یوٹاہ کے ایک چھوٹے سے قصبے ایسکالانٹے کے باہر ایک تنگ وادی میں ایڈونچر گائیڈ رِک گرین ایک عجیب و غریب سرحد کی تلاش کر رہے ہیں جو اتنی نامعلوم ہے کہ اس کا شمار زمین پر موجود سب سے پراسرار مقامات میں ہوتا ہے۔
یہ کھائی اور اس میں موجود پہاڑیاں زمین سے 30 میٹر کی بلندی پر ایک صحرا کی جانب جاتی دکھائی دیتی ہیں، جس کی چوڑائی اب تقریبا 100 فٹ سے کم ہو کر بمشکل ایک فٹ رہ گئی ہے، اور اس کے بعد یہ گھاٹیوں کی ایک بھول بھلیوں میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں چاروں اطراف میں ایک خاص خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہے۔
درجہِ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتے ہی اس پوشیدہ وادی میں اُترنے میں مشغول ہونا انسانی دماغ کو سب کچھ بھول دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ایسکالانٹے کے ایک حصے کے شریک مالک گرین کا کہنا ہے کہ ’کسی کو بھی ایک طویل عرصے تک اس جگہ میں دلچسپی نہیں تھی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ وہ جگہ ہے جہاں امریکہ میں پہاڑوں کے آخری سلسلے ہنریوس کا نام رکھا گیا تھا۔ یہ دریاؤں کا آخری گھر ہے اور یہ امریکہ کا وہ آخری مقام تھا جسے 1870 کی دہائی میں دریافت کیا گیا تھا۔ ہر کوئی اس کے باہر سے ہی گزرتا رہا کیونکہ یہ بہت خطرناک تھا۔‘
آج جنوبی یوٹاہ کی گرینڈ سٹئیرز ایسکلانٹے امریکہ میں سب سے خطرناک اور ناقابلِ رسائی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جو پیچیدہ سطح مرتفع، پہاڑوں اور چٹانوں سے بھرا ہوا ہے اور جسے کبھی بھی مکمل طور پر دُنیا کے سامنے نہیں لایا گیا اور نہ ہی کوئی امریکی شہری، مقامی باشندہ یا کوئی اور اسے سمجھ پایا ہے۔ مثال کے طور پر یہ علاقہ کچھ امریکی ریاستوں ڈیلاویئر اور رہوڈ آئی لینڈ سے بھی بڑا ہے۔
اور اہم بات یہ ہے کہ نقشہ نگاروں کے لیے یہ براعظم امریکہ میں نقشہ بندی کرنے کے لیے آخری جگہ تھی.
گرین کے مطابق ان دنوں یہاں ایسی سینکڑوں کھائیوں اور چٹانوں کے درمیان ایسی وادیاں موجود ہیں جنھیں دریافت کرنا تو دور کی بات ہے انھیں تو آج تک انسانی آنکھ نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہے۔
تاہم اس کے باوجود انھوں نے جنوبی یوٹاہ کے اس خاموش اور ویران کونے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ یعنی 30 کے قریب سروے کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’گرینڈ سٹئیرز ایسکالانٹے میں اب بھی بہت سے مقامات ہیں جو سب سے خوبصورت اور حُسن سے مالا مال ہیں۔‘
خلا سے دیکھا جائے تو یہ قومی یادگار کولوراڈو کے سطح مرتفع سے گرینڈ کینین تک کسی بڑی سیڑھیوں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ اگر اسے قریب سے دیکھا جائے تو یہ ایک قدیم بھول بھلیاں معلوم ہوتی ہے۔ یہ 1.87 ملین ایکڑ پر محیط زمین کا احاطہ کرتی ہے اور پانچ بائیو زونز پر محیط ہے۔ یہی علاقہ انازازی اور فریمونٹ لوگوں کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
1996 میں بل کلنٹن کے دور صدارت میں نامزد کردہ یہ قومی یادگار ایک ایسا مقام ہے جس کے بارے میں گہری سیاسی تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس علاقے کے آدھے رقبے کو ترقی کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن صدر جو بائیڈن اکتوبر 2021 میں اس فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔
انھوں نے ایک صدارتی اعلامیے کے ذریعے سرحدوں میں ترمیم کی اور اس کے تحفظ کے آرڈر کو بحال کیا۔
اصل حکم نامے میں اس علاقے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے: ’یہ اونچا، دشوار گزار اور دور افتاد علاقہ، جہاں بلند سطح مرتفع اور بڑی چٹانیں انسانی نقطہ نظر سے متصادم فاصلوں پر موجود ہیں، یہ براعظم امریکہ میں آخری جگہ تھی جس کا نقشہ تیار کیا گیا تھا۔‘
اس یادگار کی ایک طویل اور باوقار انسانی تاریخ ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ مغرب میں فطرت انسانی کی کوششوں کو کس طرح پیش کرتا ہے۔
1880 کی دہائی کے اختتام کے تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے بانیوں نے سب سے پہلے دریائے سان جوآن کے شارٹ کٹ کا نقشہ تیار کرنے کی کوشش میں اسکالانٹے سے 40 میل تک ایک راستہ بنایا تھا لیکن علاقے کے انتہائی دشوار گزار ہونے کے سبب بعدازاں یہ کام روک دیا گیا تھا۔
اینگس ایم ووڈبری کی کتاب ’اے ہسٹری آف سدرن یوٹاہ اینڈ اٹس نیشنل پارکس‘ میں علاقے کے حوالے سے ایک متاثر کن کہانی نظر آتی ہے۔ اس زمانے میں کچھ سکاؤٹس کو اس دشوار گزار علاقے کی چھان بین اور اسے محفوظ بنانے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن وہ اپنے مشن میں ناکام ہونے کے بعد مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے۔
اس کتاب میں لکھا ہے کہ ’متعدد سفیروں کو مدد کی اپیل کے لیے سالٹ لیک سٹی بھیجا گیا تھا جن کا کام قانون سازی کے ذریعے اس علاقے سے نئے راستے نکالنا تھا۔‘
گرینڈ سٹئیرز کی قومی یادگار کے مینیجر ایڈے نیلسن کے مطابق یہ زمین ایک معمہ اور ایک جغرافیائی پہیلی بنی ہوئی ہے جو ممکنہ طور پر کبھی بھی مکمل طور پر حل نہیں ہو سکے گی۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’دشوار گزار اور مُشکل علاقے کی وجہ سے یادگار کے کچھ حصے ایسے ہیں جن تک رسائی مکمل طور پر ممکن نہیں ہے اور شاید اس علاقے کی کبھی بھی مکمل طور پر نقشہ بندی نہیں کی جا سکے گی۔
محققین یہاں موجود وادیوں کو ’سائنس مونومنٹ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ ایک بہت بڑی بیرونی تجربہ گاہ بن گیا ہے جس کے ہر کونے کو سائنسدان ہمارے ماحول، ہماری تاریخ اور ہمارے سیارے کے ماضی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس علاقے کے انوکھے پس منظر نے گذشتہ 27 سالوں میں سینکڑوں تحقیقات کو جنم دیا ہے۔
بیورو آف لینڈ مینجمنٹ کی ترجمان میگن کرنڈل کا کہنا ہے کہ ’یہاں کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں ہر سال اوسطاً جانوروں کی ایک نئی قسم کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’2020 میں کیپروویٹس فارمیشن میں کھدائی کے دوران ڈائنوسارز کی ایک قسم ٹی 2 ٹرائنوسار کی اس علاقے میں موجودگی کا انکشاف ہوا، یہ نشانات اتنے بڑے تھے کہ سائنسدانوں کو انھیں منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘
اس کے علاوہ جغرافیائی لحاظ سے اس طرح کی بھول بھلیوں میں کسی بھی انسانی آبادی کی موجودگی کے نشانات ملنے کی توقع کم ہی ہوتی ہے۔ پھر بھی اس منظر نامے میں قدیم پیٹروگلف، روایتی کیمپ سائٹس، تدفین کے مقامات اور اناج خانوں کی بکھری ہوئی مثالیں موجود ہیں۔
درحقیقت، یہ مقامی امریکی ثقافت اور لوک داستانوں کا ایک خزانہ ہے۔ درحقیقت، ناواجو زبان میں اس علاقے کو اب بھی دزیلو بزیدنی (وہ پہاڑ جس کا نام غائب ہے) کہا جاتا ہے۔
اس طرح کی کہانیاں اب انسازی سٹیٹ پارک میوزیم میں سامنے آئی ہیں، جو بولڈر کے اونچائی والے قصبے میں قومی یادگار کی سرحد پر واقع ہے۔
سب سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس جگہ سے اب تک تقریبا 162،000 نوادرات برآمد کیے گئے ہیں جہاں انسازی قبیلہ، جنھیں مغربی امریکہ کا بانی بھی کہا جاتا ہے، 200 قبل مسیح میں آباد تھے۔
پارک مینیجر جیمی سکڈمور کا کہنا ہے کہ ’انسازی باشندے ایک ایسی جگہ پر رہتے رہے جہاں زندگی گزارنا مشکل تھا۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’پانی اور خوراک کی کمی کے باوجود زندہ رہنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ یہ قدیم برادری آخر کار مشکلات اور خشک سالی کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔‘
آج اس علاقے میں بڑھتی ہوئی سیاحتی دلچسپی لوگوں کی سوچ کو تبدیل کر رہی ہے جس سے یہاں کہ خوبصورت مناظر مزید لوگوں کے سامنے آ رہے ہیں۔
آج سیاحتی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے میں مدد مل رہی ہے اور لینڈ سکیپ آہستہ آہستہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس علاقے کے زیادہ تر حصے میں پیدل چلنا مشکل ہے اور صرف مُٹھی بھر پگڈنڈیاں ایک انٹرایکٹو نقشے کے ذریعے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
جنوبی یوٹاہ میں بیورو آف لینڈ مینجمنٹ آفس کے منیجر ہیری باربر نے کہا کہ ’یہ علاقہ کچھ لوگوں کے لیے ترغیب اور سیکھنے کا ذریعہ ہیں اور دوسروں کے لیے امن اور اتحاد کا سبق۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہر صبح مجھے کسی نہ کسی نئے مقام پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میں عام طور پر یا تو پیدل سفر کرتا ہوں یا پھر سائیکل چلاتا ہوں۔ میں آنے والے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتا ہوں۔ جب میں کسی ایک جانب نکل پڑتا ہوں تو میں اکثر دوسروں کو دیکھتا ہوں جن کے بارے میں مجھے صرف شک ہے کہ وہ اسی طرح کی وجوہات کی بنا پر وہاں موجود ہیں۔‘
زمین ایک استاد کی مانند ہے، یہ آپ کو بہت کُچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع دیتی ہے، یہ ان مسافروں کو ناپسندیدہ سبق بھی دے سکتی ہے جو بغیر تیاری کے آتے ہیں۔ اس مقام پر فون کوریج بہت کم ہے۔ جونیپر اور پائن کے درخت شدید گرمی میں زندہ رہنے کے لیے اپنی شاخیں آپ کے اُوپر بچھا دیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جو آپ کو اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ مہم جوئی کے لامتناہی اور غیر متوقع مواقع امریکہ کے اس مقام پر موجود ہیں۔ فاصلہ ہے تو سہی مگر نا ہونے کے برابر۔