بلوچستان کے نوابوں کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والی ایک ہاری کی بیٹی: ’اگر میں خوف اور ڈر رکھوں گی تو علاقے میں تبدیلی کیسے لاؤں گی؟‘

بی بی سی اردو  |  Feb 03, 2024

BBC

شانگلہ کی رہائشی ساجدہ بی بی (فرضی نام)نے شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں صرف ایک بار ووٹ ڈالا ہے۔ انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دو سال قبل بلدیاتی انتخابات میں اس وقت ملی جب ان کے شوہر کے دوست کو ووٹ کی ضرورت تھی۔

’دو سال پہلے تک مجھے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ایک عورت ووٹ بھی ڈال سکتی ہے۔‘

وہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سوات ڈویژن کے ضلع شانگلہ کی رہائشی ہیں۔ ساجدہ بی بی کے مطابق ان کے شوہر نہیں چاہتے کہ گھر کی خواتین پولنگ سٹیشنز پر مردوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ہوں کیونکہ ’اس سے ان کا پردہ ختم ہوگا۔‘

ووٹ ڈالنے کی اس پابندی کا شکار صرف ساجدہ اور ان کے گھر کی دیگر خواتین ہی نہیں، بلکہ اس صورتحال کا سامنا لاکھوں خواتین ووٹرز کو ہے۔

ضلع شانگلہ میں سنہ 2018 کے انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ اتنا کم تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہاں انتخابات کالعدم قرار دے دیے تھے۔ یہ ملک کے انتہائی قدامت پسند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں خواتین کے لیے سخت روایات رائج ہیں جن کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔ شانگلہ کی تاریخ میں بلدیاتی یا کسی بھی الیکشن میں کوئی خاتون امیدوار کھڑی نہیں ہوئی ہیں۔

یہاں کل رجسٹرڈ ووٹرز میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔ مگر انھیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ تو دوسری جانب پولنگ کے دن ایسے انتظام بھی نہیں نظر آتے جو ان علاقوں کی خواتین کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں۔ ہم اس علاقے میں چند خواتین سے ملے اور سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا گذشتہ چھے برسوں کے دوران کچھ تبدیلی آئی ہے۔

یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے خاندان کے مردوں کی اجازت چاہیے، جو عام طور پر نہیں دی جاتی۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہونا، پولنگ بوتھ علیحدہ نہ بنائے جانے کو یہاں کے مرد وہ وجہ بتاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے۔

BBC’ووٹ تو دور کی بات یہاں کوئی عورت بیماری میں شوہر کی اجازت کے بغیر ہسپتال نہیں جا سکتی‘

27 سالہ شگفتہ ادریس شانگلہ کی گنتی کی چند خواتین میں سے ایک ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ایک مقامی سکول میں درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں میں بھی علاقے میں خواتین کے حقوق سے متعلق کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں کوئی عورت بیمار ہو جائے تو وہ شوہر کی اجازت کے بغیر ہسپتال نہیں جا سکتی۔ اکثر شوہر اس لیے بھی اجازت نہیں دیتا کہ ہسپتال میں یا باہر مرد ہیں، اس لیے نہیں جانا۔ اس طرح وہ عورت بیماری اور تکلیف برداشت کرتی ہے مگر اجازت کے بغیر باہر نہیں نکل سکتی۔ یہی حال ووٹ کا بھی ہے۔‘

ان کی دوست ثوبیہ آرزو بتاتی ہیں کہ یہاں خواتین کو یہ علم ہی نہیں کہ ووٹ کتنا اہم ہے اور وہ اپنا یہ حق کیسے اور کیوں استعمال کریں۔ ان کےمطابق ’ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ووٹ وغیرہ ہوتا کیا ہے۔ مجھے تو اب شعبہ تدریس میں آ کر تھوڑا بہت پتا چلا ہے۔ جہاں مرد کہتے ہیں کہ ووٹ دو، ہم ان کو دے دیتے تھے۔ مگر اس بار میں سوچ رہی ہوں کہ میں اپنی مرضی کی پارٹی کو ووٹ دوں گی۔‘

یہ صورتحال صرف شانگلہ میں ہی نہیں، اس سے متصل دیگر علاقوں جیسا کہ کوہستان، بٹگرام اور اپر اور لوئر دیروغیرہ میں بھی ہے جہاں خواتین کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ عام طور پر کم ہوتا ہے۔

کوہستان ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں خواتین ووٹرز اور امیدواروں کو روکنے کے لیے فتوے تک جاری کیے جاتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بھی ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب اور سندھ کے بھی متعدد حصوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مرد ووٹرز کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے۔

BBC’یونیورسٹی تو دور کی بات پورے ضلعے میں صرف ایک گرلز ڈگری کالج ہے‘

سنہ 2018 کے انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار دیکھیں تو خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں کل ڈالے جانے ووٹوں میں سے صرف تین فیصد خواتین نے دیے تھے جو کم ترین سطح تھی۔ اسی طرح مہمند ایجنسی میں کل ووٹرز ٹرن آؤٹ میں خواتین کا حصہ صرف چھ فیصد تھا۔ اور وزیرستان میں بھی دس فیصد سے کم ووٹ ڈالنے کی وجہ سے الیکشن کالعدم قرار دیے گئے تھے۔

ووٹنگ ٹرن آؤٹ میں کمی کی ایک وجہ خاندان کے مردوں کی جانب سے اجازت نہ ملنا اور مختلف قسم کی سماجی پابندیاں تو ہیں ہی مگر تعلیم کا فقدان اور اپنے حقوق سے آگاہی نہ ہونا بھی ہے۔ مثلاً لاکھوں کی آبادی والے ضلع شانگلہ میں لڑکیوں کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہے جبکہ یونیورسٹی سرے سے موجود ہی نہیں۔

ثوبیہ آرزو کہتی ہیں کہ یہاں خواتین کو علم ہی نہیں کہ الیکشن کیا ہے اور ان کا ووٹ ڈالنا کتنا اہم ہے۔

ان کے مطابق ’خواتین میں آگاہی نہیں ہے۔ دوسرا یہاں بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر پولنگ سٹیشن ایک ہی عمارت میں ہوتے ہیں۔ پولنگ بوتھ الگ ہوتے ہیں مگر عمارت کا داخلی دروازہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں گھر ایک دوسرے سے دور اور عام طور پر سڑکیں بھی نہیں ہوتی یں۔ کبھی پولنگ سٹیشنز ان کے گھروں سے اتنے دور ہوتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں کئی گھنٹے پیدل سفر کے بعد یہاں پہنچنا مشکل سمجھا جاتا ہے۔‘

BBC

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق کسی حلقے میں مرد اور خواتین ووٹرز کی کل تعداد میں اگر خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہوگی تو اس حلقے کے نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے اور پولنگ کا عمل کالعدم قرار پائے گا۔

لیکن ماہرین سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے صرف دس فیصد خواتین ووٹر کا ٹرن آؤٹ ’بہت کم حد ہے۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الیکشن کی نگرانی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فافن سے تعلق رکھنے والی رخسانہ کہتی ہیں کہ اتنے کم ووٹ سیاسی جماعتی اپنے قریبی ورکرز کی فیملیز کے ذریعے باآسانی پوری کر لیتی ہیں۔ اس طرح بڑے پیمانے پر تبدیلی نہیں آ پاتی۔

ان کے مطابق ’کوئی بھی ایسا فارمولا لاگو کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اتنا عام ہو جائے گا کہ ہر سال مزید خواتین قومی دھارے میں شامل ہوتی جائیں گی اور یہ حد بڑھتی جائے گی۔ مگر یہاں ایسا نظر نہیں آتا۔ دس فیصد کی ایک حد رکھ کر بات ختم کر دی گئی، جس کا مستقبل میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ تعداد تو دس فیصد پر رک جاتی ہے۔‘

Getty Imagesجھل مگسی: ’میں دل میں ڈر رکھوں گی تو تبدیلی کیسے لاؤں گی؟‘BBC

اس پریشان کن صورتحال میں بھی کہیں کچھ امید نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی کی ریحانہ مگسی اس پسماندہ علاقے میں طاقتور نوابوں کے خلاف الیکشن میں کھڑی ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔

ان کا کچا گھر گوٹھ سارنگ میں ہے، جہاں ہر شے میں ہی غربت کی جھلک ہے۔ وہ ہاتھ میں کاغذ لیے گھر گھر پیدل اور کبھی بائیک پر جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ مہم کے لیے پمفلٹ کی رنگین پرنٹنگ کروا سکتے۔ میرا باپ ایک ہاری ہے۔ میرے بھائی نے ایک موٹر سائیکل قسطوں پر لیا اور اسے بیچ کر میرے الیکشن لڑنے کا انتظام کیا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ وہ صبح دس بجے تک گھر کا کام ختم کرکے گاؤں میں گھر گھر جاتی ہیں اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ انھیں ووٹ دیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے علاقے میں یونیورسٹی، کالج نہیں ہے۔ یہاں بجلی، گیس ہسپتال اور پکی سڑک تک موجود نہیں۔

BBC

’میں انتخابی مہم ایسے چلا رہی ہوں کہ میں کھبی بائیک پر اور کبھی پیدل لوگوں کے پاس جاتی ہوں۔ میری پہلی خواہش ہے کہ میں اگر جیتی تو اس علاقے میں ہسپتال اور یونیورسٹی بناؤں گی، یہاں کالج، روڈ اور بجلی جیسی سہولتیں نہیں ہیں۔ اور ہم رشوت کے بغیر اور تعلیم کے مطابق نوکری دیں گے۔ ہسپتال بنائیں گے کیونکہ عورتوں کو سہولت نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت بیمار ہو جائے تو اسے سکھر یا سندھ جانا پڑتا ہے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں خواتین امیدوار بھی کم ہی میدان میں نظر آتی ہیں۔ لیکن ایسے علاقے جہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ہی نہ ہونے کے برابر ہو، وہاں کسی خاتون امیدوار کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرنا ایک بڑی بغاوت سمجھی جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بلوچوں میں یہ رواج نہیں ہے کہ عورت انتخابات میں حصہ لے لیکن مجبوری ہے۔ مجبوری مجھے انتخابی میدان تک لے آئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے ایسا قدم کیوں اٹھایا؟ اگر میں اپنے اندر خوف اور ڈر رکھوں گی تو علاقے میں تبدیلی کیسے لاؤں گی؟‘

ریحانہ مگسی کہتی ہیں کہ انھیں علم ہے کہ وہ اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے شاید انتخابات جیت نہ سکیں، مگر وہ مستقبل کا سوچتی ہیں جب خواتین کا الیکشن لڑنا معمول بن جائے گا۔

ان کے مطابق ’میں اس ڈر اور خوف کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔ اسی لیے آج میں الیکشن میں کھڑی ہوئی ہوں، تاکہ کل مزید عورتیں الیکشن لڑسکیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More