Getty Imagesایلون مسک کا کہنا ہے کہ نیورالنک کے اس آلے کا نام ’ٹیلی پیتھی‘ ہوگا
ٹیکنالوجی کی صنعت کی ارب پتی شخصیت ایلون مسک نے اعلان کیا ہے کہ ان کی کمپنی نیورالنک کی بنائی وائرلیس برین چپ پہلی بار کسی انسان میں کامیابی سے نصب کر دی گئی ہے۔
ان کے بقول ابتدائی نتائج کے مطابق چپ لگائے جانے کے بعد مریض کے دماغ میں حوصلہ افزا نیوران اسپائک یا اعصابی تحریکیں دیکھی گئی ہیں جبکہ مریض تیزی سے صحتیاب بھی ہو رہا ہے۔
نیورالنک سے قبل کئی حریف کمپنیاں پہلے ہی ایسے آلات مریضوں کے دماغ میں لگانے کے تجربات کر چکی ہیں۔
بی بی سی نے اس متعلق نیورالنک اور امریکہ کی فیڈرل فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے رابطہ کیا ہے۔
ایف ڈی اے نے پچھلے سال مئی کے مہینے میں ایلون مسک کی کمپنی کو برین چپ کی انسانوں پر تجربے کی اجازت دی تھی۔
اس کے نتیجے میں ایک چھ سالہ مطالعہ شروع ہوا جس کے تحت سرجری کے ذریعے 64 بال سے بھی باریک دھاگے دماغ کے اس حصے میں لگائے جاتے ہیں جو جسمانی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔
نیورالنک کا کہنا ہے کہ ان کا بنایا گیا امپلانٹ بیٹری سے چلتا ہے جس کو وائرلیس طریقے سے چارج کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ تھریڈز اس تجرباتی امپلانٹ کو دماغی سگنلز وائرلیس طور پر بھیجتا ہے جو ایک ایپ میں منتقل کردیے جاتے ہیں۔ یہ ایپ ان پیغامات کو ڈی کوڈ کرتا ہے کہ متعلقہ شخص کس طرح حرکت کرنا چاہتا ہے۔
ایلون مسک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر)، جس کے وہ مالک بھی ہیں، پر لکھا ہے کہ نیورالنک کے اس آلے کا نام ٹیلی پیتھی ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی پیتھی استعمال کرنے والا اپنے فون یا کمپیوٹر کو اپنی سوچ کے ذریعے کنٹرول کر پائے گا۔ اور اس فون یا کمپیوٹر کے ذریعے کسی بھی ڈیوائس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔
ابتدائی طور پر یہ آلہ ان افراد کو لگایا جائے گا جو جسمانی طور پر مفلوج ہیں۔
نیورالنک کی آزمائش اور ’ٹیلی پیتھی‘
نیورلنک کو ماضی میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ روئٹرز نے دسمبر 2022 میں رپورٹ کیا تھا کہ کمپنی ٹیسٹنگ میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں تقریباً 1,500 جانور ہلاک ہوئے، جن میں بھیڑ، بندر اور خنزیر شامل ہیں۔
جولائی 2023 میں امریکی محکمہ زراعت کے سربراہ نے کہا کہ اسے کمپنی میں جانوروں کی تحقیق کے قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں ملی۔
تاہم ایجنسی کی جانب سے الگ سے تفتیش جاری ہے۔ مسک کی کمپنی کو مئی 2023 میں ایف ڈی اے کی طرف سے انسانوں پر چپ کی جانچ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
Getty Images
برٹش نیورو سائنس ایسوسی ایشن کی صدر پروفیسر تارا اسپائرز جونز نے کہا کہ ’اس میں مستقبل میں اعصابی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے کی بڑی صلاحیت ہے اور یہ اس بات کی ایک بہترین مثال ہے کہ طبی ترقی کے لیے بنیادی نیورو سائنس کی تحقیق کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
’تاہم ان میں سے زیادہ تر انٹرفیس کو ناگوار نیورو سرجری کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ابھی تک تجرباتی مراحل میں ہیں۔ اس لیے ان کے عام طور پر دستیاب ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔‘
2018 میں وفات پانے والے برطانوی سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کا حوالہ دیتے ہوئے مسک کا کہنا تھا کہ 'تصور کریں کہ اگر اسٹیفن ہاکنگ کسی تیز رفتار ٹائپسٹ یا نیلام کرنے والے سے زیادہ تیزی سے اپنی بات سمجھا سکتے۔'
اگرچہ نیورالنک سے ایلون مسک کے منسلک ہونے کی وجہ سے اس کو زیادہ اہمیت مل رہی ہے، مگر ان کا مقابلہ ایسی درجنوں کمپنیوں سے ہے جو سالوں سے اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
امریکی ریاست یوتاہ میں قائم بلیک روک نیورا ٹیک نے اس طرز کا پہلا دماغی کمپیوٹر انٹرفیس 2004 میں لگایا تھا۔
نیورالنک کے ایک سابقہ بانی کی قائم کردہ کمپنی پریسیشن نیوروسائنس نے بھی فالج کے شکار افراد کی مدد کے لیے ایک ایسا آلہ بنایا ہے۔
پریسیشن نیوروسائنس کا بنایا گیا آلہ ایک باریک سے ٹیپ کر طرح ہے جسے دماغ کی اوپری سطح پر لگایا جاتا ہے۔ کمپنی کا کہنا کہ اس کو نصب کرنا انتہائی آسان ہے کیونکہ اس کے لیے ایک معمولی آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
موجودہ آلات سے بھی مثبت حاصل ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کیے گئے دو الگ الگ امریکی سائنسی مطالعات میں، ان امپلانٹس کا استعمال کر کے بولتے وقت دماغ میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کی گئی۔ بعد ازاں اس ڈیٹا کو ان افراد کو بات چیت میں مدد دینے کے لیے ڈی کوڈ کیا جا سکتا ہے۔
کنگز کالج لندن کی پروفیسر این نے کہا ہے کہ ’طبی آلات بنانے والی کسی کمپنی کے لیے انسانوں پر اس کی پہلی آزمائش بڑی کامیابی ہے۔
’اس پر کئی کمپنیاں دلچسپ پراڈکٹس پر کام کر رہی ہیں تاہم چند ہی ان آلات کو انسانوں کے دماغ میں نصب کرنے میں کامیاب ہوئیں۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ اصل کامیابی کا جائزہ طویل مدت میں لگایا جاسکے گا۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ ایلون مسک کو اپنی کمپنی کی پبلیسیٹی کرنا آتا ہے۔‘
ایلون مسک کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہی نیورالنک کی فراہم کردہ معلومات منظر عام پر لائی گئی ہے۔
اس شعبے میں سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی نے بھی اس وقت کامیابی حاصل کی تھی جب ایک معذور شخص کو چلنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ یہ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں الیکٹرانک اپلانٹس کی مدد سے ممکن ہوا جو ٹانگوں اور پیروں کو پیغام بھیج پائے۔