بعد 2019 میں اسے بند کر دیا گیا تھا۔
اس میگزین کے آخری ایڈیٹر بدر عالم کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ملک میں میڈیا کے کردار کو انڈر ایسٹیمیٹ کیا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ 1980 کے دہائی سے میڈیا میں حکومتی شخصیات کے کرپشن کے قصے چھپوائے جاتے تھے اور جب حکومتیں گرائی جاتی تھیں تو پریس کانفرنسوں میں اخباری تراشے دِکھائے جاتے تھے۔
بدر عالم کے مطابق ’میڈیا ہمیشہ حکومتیں بناتا اور گِراتا آیا ہے۔ جب کسی کو حکومت میں لانا ہوتا ہے تو میڈیا میں اس کی ہوا چلوا دی جاتی ہے اور اس کا اثر آپ کو الیکشن میں نظر آتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جب عمران خان کو حکومت میں لانا تھا اس وقت میڈیا عمران خان کو ہیرو بنا کر پیش کرتا تھا۔
’اب جب بُرا وقت آیا ہے تو جو میڈیا ہاؤس انھیں سپورٹ کر رہے تھے وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تمام ایڈیٹرز اور مالکان جو دباؤ کا ذکر کرتے ہیں دراصل وہ جان بوجھ کر اپنی مرضی سے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اگر دباؤ میں ہیں تو نوکری چھوڑ کر احتجاجاً الگ ہو جائیں، ایسا کرنے سے کون روکتا ہے ان کو؟‘
کیا میڈیا ایسا کسی دباؤ کے نتیجے میں کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں بدر عالم کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ دباؤ پر اپنی نوکری بچانے کے لیے جھک رہے ہیں تو پھر آپ اپنے پیشے سے مخلص نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مالکان کو جب جھکنے کا کہا جاتا ہے تو وہ سجدے میں چلے جاتے ہیں۔‘