میانوالی کے ایک سکول میں پرنسپل مظہر نیازی کو ایک دن معروف گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا فون آیا۔
مظہر نیازی اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی خاصے قریب تھے اور عام طور پر عطا اللہ انھیں اپنے گانوں کی شاعری لکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً کہتے رہتے تھے۔ تاہم اس مرتبہ ان کی فرمائش خاصی انوکھی تھی۔
رسمی علیک سلیک کے بعد عطا اللہ بولے: ’شخصیت میانوالی کی ہے، گانے والا بھی میانوالی کا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لکھنے والا بھی میانوالی کا ہو۔‘
یہ عطااللہ کی جانب سے انھیں پی ٹی آئی کے ترانے کے اشعار لکھنے کی درخواست تھی۔ یوں پی ٹی آئی کا مشہور ترانہ ’بنے گا نیا پاکستان‘ لکھنے کی شروعات ہوئی۔
سترہ کتابوں کے مصنف مظہر نیازی کہتے ہیں کہ ’میں نے کُل آٹھ اشعار لکھے تھے جس میں سے عطا اللہ نے چھ کا استعمال کیا اور باقی دو چھوڑ دیے۔‘
جب یہ ترانہ انٹرنیٹ پر ریلیز ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے خاصا مقبول ہونے لگے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے اسے بہت پسند کیا اور پھر یہ پی ٹی آئی کے جلسوں کے زینت بن گیا۔
مظہر نیازی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عطااللہ سے جب میں نے اس ترانے کی مقبولیت کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’قمیض تیری کالی اور تھیوہ مندری کا تھیوہ‘ پوری دنیا میں بہت مقبول ہوئے لیکن بنے گا نیا پاکستان کی شہرت باقی سب گانوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔‘
مظہر نیازی نے پی ٹی آئی سے محبت کے بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم میانوالی کے لوگ ہیں کیونکہ عمران خان میانوالی کے ہیں اس لیے ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ میانوالی کا انسان اتنا ترقی کر کے ایک ملک کا وزیراعظم بنا، ہمیں اپنی مٹی سے پیار ہے یہاں کے رہنے والے کوئی بھی سپوت اس لیول پر جاتا ہے تو ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور مجھے بھی ان سے انس تھا اور میری ان سے ملاقاتیں بھی رہیں ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ عمران خان کی جانب سے بذاتِ خود بھی ان کی یہ گانا لکھنے پر تعریف کی گئی۔
مظہر نیازی نے اس کے بعد پی ٹی آئی کے لیے دو مزید ترانے لکھے جن میں ’جیئیں گے عمران کے ساتھ، مریں گے عمران کے ساتھ‘ اور ’ابھی مشکل وقت ہے یار، نہ ہمت ہار‘ شامل ہیں۔
یہ دونوں ترانے اتنی مقبولیت تو حاصل نہیں کر سکے لیکن عمران خان کے جلسوں میں گائے گئے۔
’ابھی مشکل وقت ہے یار‘ ترانہ لکھنے کے بارے مظہر نیازی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال سے لالہ (عطا اللہ) کو عمران خان نے کہا کہ معیشت کچھ بہتر ہوئی ہے اور ہم مزید اس کو بہتر کر لیں گے تو آپ اس پر کچھ اشعار لکھیں تاکہ لوگوں میں امید پیدا ہو۔
’انھوں نے مجھے پہلی والی دھن کے اوپر ہی کچھ لکھنے کو کہا۔‘
شاعروں کی جذباتی شاعری اور گلوکاروں کی جوشیلی دھنیں نہ صرف سیاسی پنڈال کو گرمائے رکھتی ہیں بلکہ یہ سیاست دانوں کے لیے عوام سے جڑے رہنے کا اضافی ذریعہ بن گئے ہیں۔
ہم نے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے ترانے لکھنے والے والے شاعروں اور گلوکاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے انھوں نے مشہور پارٹی ترانے کیسے لکھے اور گائے۔
’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے‘
یہ بازی خون کی بازی ہےیہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے
جب بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ بدعنوانی کے الزامات لگا کر سنہ 1990میں الٹا دیا گیا تو جہلم سے تعلق رکھنے والے پنجابی اور اردو کے شاعر نصیر کوی نے مشہور نظم ’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے‘ لکھی اور پھر اسلام آباد جا کر خود اپنے ہاتھوں سے یہ بینظیر کو پیش کی۔
نصیر کوی تو اب حیات نہیں ہیں لیکن جہلم میں مقیم ان کی اہلیہ غزالہ نصیر سے ہم نے اس نظم اور پیپلز پارٹی کے لیے ان کی شاعری کے بارے میں ہم نے تفصیل سے بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’نصیر کوی کو ہم سے جدا ہوئے 12 سال گزر گئے۔ آج بھی ہم جب ان کے اشعار کسی بھی ذریعے سے سنتے ہیں تو یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
’ان کے اشعار بے نظیر بھٹو بھی پڑھتی تھی بعد میں زرداری صاحب اور بلاول بھٹو بھی پڑھتے رہتےہیں۔‘
غزالہ نصیر کہتی ہیں کہ ’جب نصیر کوی نے یہ نظملکھی تو پہلے مجھے سنائی، کچھ وقت بعد یہاں جہلم میں تو کافی لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ نظم نصیر کوی صاحب کی ہے لیکن باقی جگہوں پر نہیں پتہ تھا۔‘
غزالہ بتاتی ہیں کہ ’ایک دفعہ اسلام آباد سے ان کے دوست کی کال آئی اور وہ کہنے لگے کہ آپ کی یہ مشہور نظم کوئی اور شاعر اپنا نام دے کر چھپوانے لگا ہے تو کوی صاحب نے دوستوں سے مشورہ کیا تو سب دوست کہنے لگے کہ کچھ لوگ اسے حبیب جالب صاحب کی نظم کہتے ہیں اور کچھ لوگ اسے اپنے نام سے چھپوانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مشورہ دیا کہ ’آپ اس کو باقاعدہ چھپوائیں اور کسی بڑے مشاعرے میں بھی اس کو پڑھیں تو پھر ان کے ایک دوست ملک انوار الحق انھوں نے ہی کوی صاحب کی کتاب چھپوائی اور اسلام آباد کے ایک مشاعرے میں کوی صاحب نے پڑھی اس کے بعد پھر ان کی یہ نظم پورے پاکستان میں پھیل گئی اور وہ بہت مشہور ہوئے۔‘
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ریٹائرڈ ملک انوار الحق جو شاعر نصیر کوی کے محلے دار اور بچپن کے دوست ہیں کہتے ہیں کہ ’کوی نے ضیاالحق کے جبر پر پوری نظم لکھی ہے پھر بھٹو صاحب کی شہادت پر پھر ایک پوری نظم مرتضیٰ کے قتل کے حوالے سے اور پھر بے نظیر کی شہادت پر ایک نظم لکھی۔‘
انھوں نے کہا کہ اس میں پیپلز پارٹی کے ساتھ نصیر کوی کے وابستگی نظر آتی ہے۔
انوار الحق کا کہنا تھا کہ ’جب بینظیر قتل ہوئیں تو اس وقت امن و امان کی صورتحال اچانک خراب ہو گئی اور نصیر کوی بہت اداس ہو گئے تھے جیسے کوئی اپنا دنیا سے چلا جاتا ہے۔‘
بینظیر کی شہادت پر انھوں نے ایک نظم بھی لکھی:
کہ خوشبو مر نہیں سکتی
کسی لیزر
کسی لیور
کسی خود کش دھماکے سے
یہ خوشبو کی گواہی ہے
گواہی معتبر ٹھہری
زمانے کی عدالتوں میں
ملک انوار الحقکہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نصیر کوی بہت دل برداشتہ تھے اور اس طرح کے جیالے نہیں رہے تھے لیکن انھوں نے بہت طویل عرصہ پیپلز پارٹی کی مدح سرائی میں گزارا ہے۔
ملک انوار الحق نے بتایا کہ ’شروع میں وہ ایک مذہبی شخص تھے، پھر بھٹو صاحب کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی ہوئی، وابستگی ہوئی تو بس پھر اس کے بعد وہ پیپلز پارٹی کے ہو کر رہ گئے۔‘
’بھٹو صاحب کی موت نے ان پر بہت ہی گہرا اثر ڈالا۔ جب بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی تو کئی دن تک وہ روتے رہے پریشان ہوتے رہے۔ آپ ان کی کتاب دیکھیں توآپ کو وہ سارے آنسو نظر آئیں گے۔‘
ملک انوار الحق کا کہنا تھا کہ ’کوی صاحب پاکستانی ادبی تاریخ میں مزاحمتی شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہی حکومتوں کی طرف سے ایک ناگوار ردِعمل کا سامنا رہتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جی ٹی ایس چوک جہلم پر جو کوی صاحب کا ہوٹل تھا وہاں ہم دوست احباب کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ جب بھٹو صاحب کو سزائے موت ہو رہی تھی تو اس وقت جو لوگوں کا گرفتاریوں کا سلسلہ کوی صاحب کے ہوٹل سے ہی شروع ہوا تھا۔‘
نصیر کوی کی کتاب ان کی زندگی کے آخری ایام میں انوار الحق نے ہی چھپوائی تھی۔ ملک انوار الحق اسے ایک المیہ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں اور بھی بہت سے شاعر ہوں گے جن کی زندگی میں ان کی کتابیں نہیں چھپیں اور اگر آپ کی کتاب نہیں ہے تو اس وقت سوشل میڈیا بھی نہیں تھا تو ان کے سننے والے ان کے جو حلقہ احباب ہیں وہ کتنے لوگ ہوں گے۔
’اگر ان کی شاعری اس وقت سوشل میڈیا پر ہوتی تو خدانخواستہ ان کو سزائے موت دے دیتے۔ اب کیونکہ ان کی کتاب چھپی ہے اور ساتھ ہی ان کی وفات ہو گئی تو اب یہ کتاب اداروں کو قبول کرنا پڑے گی۔ یہ ایک قومی المیہ ہے ہماراکہ زندگی میں ہم لوگوں کا خیال نہیں کرتے اور جب وہ جانے لگتے ہیں یا جا چکے ہوتے ہیں تو پھر ہمیں یاد آتا ہے کہ کتنا بڑا آدمی ہمارے درمیان سے رخصت ہوا۔‘
’ملک بچا لو نواز شریف‘
ساحر علی بگا پاکستان کے مشہور گلوکار ہیں وہ ایک دفعہ کسی شادی کی تقریب میں گئے اور وہاں پر ان کو سیاسی ترانے کی فرمائش ہو گئی جو انھوں نے مسلم لیگ ن کے لیے گایا اور یہ خاصا مشہور ہو گیا۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب یہ ترانہ نواز شریف صاحب کو سنایا گیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مجھے اپنے اس ترانے کی اس سے زیادہ اور کیا کامیابی مل سکتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’یہ عمران رضا کا لکھا ہوا ترانہ ہے اور مجھ سے انٹر لنک ایجنسی نے رابطہ کیا اور بات طے پا گئی اور پھر میں نے یہ ترانہ مکمل کیا۔‘
ساحر علی بگا نے بتایا کہ ’میں پاکستانی عوام کو اپنے لوگوں کو پسند کرتا ہوں اور پسند کرنے والوں میں سے وہ بھی ہیں جو پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہم سے رابطہ کرتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے گائیں اور میں ان کو نہ نہیں کر سکتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ نواز شریف کے پسندیدہ گلوکار ہیں۔ ’ان کی فرمائش پر میں نے مسلم لیگ ن کا نیا ترانہ گایا۔ یہ ان کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ میں گاؤں، میں ان کی فیملی کا فیورٹ گلوکار ہوں۔‘
ساحر علی بگا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ہر پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتا ہوں، میں ایک پروفیشنل گلوکار ہوں مجھے جو بھی کہے گا گانے کو میری فیس ادا کرے گا اور میں اس کے لیے گانا گاؤں گا۔‘
انھوں نے 2018 کے الیکشن کے بارے میں کہا کہ ’میری آواز پیپلز پارٹی کے سٹیج پر بھی سنائی دی، ن لیگ کے سٹیج پر بھی سنائی دی اور پی ٹی آئی کے سٹیج پر بھی سنائی دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں پچھلے 15 سال سے پاکستانی فوج کے لیے بھی گانے گا رہا ہوں۔ میں ان کو ترانوں سے متعلق مشورے بھی دیتا ہوں اور کمپوز بھی خود کرتا ہوں۔ ‘
’میں سب سے پہلے ان کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں اپنے فوجیوں کے لیے گاؤں اپنے شہدا کے لیے گاؤں یہ میری پہلی خواہش ہوتی ہے۔‘