اڈیالہ جیل سے بنی گالہ تک: سب جیل کیا ہوتی ہے اور کیا بشریٰ بی بی کو خلاف قانون یہ سہولت فراہم کی گئی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 01, 2024

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی بنی گالہ میں واقع رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیتے ہوئے سابق خاتون اوّل بشریٰ بی بی کو وہاں منتقل کر دیا ہے۔

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق بنی گالہ میں رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ وفاقی وزارت قانون کی ہدایت اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹینڈنٹ کی درخواست پر کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے بدھ کے روز توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشری بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا اور مجموعی طور پر ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

جب یہ فیصلہ سُنایا گیا تو عمران خان اڈیالہ جیل ہی میں قید تھے تاہم اُن کی اہلیہ یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعدگرفتاری دینے اڈیالہ جیل پہنچی تھیں۔

اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار کے مطابق جیل انتظامیہ نے بشریٰ بی بی کو قیدی کے طور پر خواتین قیدیوں کی بیرک میں منتقل کرنے کے بجائے انھیں کچھ وقت کے لیے ایک کمرے میں بٹھایا گیا اور جب بدھ کی شام اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بنی گالہ میں واقع گھر کے رہائشی حصے کو سب جیل قرار قرار دینے کا نوٹیفکشن جاری کیا تو بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل حکام نے اپنی تحویل میں بنی گالہ منتقل کر دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو بنی گالہ کی اسی رہائش گاہ کو ’وزیر اعظم ہاؤس‘ قرار دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی با اثر ملزمان کے گھروں کو ہی سب جیل قرار دیتے ہوئے انھیںوہاں پر قید رکھنے کی مثالیں موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم سابق فوجی صدر پرویز مشرف ہیں جنھیں نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی لگانے اور ججز کو نظربند کرنے کے مقدمے میں چک شہزاد میں واقع اُن کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دے کر وہیں رکھا گیا تھا۔

اسی طرح تھری ایم پی او کے تحت مختلف سیاسی قائدین اور اہم شخصیات کی گھروں میں نظربندی کے سینکڑوں نوٹیفکیشن جاری ہو چکے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس یہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دے کر کسی شخص کو وہاں قید رکھ سکتے ہیں۔

Getty Imagesبنی گالہ کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد وہاں کی بیرونی سکیورٹی اسلام آباد پولیس کے حوالے کی گئی ہے

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل ذوالفقار عباس نقوی نے بی بی سی کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 541 کے تحت یہ اختیار ہے کہ وہ مناسب وجوہات کی بنا پر کسی بھی مناسب جگہ کو سب جیل قرار دے کر سزا یافتہ مجرم کو وہاں مقید رکھنے کے احکامات جاری کر سکتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں رائج ضابطہ فوجداری کے زیادہ تر قوانینانگریزوں کے دور کے ہیں اور ان میں گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کو جب سنہ 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈریفرنس میں سزا سنائی گئی تھی تو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کے نواح میں واقع سہالہ ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انھیں وہاں منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

تاہم مریم نواز اور نواز شریف دونوں ہی نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کے پاس ضابطہ فوجداری کے تحت کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دینے کا اختیارضرور ہے لیکن جیل رولز میں ایسی کوئی بھی شق نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ کسی سزا یافتہ مجرم کو قید کی مدت پوری کرنے کے لیے اس کے گھر کو ہی سب جیل قرار دیا جائے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جیل ایکٹ کے تحت جیل کے رولز بنائے جاتے ہیں اور جیل رول کے باب 13، جو خواتین قیدیوں اور بچوں سے متعلق ہے، اس میں ایسا کسی جگہ نہیں لکھا ہوا کہ سزا یافتہ قیدی کو اپنی قید کی مدت پوری کروانے کے لیے اُن کے گھر کو ہی سب جیل قرار دیے جانے کی سہولت موجود ہو۔

انھوں نے کہا کہخواتینقیدیوں میں اگر کوئی سنگین جرم میں ملوث قیدی نہ ہو تو اُن کو جیل کے اندر ہی بی کلاس دینے کے علاوہ صرف یہ سہولت دی جاتی ہے کہ رات کو اُن کے کمرے کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاہم وہ خواتین قیدی جو سنگین جرائم (قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، ڈکیتی وغیرہ) کی بنیاد پر سزا یافتہ ہوں انھیں یہ سہولت بھی نہیں دی جا سکتی۔

ذوالفقار بھٹہ کے مطابق جہاں تک انھیں علم ہے ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کسی مجرم (نہ کہ ملزم) کو سزا کاٹنے کے لیے اُن کے گھر ہی میں منتقل کیا گیا ہے۔

بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیے جانے کے بعد وہاں پر سکیورٹی کی ذمہ داری اڈیالہ جیل کی انتظامیہ کی ہو گی۔ اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں ایک ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کی سربراہی میں دس اہلکار بنی گالہ کے باہر سکیورٹی کی غرض سے تعینات ہوں گے۔

Getty Imagesسزا سنائے جانے کے بعد بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل پہنچی تھیں جہاں سے انھیں واپس بنی گالا سب جیل منتقل کر دیا گیا

صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کا فیصلہ کرنے والوں نے بظاہرقانون سے زیادہ سیاسی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ اُن میں اور عمران خان میں بہت فرق ہے کیونکہ عمران خان کے بطور وزیر اعظم دورِ اقتدار میں نیب کے ہی مقدمات میں مریم نواز اور فریال تالپور کو جیل میں رکھا گیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی دیگر خواتین بھی لاہور کی جیلوں میں قید ہیں تاہم وہ نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں قید ہیں۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرف بھٹو کو بھی جیلوں میں رکھا گیا اور اُس وقت بھی اگرچہ یہی قوانین موجود تھے مگر کوئی ایسا اقدام نہیں لیا گیا۔

سب جیل میں کیا قیدی کو زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں؟

محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ سب جیل میں مقید مجرم پر بھی وہی قواعد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں جو سینٹرل یا ڈسٹرکٹ جیل میں موجود قیدیوں پر ہوتے ہیں اور سب جیل میں قیدی کو کھانا فراہم کرنا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری متعلقہ جیل انتظامیہ کی ہی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیل مینوئل کے مطابق عمومی طور پر سابق وزیر اعظم، ان کے اہلخانہ اور ممبران پارلیمان کو بی کلاس دی جاتی ہے جس میں قیدی کو ایک مشقتی (روزمرہ کے کام کرنے والا) بھی دیا جاتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ سب جیل قرار دیے جانے کے بعد کیا قیدی اپنی مرضی کا کھانا بنوا سکتا ہے، محکمہ جیل کے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کے لیے متعلقہ عدالت کے علاوہ جیل انتظامیہ سے بھی پیشگی اجازت لینا ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اٹک جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عام قیدیوں والا کھانا نہیں کھاتے اور اپنی مرضی کا کھانا، جو جیل کے کچن میں ہی تیار ہوتا ہے، تیار کرواتے ہیں جس کے عوض وہ وہ ہر ماہ ادائیگی بھی کرتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More